Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز کو کوتاہ (قصر) کرو اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈالیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
رکوع نمبر 15 آیات 101 تا 104 ۔ اسرار و معارف : واذا ضربتم ۔۔۔ علیما حکیما۔ اللہ کریم نے جہاں دین میں استقامت اور ہمت و جرات کا حکم فرمایا ہے وہاں رخصتیں بھی دی ہیں۔ رعایتیں بھی برتی ہیں جیسے حدیث معراج میں مشہور واقعہ ہے کہ پچاس نمازوں کا حکم ہوا ایک رات دن میں پڑھی جائیں تو آپ ﷺ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کمی کی درخواست کرنے کا مشورہ دیا الغرض بار بار جانا آنا ہوا حکم ہوا چالیس کردیتے ہیں پھر تیس ، بیس ، دس ، حتی کہ پانچ تو روایات میں ملتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا یا رسول اللہ پانچ بھی زیادہ ہیں۔ میری امت دو کا حق بھی ادا نہ کرسکی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا اب مزید درخواست کرتے ہوئے شرم آتی ہے کہ پچاس سے پانچ تو کروا لیں۔ اللہ کریم کو یہ ادا بہت پسند آئی اور فرمایا تیرے اس شرم کے صدقے اب پانچ ادا کریں گے۔ مگر اجرپچاس کا دوں گا۔ ثواب اتنا ہی عطا کروں گا جتنا پچاس پہ کرنا تھا۔ لہذا جس طرح عزیمت پر عمل کرنے سے ثواب ہوتا ہے۔ رخصت پہ عمل میں بھی اسی طرح ثواب حاصل ہوتا ہے۔ یہاں ایسے ہی رعایت عطا کی گئی جس کی وجہ تو ہجرت کے سفر اور جہاد کے سفر بنے مگر ہر قسم کے سفر میں اس کا فائدہ عام ہوگیا کہ حالت سفر میں نماز کی رکعات کو کم کرلیا کرو یعنی چار کی جگہ دو رکعت ادا ہوں اگر موقع نصیب ہوسنت ، نوافل ادا کرے تو پورے کرے گا مگر فرض چار کی جگہ دو ۔ صبح کے پہلے ہی دو ہیں اور مغرب کے تین ہی پڑھے جائیں گے۔ علماء کے مطابق سفر تین منزل ہونا چاہئے۔ جبکہ ایک منزل تقریبا سولہ میل شمار ہوتے ہیں اور شہر سے نکلتے ہی نماز قصر شروع ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کسی جگہ پندرہ روز یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا پروگرام بن گیا تو مقیم یعنی وہاں کا رہنے والا شمار ہوگا اور نماز پوری پڑھے گا۔ ورنہ دو رکعت ہی ادا کرے گا۔ حتی کہ اگر دوران سفر قضا ہوگئی تو بھی قصر ہی کی قضا پڑھی جائے گی۔ غرض فقہی تفصیل دوسری جگہوں پہ دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا مقصود تھا کہ حالت سفر میں رعایت فرما دی لیکن حاضری سے چھٹی نہیں دی کہ آدمی سے نماز معاف ہوجائے ہرگز نہیں اور دوسری صورت سفر ہجرت میں بھی پیش آسکتی ہے اور جہاد کے سفر میں بھی وہ ہے کافروں سے نقصاں پہنچنے کا اندیشہ کہ مسلمان تو سارے سر بسجود ہوں کفار ٹوٹ پڑیں اور گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیں کیونکہ کافروں کی دشمنی میں تو کوئی شبہ نہیں نہ ان سے کسی رعایت کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ اب دیکھئے یہاں کس قدر خطرناک حد تک حالات نازک ہیں مگر ارشاد ہوتا ہے اے میرے حبیب ﷺ اگر آپ ساتھ ہوں مراد یہ کہ آپ نہ ہوں تو جو امیر و امام ہو نماز شروع کرے مگر ایک جماعت نگہبانی کے لیے اسلحہ سے لیس کھڑی رہے اور ایک جماعت آپ کے ساتھ ایک رکعت ادا کرے یہ لوگ بھی اپنا اسلحہ اپنے پاس رکھیں اور جب ایک رکعت ادا ہوچکے تو یہ لوگ پہرے پہ چلے جائیں۔ اور دوسرے ایک رکعت امام کے ساتھ ادا کرلیں پھر امام تو فارغ ہوجائے گا۔ یہ اپنی دو پوری کریں گے۔ پھر پہلے والے آ کر ایک رکعت مزید ادا کریں گے۔ تو اس طرح کفار کی طرپوری پوری نگاہ بھی رہے گی اور اللہ کی عبادت بھی ہوگی۔ یعنی اسلام نہ عبادت چھوڑنے کی رخصت دیتا ہے نہ عملی زندگی سے فرار کا کوئی راستہ بلکہ اللہ کی یاد کے ساتھ بھرپور عملی زندگی جو اطاعت رسول کا نمونہ وہی اسلام ہے۔ چونکہ کافر کی خواہش ہے اور رہے گی کہ وہ اسلام کا نام تک مٹا دیں اس لیے مسلمان کو ہمیشہ مسلح بھی رہنا چاہئے اور اسلحہ کے استعمال سے آگاہی بھی حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اسلام کی حفاظت کی جائے تو اب ضروری ہے کہ اس کی عملی زندگی میں اسلام موجود ہو اگر اسلام ہی نہ ہوگا تو پھر وہ یہ سب کچھ کرے گا کس لیے سو عین حالت جنگ میں گولہ باری بھی جاری رکھو۔ باری باری نماز بھی دوگانہ ادا کرلو کہ سفر کی طرح حالت خوف میں بھی قصر ہی پڑھی جائے گی۔ ورنہ کافر تو چاہتے ہیں کہ تم سب عبادت میں لگ جاؤ تو تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں بلکہ ان آیات کے شان نزول میں اس طرح کا واقعہ ملتا ہے کہ کافر حالات کا مشاہدہ کرتے رہے اور آخر یہ فیصلہ کیا کہ جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوں گے ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔ مگر اللہ کریم نے آپ ﷺ کو مطلع فرما دیا اور آئندہ یہ احتیاطی طریقہ تعلیم فرما دیا کہ ایک ایک رکعت با جماعت اور ایک ایک اپنی پڑھ لیں۔ چار کی دو پڑھ لیں مگر چھوڑ نہ دیں ، اب ذرا ہمیں ، میری مراد اس دور کے مسلمان سے ہے غور کرنا چاہئے کہ کیا ہمارے کردار میں نماز کی یہی اہمیت ہے ہاں اور رعایت بھی ہے کہ بارش وغیرہ یعنی موسمی خرابی ہتھیار لگانے سے مانع ہے یا کسی بیماری اور مرض کی وجہ سے ہتھیار نہیں لگا سکتے تو کھول کر رکھ لو۔ چونکہ اس دور کے ہتھیار تو بدن پر سجائے جاتے تھے۔ اس لیے اجازت ہے پورے ہتھیار نہ لگاؤ مگر اس قدر ضرور لے لو جس سے کم از کم دفاع تو کرسکو۔ بچاؤ تو کرسکو۔ یہ بات طے ہے کہ ذلت کافر کا مقدر ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ مگر دنیا عالم اسباب ہے تمہیں سبب اختیار کرکے اللہ پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ یہی توکل ہے اور آخرت انعام باری ہے۔ دنیا میں اطاعت کرنے کا۔ سو یہ دو کام تم کرو۔ کافروں کا انتظام ہم کریں گے۔ نہ صرف دنیا میں ذلیل ہوں گے بلکہ آخرت میں اس سے بڑھ کر ذلیل ہوں گے۔ اب جو یہ دو کام تمہارے ذمے لگ گئے بھلا یہ کیسے ہوں گے مشکل لگتے ہیں۔ اوقات عبادت میں عبادت ، کام کے وقت کام ، وہاں رسومات سے اجتناب ، یہاں حرام سے پرہیز سوچ اور آرزو تک پر پابندی پھر اس کے ساتھ کفر سے ہمہ وقت مقابلہ جان کا خوف الگ یہ آسان کام نہیں۔ فرمایا اس کا بھی ایک نسخہ ہے کہ نماز تو ادا کی ختم ہوگئی مگر اللہ کا ذکر تو ختم نہیں ہوتا۔ اللہ کا ذکر کرو اس شدت سے اس کثرت سے کہ کھڑے بیٹھے لیٹے کوئی حال اللہ کی یاد اس کے نام ، اس کے ذکر ، سے خالی نہ ہو اس کو اس کے نام کو اس کی تجلیات کو دل میں بسا لو ، سمو لو ، اپنے اندر جذب کرلو۔ پھر دیکھو کس قدر سکون ملتا ہے ، کتنا اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ ذرا پھر نماز پڑھ کے دیکھو کچھ حالت بدل گئی یا نہیں۔ یہاں جو لوگ نماز کو ذکر کا بدل قرار دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ بیک وقت نہ صرف نماز بلکہ صلوۃ الخوف کا بیان ہو رہا ہے جو حالت جہاد میں ادا کی جاتی ہے۔ پھر بھی حکم ہے نماز ختم ہوگئی ذکر الہی ختم نہیں ہوتا لڑ رہے ہو حملہ کر رہے ہو گر رہے ہو یا لیٹ گئے ہو آرام کرنا بھی مراد ہوسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہ زخمی ہو کر گر گئے ہو روح پرواز کے لیے پر تول رہی ہے مگر ذکر الہی جاری رہے پتہ نہیں جو حضرات لوگوں کو ذکر الہی سے روکتے ہیں وہ ان آیات سے کیسے گذر جاتے ہیں۔ پھر جب سکون ہو پوری اور باقاعدہ نماز ادا کرو اور یہ بھی درست ہے کہ ذکر مسلسل سے بھی نماز کی کیفییات میں فرق آئے گا جب اطمینان نصیب ہوگا تو سجدوں میں اور سی لذت ہوگی اور نماز تو اس کے مقررہ اوقات میں ادا کرنا فرض ہے۔ یعنی اپنی شرائط اور اوقات کے ساتھ نماز کی ادائیگی تو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اور کفار کے تعاقب میں کبھی سستی مت دکھاؤ۔ اگر تمہیں تکالیف ہیں ، تھکاوٹ ہے یا زخمی ہو یا راشن اور کھانے پینے کی اشیاء کی کمی کا سامنا ہے تو یہی شمکلات ان کے لیے بھی تو موجود ہیں کہ آخر وہ بھی تو حالت جنگ میں ہیں۔ اور تمہیں اللہ کریم سے کتنی نوازشوں کی امید ہے۔ کس قدر امیدوارِ کرم ہو حتی کہ دیدار باری کی تمنا لیے بیٹھے ہو انہیں تو ایسی کوئی امید بھی نہیں جو میدان جنگ میں ان کی ڈھارس ہی بندھا سکتی۔ اللہ کریم سب کچھ جانتے بھی ہیں اور بہت بڑے حکمت والے بھی ہیں۔ سو ہر ایک کو اس کے عمل اور اس کی نیت ، اس کے خلوص کا بدلہ دیں گے نیز اتنا ہی کام بھی کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جتنی اللہ کی طرف سے قوت کار عطا ہوتی ہے۔
Top