Asrar-ut-Tanzil - Az-Zumar : 22
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس ۔ جس شَرَحَ اللّٰهُ : اللہ نے کھول دیا صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر نُوْرٍ : نور مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اپنے رب کی طرف سے فَوَيْلٌ : سو خرابی لِّلْقٰسِيَةِ : ان کے لیے ۔ سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مِّنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی یاد اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
بھلا جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو تو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور (روشنی) پر ہو پس ان پر افسوس ہے جن کے دل اللہ کے ذکر سے سخت ہو رہے ہیں (یعنی ذکر نہیں کرتے) یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں
رکوع نمبر 3 ۔ آیات 22 ۔ تا۔ 31: اسرار و معارف : اور بھلا جس کا سینہ اللہ نے کھول دیا اسلام کی خاطر یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے اور انابت الی اللہ سے اسلام کے احکام اور اس کی حقانیت کو سمجھنے کی استعداد حاصل ہوگئی اور احکام الہی اس ک ےلیے نور یعنی راستے کی روشنی بن گئے اس کے ساتھ ان کا کیا مقابلہ جن کے دل قساوت اور سختی سے بھر کر ذکر الہی سے محرم ہوگئے ایسے لوگ تو ایسی گمراہی اور غلط روش میں گرفتار ہوئے جسے وہ خود بھی غلط سمجھ رہے ہوتے ہیں یعنی اللہ اپنے کرم سے اگر شرح صدر عطا فرمائیں تو دل ذاکر ہوجاتا ہے اور اس میں نور پیدا ہوجاتا ہے جو نیکی اور بھلائی کی محبت و طلب پیدا کرکے اتباع شریعت کو آسان بنادیتا ہے اسی طرح ذکر قلبی نصیب ہو تو اللہ کریم سینہ کھول دیتے ہیں لیکن اگر کسی کا دل اتنا سخت ہوجائے کہ اسے ذکر قلبی نصیب ہی نہ ہو یاد رہے ذکر قلبی کا کم از کم درجہ ایمان لانے کے ساتھ قلبی تصدیق ہے اگر اتنا بھی نہیں تو پھر اس کی گمراہی میں کیا شبہ۔ اللہ تو بہت کریم ہے اس نے بہت خوبصورت اور حقائق سے پر کتاب نازل فرمائی جو دہرا دہرا کر حق باتوں کی تاکید فرمائی اور جہاں نور ایمان ہو وہاں اس کتاب کے حقائق رونگٹے کھڑے کردیتے اور پھر ان کی کھال سے لے کر دل تک ہر ذرہ بدن اللہ کا ذکر کرنے لگتا ہے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق ؓ سے رویت ہے کہ اکثر صحابہ کا یہی حال تھا کہ ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا تو آنکھوں میں آنسو آجاتے اور بدن کے بال کھڑے ہوجاتے تھے اور یہ اللہ کی طرف سے راہ ہدایت ہے جس پر کرم فرمائے اور جسے چاہے یہ نعمت عظمیٰ عطا فرما دیتا ہے اور جس کی بات اللہ ہی سے بگڑ گئی ہو اور اس کی وجہ سے اللہ نے اسے ہدایت سے محروم کردیا پھر اسے کوئی ہدایت کی راہ پر نہیں ڈال سکتا۔ بلکہ اس کا حال تو یہ ہوگا کہ دوزخ کے بھڑکتے شعلے سیدھے اس کے منہ پر پڑیں گے اور اس کا چہرہ ہی اس کی ڈھال ہوگا یعنی چہرہ بچانے کے اسباب بھی اس کے پاس نہ ہوں گے روز حشر یہ بات سامنے آجائے گی اور ان ظالموں سے کہا جائے گا کہ تم نے کفر و شرک کی راہ اپنائی تھی اور جو ظالمانہ کردار اپنایا تھا اب اس کا مزہ چکھو۔ دنیا میں بھی تباہ ہی ہوں گے جس طرح ان سے پہلی قوموں نے جب یہ راستہ اختیار کیا تھا تو اللہ نے دنیا کی ذلت سے دوچار کرکے تباہ کردیا تھا اور آخرت کا عذاب تو کئی گنا سخت اور بہت بڑا ہے کاش یہ اس بات کو جان لیتے کہ ہم نے تو ہر طرح کے عقلی اور نقلی دلائل دے کر قرآن حکیم کو نازل فرمایا ہے کہ یہ لوگ بات سمجھ پائیں۔ خوبصورت پیاری عربی زبان میں جس میں خوب روانی ہے تاکہ یہ اللہ سے تعلق قائم کرسکیں۔ اللہ نے مثال کے طور پر فرمایا ہے کہ ایک شخص کے کئی مالک ہوں جن کی آپس میں بھی نہ بن سکتی ہو اور دوسرا کسی ایک ہی کے لیے خاص ہو بھلا کبھی ایک جیسے ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں اور یہ سب احسانات ہیں اللہ کے جسے سب تعریفیں سزوار ہیں اور لوگوں کی اکثریت ان حقائق کے علم سے محروم ہے آپ کو بھی جہان فانی سے دار بقا کو تشریف لانا ہے اور انہیں بھی موت کی راہ سامنے ہے اسی سے گزر کر آنا ہے اور پھر میدان حشر میں اللہ کے حضور پیش ہونا ہے وہاں سب بات طے ہوجائے گی اور ہر ایک کو اپنی بات پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ یا پر اگر تشید ہو تو میت کا معنی آئندہ مرنے کا آتا ہے لہذا اس آیت میں حیات النبی کی بات نہیں قانون قدرت کی بات ہو رہی ہے کہ سب کو اسی راہ سے گزر کر میدان حشر میں پہنچنا ہے نیز حیات النبی کا یہ معنی بھی نہیں کہ آپ ﷺ پر موت وارد نہیں ہوئی بلکہ انبیاء کی موت ہی یہ ہوتی ہے کہ روح کا تعلق عالم دنیا سے بدل کر عالم برزخ اور آخرت سے جوڑ دیا جاتا ہے حیات ویسی ہی رہتی ہے جیسی دنیا میں تھی۔
Top