Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 116
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ يُّشْرَكَ : کہ شریک ٹھہرایا جائے بِهٖ : اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشے گا مَا : جو دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : اور جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ ضَلَّ : سو گمراہ ہوا ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو یقینا اللہ اس (جرم) کو نہیں بخشتے اور اس کے علاوہ جس کو چاہیں بخش دیں اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا تو وہ بہبت دور کی گمراہی میں جاپڑا
رکوع نمبر 18 ۔ آیات 116 تا 126 ۔ اسرار و معارف : ان اللہ لا یغفر ۔۔۔ محیطا۔ ایک اور بہت بڑی جماعت ان جہلا اور نادانوں کی ہے جنہوں نے اپنے آپ کو شرک جیسی مصیبت میں ڈال رکھا ہے اور وہ اوصاف جو صرف اللہ کو سزا وار ہیں دوسروں کو ان میں حصہ دار مانتے ہیں یا پھر وہ اطاعت جو صرف اللہ کا حصہ ہے اس میں دوسروں کو شریک کرلیتے ہیں یہی تین گروہ تھے علمائے یہود اور یہود و نصاری۔ جو ایمان نہ لائے تھے یا منافقین جو بظاہر ایمان لانے کا اظہار و اقرار کرتے مگر دل سے ایمان دار نہ تھے اور تیسرے مشرکین مکہ و عرب دنیا کی آبادی بلحاظ مذہب و ملت انہی تین گروہوں میں تقسیم کی جاسکتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے سوائے اس کے ک کہ جدید روشنی کے اندھیروں نے ذات باری کا سرے سے انکار کیا ہے اور ایک گروہ ایسا پیدا ہوچکا ہے جو اللہ کے وجود ہی کا قائل نہیں تو رب جلیل نے جہاں معاشرتی انصاف کا حکم دیا وہاں معاشرے کی حفاظت کا سوال پیدا ہوا تو انتظامی امور پہ روشنی ڈالی اور ساتھ جہاد کا حکم دیا اب کیسے لوگوں کے خلاف جہاد کی جائے گا اس کی حدود کیا ہوں گی اس کا جواب ارشاد فرمایا تو ایسے لوگ سامنے آگئے جو اسلام کا دعوی بھی رکھتے ہوں گے اور جہاد سے بھی بھاگیں گے سو کفار منافقین اور تیسرے گروہ مشرکین کا تذکرہ بھی فرما دیا۔ کہ شرک ایسا جرم ہے کہ جس کا خاتمہ شرک پر ہوگیا وہ کبھی بخشا نہ جائے گا اور اس کے علاوہ کوئی بڑے سے بڑا گناہ کرکے بغیر توبہ کے بھی فوت ہوگیا تو اللہ کی مغفرت کو عاجز نہیں کرسکتا لیکن اگر شرک پر مرا اور بغیر توبہ کے مرا تو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا اور ابدی زندگی دوزخ میں گزارے گا چونکہ عقیدہ ابدی اور دائمی چیز ہوتا ہے جو کوئی شرک اور کفر بھی اختیار کرتا ہے اپنی طرف سے بہتر سمجھ کر اور ہمیشہ کے لیے زندگی بھر کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ اس لیے سزا بھی ہمیشہ کے لیے کہ جس نے شرک اختیار کیا اس نے بہت ہی غلط راستے کا انتخاب کیا۔ اور حق سے بہت دور جا پڑا۔ شرک کی قسمیں : شرک کی متعدد قسمیں ہیں : 1 ۔ پہلی قسم تو یہ ہے کہ کوئی اللہ کی ذات میں کسی دوسرے کو شریک کرلے اور دو یا تین یا اس سے زیادہ معبود مقرر کرلے۔ یہ بہت کم ہے سوائے عیسائیوں کے جو تین میں ایک اور ایک میں تین کے قائل ہیں یا شیعہ کا فرقہ حلولیہ جو اللہ کے حلول کے قائل ہیں کہ امام میں داخل ہوجاتا ہے جیسے اسمعیلی بھی حلولیہ کی ایک شاخ ہیں۔ 2 ۔ دوسری قسم شرک کی وہ تصور ہو جو بعض مخلوق کے ساتھ پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ خدا تو نہیں لیکن اللہ کی طرف سے اجازت یافتہ ہے جو چاہے کرے اگر یہ خوش ہو کر کوئی بات کہہ دے تو اللہ کبھی نہیں ٹالتا یا اسی کو نظام تفویض کردیا ہے جس کی مثال ہندوؤں کے ہاں دیوی دیوتا اور شیعوں میں فرقہ مفوضہ ہے یہی لوگ کبھی بت اور کبھی تعزئیے وغیرہ بنا کر ان کو راضی کرنے میں بڑی محنت کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارا کام کروا دیں گے اور۔ 3 ۔ تیسرا اور سب سے خطرناک شرک یہ ہے کہ انسان اپنی اپنے آپ کی اپنی ذات کی عبادت شروع کردے اور سارا دن ساری رات صرف اپنی خواہشات کی تکمیل میں صرف کردے اگر اللہ کا حکم بھی راستے میں حائل ہو تو اس کی پرواہ نہ کرے حلال و حرام کو نہ سوچے بلکہ ذاتی شہرت اور انا کی خاطر دولت بھی صرف کرے الیکشن بھی لڑے نمازیں بھی پڑھے روزے بھی رکھے نیک کام کرے یا گناہ کا کام مگر مقصد صرف اپنی خواہشات کی تکمیل ہو ایسے ہی لوگوں کو قرآن کریم فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا ہے اللہ کریم اس سے پناہ دے اس کی سمجھ بھی مشکل سے آتی ہے اور خدانخواستہ اگر خاتمہ شرک پر ہوگیا تو امید نجات بھی نہیں کہ زندگی میں توبہ کرلی تو درست۔ موت کے آثار یا آخرت کا کشف شروع ہوگیا تو کفر اور شرک سے توبہ کا وقت نکل گیا ہاں گناہ سے توبہ کی گنجائش مسلمان کیلئے تب بھی موجود ہے فرمایا ان کی جہالت دیکھو یہ زنانہ بت بنا کر یا زنانہ ناموں کو پوجتے اور ان کی عبادت کرتے ہیں انہیں مدد کے لیے پکارتے ہیں اور مشرکین فرشتوں کو بھی خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے عبادت در اصل کسی کو ذاتی طور پر نفع پہنچانے والا یا نقصان سے بچانے والا یعنی نافع یا دافع ضرر سمجھ کر اس کی بات مان لینے کو کہا جاتا ہے اب اللہ کا بندہ تو کبھی اللہ کے مقابلے میں اپنی حیثیت نہیں منوائے گا وہ تو اللہ اور اس کے رسول کی بات پہنچائے گا تو اس کی اطاعت اللہ کی عبادت ہوگی لیکن کوئی شخص اپنی طرح سے حکم دے اور اللہ کے خلاف دے تو اللہ کا حکم چھوڑ کر اس کا حکم ماننا اسلام سے خارج کردے گا ایسے ہی کسی کو اس مرتبہ و منصب کا سمجھ کر پکارنا اور منت ماننا اس کے آگے رونا گڑگڑانا خواہ وہ واقعی کوئی وجود ہو یا ہمارے تخیل نے تراش رکھا ہو یہ سب شرک و کفر اور غیر اللہ کی عبادت قرار پائے گا۔ اہل مکہ عورت کو انسان تک ماننے کے لیے تیار نہ تھے محض ایک کھلونا سمجھتے تھے اور یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی عورت بھی گھر کا نظام چلا سکتی ہے اگر چند امیر کبیر خواتین کاروبار کرتی بھی تھیں تو مرد ملازموں سے کام لیتی تھیں اور مرد بزرگوں کی سرپرستی میں اور وہ بھی محض چند ورنہ مرنے والے کی بیویاں ، اس کی اولاد جائداد اور وراثت کی ساتھ تقسیم کرلی جاتی تھیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کی عقل پہ کیسے پتھر پڑے ہیں کہ عورت کو ایک گھر چلانے کا اہل نہیں مانتے اور ساری کائنات چلانے کی اہلیت مان رہے ہیں اور زنانہ ناموں کے بت بھی بنا رکھے ہیں اور انہیں پوجتے بھی ہیں اور پکارتے بھی در اصل یہ سب شیطان کی کرشمہ سازیاں ہیں اللہ کو چھوڑ کر کسی کو پکارو اور کسی نام سے پکارو سامنے تو صرف شیطان ہی ہوگا یہ بھی اسی سرکش شیطان کو پکارتے ہیں جو اللہ کا نافرمان ہو کر مردود ہوا جس پر لعنت کی گئی تو اس نے کہا تھا کہ اے اللہ جس بندے کی عظمت نہ ماننے پہ مجھے سزا ملی ہے میں اس بندے سے اپنی عظمت منواؤں گا اور ایک قابل ذکر حصہ ضرور لے ڈوبوں گا یعنی نماز کے وقت مصروفیت یاد دلا کر زکوۃ کے وقت فقرا اور تندگدستی کا خوف دلا کر جہاد کے وقت جان کا اندیشہ دل میں ڈال کر پھر دولت شہرت اقتدار کی ہوس پیدا کرکے میں انہیں بہکاؤں گا انہیں جھوٹی امیدیں دلاؤں گا اور یہ بتوں کے نام پر جانوروں کے کان چیرا کریں گے یعنی جانور مختص کردیں گے اور اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں گے جیسے عورتیں بال کٹا دیں بھنویں کٹا دیتی ہیں یا مردانہ لباس استعمال کرتی ہیں اور مرد داڑھی منڈواتے ہیں یا بالوں کا نمونہ عورتوں کا سا بنا لیتے ہیں یا لباس زنانہ پہن لیتے ہیں۔ یہ سب فسق ہے اور نبی رحمت ﷺ نے ایسا کرنے والوں پہ لعنت فرمائی ہے یاد رہے زینت یعنی بناؤ سنگھار عورت کو منع نہیں مگر شکل کا بدلنا خواہ بال کٹا کر یا لباس سے درست نہیں اور جس نے بھی شیطان سے دوستی کی یعنی امور بالا شیطان کی دوستی کا ثمر ہیں اگر کوئی اور آگے بڑھ گیا یہ اس کی اور بھی بدقسمتی ہوگی تو اس نے اللہ کو چھوڑ دیا کہ بیک وقت دو طرف دوستی ممکن نہیں اور جس نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کی دوستی پر بھروسہ کیا اس نے بہت بڑا نقصان کرلیا۔ ناقابل تلافی نقصان کہ یہ ان سے جھوٹے وعدے کرتا رہے گا اور انہیں امیدیں دلاتا رہے گا حالانکہ اس کے سارے وعدے سوائے فریب کے کوئی حقیقت نہیں رکھتے بالآخر ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہوگا جہاں سے بھاگنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ان کے مقابلے میں جن کو ایمان کی دولت نصیب ہوگی اور ان کے اعمال بھی اس کی شہادت دیں گے ایمان اور عمل صالح کا رشتہ دعوے اور گواہ کا ہے کہ ایمان دعوی ہے اور عمل اس پر گواہ نیز عمل میں صالحیت کا ہونا ہی صحت ایمان کی دلیل بھی ہے کہ عمل وہی صالح ہوگا جو نبی رحمت ﷺ کے حکم کے مطابق ہوگا اور آپ کی اطاعت ہی ایمان کے درست ہونے کی دلیل بھی ہے تو ایسے لوگوں کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے یا انہیں ایسے باغات عطا فرمائیں گے جن کی ضرورت کے مطابق نہریں بہتی ہیں دنیا میں تو جہاں پانی کی رسائی ہے اس کے مطابق باغ لگایا جاسکتا ہے مگر آخرت کے باغ اور جنت کے باغ اپنا علیحدہ قانون رکھتے ہیں وہاں باغ کی ضرورت کے مطابق نہر کو وجود میں آنا ہوگا یا پانی کو پہنچنا ہوگا اور پھر وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے جنت میں داخل ہونے والا کوئی فرد ایسا نہیں ہوگا جسے پھر وہاں سے نکالے جانے کا ڈر ہو اور یہ اللہ کریم کا سچا وعدہ ہے شیطان کے سارے وعدے جھوٹے تھے مقابلے میں اللہ کا سچا اور پکا وعدہ ہے اور بھلا اللہ سے بڑھ کر کون سچا ہوسکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنا تعلق محض کسی مذہب سے ظاہر کرلینا نجات کو کافی نہیں جیسا کہ اہل کتاب کو امید ہے کہ وہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے بخشے جائیں گے ہرگز نہیں جو بھی برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا اور اس سزا سے بچانے والا یا مدد کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ملے گا نہ کوئی ہوسکتا ہے یہاں ایک حدیث کا مفہوم نقل کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ صحابہ نے بہت ڈر محسوس کیا حتی کہ ابوبکر صدیق کمر پر ہاتھ رکھ کر چل رہے تھے تو نبی رحمت ﷺ نے پوچھا کیا بات ہے عرض کی یا رسول اللہ اس آیت نے کمر توڑ دی بھلا کون ہے جس سے چھوٹی موٹی خطا سرزد نہ ہو تو کوئی بھی نہیں بچ سکے گا فرمایا نہیں اس سے مراد سب کے لیے جہنم کی سزا نہیں ہے وہ تو کافر کا حصہ ہے مومن بیمار پڑتا ہے یا دنیا میں رنج اٹھاتا ہے حتی کہ اس کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے تو بھی گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور اس سزا کا بدل قرار پاتا ہے سیدہ عائشہ الصدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ مومن ایک چیز ایک جیب سے تلاش کرتا ہے نہیں ملتی پریشان ہوتا ہے پھر دوسری جیب سے مل جاتی ہے یہ بھی کسی گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ نیکی کیا ہے : اب رہی بات نیکی کی کہ وہ کیا ہے فرمایا پہلی بات تو یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنے میں مرد عورت دونوں برابر کے شریک ہیں اگرچہ بعض احکام بعض وجوہ کی بنا پر مختلف ہیں مگر جواب دہی میں کوئی فرق نہیں جزا اور سزا میں کوئی فرق نہیں جو کمال بعد از نبوت مرد حاصل کرسکتا ہے خاتون بھی کرسکتی ہے کہ سب سے بڑا کمال تو صحابیت ہے جہاں مرد صحابی بنے خواتین بھی صحابیات بن گئیں پھر ولایت کا تو کوئی ایسا درجہ نہیں جو خواتین کے لیے ممنوع ہو ہاں شرط یہ ہے مرد ہو یا عورت عمل نیک کرے یعی وہ عمل رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو دوسرے اس کا ایمان یعنی عقیدہ درست ہو۔ رسومات اور رواجات کو دین کا درجہ نہ دے بلکہ جو بات رسول اللہ ﷺ سے پہنچی ہو اسی کو درست مانے عقیدے کے ماملے میں بھی اور اسی کے لیے کوشاں ہو میدان عمل میں بھی ایسے لوگ مرد اور عورتیں یقیناً جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے کام سے تل بھر بھی ضائ عنہ جائے گا بلکہ کام سے بہت زیادہ ملے گا کم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اصل دین یا کمال دین کیا ہے : اب دین کا حسن کیا ہے کمال دین کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر سر تسلیم کو خم کردے یعنی عملی زندگی میں وہ طریقہ پوری کوشش سے اپنا لے جو اللہ کی اطاعت کے لیے ضروری ہو اور اس پر محنت کرے راستے میں دکھ آئیں برداشت کرے یہ تو بات ہے ظاہر کی۔ اب اندر سے وہ انتہائی مخلص ہو دل خلوص کی دولت سے مالا مال ہو اس کی تعریف آپ نے حدیث احسان میں فرمائی ہے کہ اللہ کی عبادت ایسے کی جائے گویا آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ درجہ نصیب نہ ہو تو کم از کم یہ ضرور ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور یہی سارے سلوک کی بنیاد ہے جب تک کوئی انسان مرد ہو یا عورت اس کا دل اللہ اللہ نہ کرے اور اسے توجہ اور تجلیات باری نصیب نہ ہوں اس کا اللہ کے روبرو ہونا یا اللہ کو اپنے روبرو خیال کرنا تو دور کی بات ہے دل آدمی کے ساتھ مسجد میں آتا ہی نہیں بازار میں رہ جاتا ہے کاروبار میں رہ جاتا ہے عزیز و اقارب میں رہ جاتا ہے سو فرمایا دین کا حسن یہ ہے کہ عمل صالح ہو ظاہ رہے جب تک آپ ﷺ مبعوث نہیں ہوئے تھے اہل کتاب کا عیسیٰ (علیہ السلام) کی اطاعت کرنا عمل صالح تھا ہاں جو چیزیں انہوں نے از خود ایجاد کرلی تھیں وہ تو اطاعت ہی نہ رہیں تو صالح کیا ہوں گی اور دوسرے صدق دل سے یعنی عمل سنت کے مطابق ہو اور خلوص کے ساتھ ہو یہ کسی بھی آدمی کے دین کے حسن کا معیار ہے اب ہر آدمی خود اندازہ کرسکتا ہے کہ اس کا دین کس قدر حسین ہے یا نہیں۔ دین نام ہے ملت ابراہیمی کا جو بالکل سیدھے چلنے والے تھے ملت ابراہیم (علیہ السلام) کا معنی بھی واضح ہوگیا کہ اس طرح تک سیدھا چلنا جیسے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) چلتے تھے جنہوں نے عمر بھر اطاعت کی کبھی کسی حکم کی وجہ جاننے کی کوئی کوشش بھی نہیں فرمائی سو حسن اسلام عمل میں محنت دل میں خلوص اور ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح سیدھے چلنے کا نام ہے جب ہی تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست پسند فرمالیا تھا اور اپنا خلیل بنا لیا تھا یوں تو ارض و سما میں جو کچھ ہے سب ہی اللہ کا ہے مگر کسی کو اپنے لیے خاص کرلینا بالکل دوسری بات ہے عبد دیگر عبدہ چیزے دگر۔ اور اللہ تعالیٰ تو ساری کائنات کو اپنے سوا ہر شے کو احاطہ فرمائے ہوئے ہیں یہ زمین آسمان تو کائنات میں ایک چھوٹی سی شے ہے۔
Top