Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور ناسمجھوں کو اپنے وہ مال جسے اللہ نے تمہارے لئے معیشت کا سبب بنایا ہے مت دو اور ان کو اس میں سے کھلاؤ اور ان کو پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہتے رہو
آیت 5- 6: ولا توتوا السفھاء اموالکم۔ ۔۔۔ اسلام میں دولت کی اہمیت : ہاں مال اس قدرت بےوقعت بھی نہیں کہ اسے ضائع کیا جائے بلکہ مال کی حفاظت بھی بہت ضروری ہے کہ یہ ایک بہت بڑی قوت ہے اور انسانی زندگی کا مدار اس پر ہے سو مالدار ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ حلال ذرائع سے کمانا اور پھر اس کی حفاظت ضروری ہے کہ صرف ضرورت کے مطابق خرچ کیا جائے اور ضائع ہونے سے بچایا جائے اگر کوئی اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا گیا تو شہید ہوگا جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔ من قتل دون مالہ فھو شہید۔ سو کسی ایسے عزیز کے سپرد مال نہ کیا جائے جو بےعقل ہو اور سنبھال نہ سکے خواہ یتیم ہو یا اپنا بچہ یا عورت لیکن اس میں سے اس کی ضروریات کو مناسب طریقے سے پورا کرو اور نہایت لطف سے پیش آؤ یعنی مال کی حفاظت مقصود ہے کسی کو دوسرے پر مسلط کرنا مراد نہیں ہے ایسے یتیم جب نکاح کی حالت کو پہنچیں یعنی بالغ ہوجائیں تو ان کو پرکھ لو آزما لو اگر وہ ہوشیار معلوم ہوں یعنی ان میں بھلے برے کی تمیز آجائے اور نفع نقصان کی خبر رکھتے ہوں تو ان کے اموال انہیں لوٹا دو اور ان کے مالوں میں اسراف یعنی فضول خرچ نہ کرو نہ اس طرح کھانا شروع کردو کہ ان کے بڑا ہونے سے پہلے ختم کرلیا جائے ورنہ لوٹانا پڑے گا بلکہ اگر گزارہ ہوسکے تو یتیم کے مال سے ہرگز نہ لو اور اپنا دامن صاف رکھو ہاں اگر احتیاج ہو تو بقدر گذارہ لے لو۔ یعنی کم از کم رقم لو اور جب انہیں مال لوٹانے لگو تو اس پر گواہ مقرر کرلو اگرچہ حساب تو اللہ کریم ہی نے لینا ہے اور وہ ہر بات سے خوب واقف ہے مگر قانون کے مطابق گواہ کا ہونا بہت اچھی بات ہے کہ دنیا کی زندگی بھی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو ہمارے ہاں جو مال کی مذمت کی جاتی ہے اور اکثر بزرگان دین سے بیان ہوئی ہے اس کا سبب مالداروں کی گمراہی ہے اور غریب کی نسبت مالداروں کے پاس گناہ کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں نیز عموماً مالدار لوگ گناہ کی زندگی اختیار کرلیتے ہیں اس لیے مال کو مصیبت سمجھا جانے لگا ورنہ حلال دولت کمانا عبادت ہے اور مال و اقتدار رکھتے ہوئے حدود الہی کی حفاظت اور نگہداشت بڑا مجاہدہ ہے بلکہ جہاد اکبر ہے۔ اکثر علماء صحابہ کرام کی تنگ دستی کے احوال بیان فرماتے ہیں مگر میری نگاہ میں تو قابل بیان ان کا وہ دلی تعلق ہے جو براہ راست ذات باری سے قائم ہوگیا رسول اللہ ﷺ کی ایک نگاہ پاک نے ان کے دل چھلنی اور جگر کباب کردئیے پھر کوئی مصیبت یا تکلیف انہیں اللہ کے دروازے سے ہٹا سکی اور نہ دولت و اقتدار نے ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کیا ورنہ ربع صدی میں چین سے ہسپانیہ تک اور سائبیریا سے جنوبی افریقہ تک ان کی سلطنت پھیل چکی تھی تاریخ عالم میں اتنی بڑی سلطنت اور نظر نہیں آتی پھر روم وفارس اور یمن کے خزانے جو ٹنوں سونے اور جواہرات پر مشتمل تھے سب اکابر صحابہ میں تقسیم ہوتے تھے ان اموال نے انہیں ارب پتی بنا دیا مگر کیا مجال جو عشق الہی میں سرد مہری ہو یا اطاعتِ الہی اور اطاعت رسول مقبول ﷺ میں کمی آئی ہو اور یہی فرد کا کمال ہے کہ اللہ کریم کے ساتھ اس کے حبیب ﷺ کے ساتھ دل کا تعلق ہو اور اتنا مضبوط کہ نہ مال اور نہ اقتدار اس کی جگہ لے سکے سو مال کمانا جائز زرائع سے اور اس کی حفاظت کرنا پسندیدہ بات ہے ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ بچوں یا اہل خانہ کو تنگ دستی میں چھوڑ کر مرنے سے انہیں خوشحال چھوڑ کر مرنا بہت پسندیدہ ہے اور آج کل تو رواج ہے کہ لوگ مال کی مذمت کرتے ہیں اور اسی ذریعہ سے دولت کماتے بھی ہیں فقروفاقہ کے فضائل بیان کرکے فیس وصول کرتے ہیں جہاں مال کمانا اچھی بات وہاں دوسرے کے مال پہ نگاہ رکھنا سخت ناپسندیدہ ہے بلکہ دینی اور ملکی امور پر مقرر حضرات کے لیے جو ایسی خدمات پر مقرر ہیں جن کا انجام دینا فرض کفایہ ہے۔ مثلاً اوقاف ، مساجد ، مدارس یا ایسے ہی دوسرے ادارے تو افضل یہ ہے کہ ان اداروں سے رقوم لے کر نہ کھائیں اور ذریعہ معاش کوئی دوسرا ہونا چاہئے ہاں اگر مجبور ہوں اور اس طرف سے وقت نہ بچے تو بقدر ضرورت حلال ہوگا یعنی جس سے اپنے اور اپنے گھر والوں کے ضرور اخراجات پورے کرسکیں فلیاکل بلمعروف۔ پیش نظر رہنا چاہئے اور اس بات پر بھی نظر ہو کہ۔ وکفی باللہ حسیبا۔ اللہ کریم کے روبرو حساب دینا ہوگا جن حضرات نے مساجد و مدارس اور دینی تقاریر وغیرہ کو عیش کوشی کا سبب بنا رکھا ہے ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کتنی حسرت کی بات ہوگی کہ جن کی باتیں سن کر اور اپنا کر لوگ نجات پا جائیں گے وہ خود مال کے ناجائز طور پر کھانے کی سزا بھگت رہے ہوں اللہ کریم آخرت کی روسوائی سے پناہ دے اور دو عالم میں اپنی رضا اور لطف و کرم نصیب فرمائے آمین۔
Top