Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 67
وَّ اِذًا لَّاٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ لَّدُنَّاۤ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ
وَّاِذًا : اور اس صورت میں لَّاٰتَيْنٰھُمْ : ہم انہیں دیتے مِّنْ لَّدُنَّآ : اپنے پاس سے اَجْرًا : اجر عَظِيْمًا : بڑا عظیم
اور تب ہم ان کو اپنے ہاں سے بہت بڑا ثواب عطا فرماتے
آیت نمبر 67 تا 70: آپ ﷺ تو زندگی کی سہل ترین راہوں پہ چلنے کا حکم دیتے ہیں یعنی دین اسلام زندگی گذارنے کا سب سے آسان طریقہ ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ کام کو کرنے کا درست انداز ہمیشہ آسان ہوتا ہے اور غلط انداز اس کی نسبت مشکل ہوتا ہے اور کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہوپاتا سو زندگی تو بہرحال سب کو بسر کرنا ہے اگر آپ کے بتائے ہوئے نظریات اور قواعد کو اختیار نہیں کریں گے تو کوئی نہ کوئی دوسری راہ اپنانا پڑے گی جو نہ صرف مشکل ہوگی بلکہ دو عالم میں کبھی چین نصیب نہ ہوگا پھر کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جو آپ کی اطاعت سے محروم رہیں حالانکہ آپ کی عظمت اور آپ کا مقام اس سے بہت بلند ہے اگر ہم آپ کی اطاعت کے ثبوت کے لیے یہ حکم ارشاد فرما دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کردو یا اپنے گھروں سے اپنے آبائی وطن سے سب کچھ چھوڑ کر نکل جاؤ اگرچہ انسانی مزاج کے خلاف ہونے کے باعث یہ حکم بہت کٹھن نظر آتا اور کم ہی لوگوں کو اس عمل کرنے کا حوصلہ ہوتا مگر شرط نجات یہی حکم قرار پاتا اور اسی پر عمل کرنے میں بہتری ہوتی اسی کی تعمیل میں خیر بھی ہوتی اور یہی دین پر ثابت قدم رہنے کا باعث بھی بنتا۔ انہیں مشکلات و مصائب پر عمل پیرا ہو کر ہی اللہ کے ہاں سے اجر عظیم بھی پا سکتے اور ایسے ہی لوگوں کو راہ ہدایت بھی نصیب ہوتی۔ یعنی یہاں محض عقل کا گذر نہیں بلکہ بات محبت سے متعلق ہے ایسی محبت جو نفع و نقصان کی گھاٹیوں میں نہ پڑنے دے بلکہ اطاعت کے اس صاف اور روشن میدان میں لے آئے جہاں رخ محبوب سورج کی طرح سامنے جلوے بکھیر رہا ہو یہ تو اللہ کریم کا بہت برا احسان ہے کہ عقائد و نظریات صاف ستھرے اور ساری مخلوق کے سامنے سے اٹھر کر مومن کی پیشانی کو صرف اور صرف ذات باری تعالیٰ کی چوکھٹ پر جھکنے کی سعادت بخشی اس کے ساتھ لباس خوراک ، جنس گھر ، اولاد ، دولت جائیداد کسی بھی نعمت دنیا کو ترک کرنے یا اس سے محروم رہنے کا حکم نہیں دیا ان سب نعمتوں کے حصول کا خوبصورت ترین انداز تعمیر فرما کر زندگی کی راہیں آسان کردیں اور اسی کو دین و مذہب بھی قرار دے کر قرب الہی اور اجر عظیم کا سبب قرار دے دیا عبادات تو مزید انعام ہیں کہ مومن کو شرف حضوری نصیب رہے اور اس کا دل آباد ، پیشانی روشن تابندہ رہے اور یہی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہی اللہ کریم کی اطاعت ہے بلکہ اس پر اس قدر عظیم انعامات مرتب ہوتے ہیں جن کا اندازہ صرف اللہ کے بتانے سے ہی ممکن ہے ورنہ انسانی سوچ کے پر جھڑ جاتے ہیں اسے سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تفصیل درکار ہوگی اور وہ یہ کہ باقی تمام قسم کی مخلوق میں اور انسان میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان کو اور صرف انسان کو یہ شعور عطا فرمایا گیا کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی ذات کو پہچان سکے۔ اس کی معرفت حاصل کرسکے اسی لیے اس کی راہنمائی عظمت باری ، جمالِ باری اور احسانات باری کی طرف کی گئی اور اس کی عبادت و اطاعت کی دعوت تو ضرور دی گئی مگر اطاعت پہ مجبور نہیں کیا گیا اس لیے کہ اگر اسے کوئی ذرہ معرفت کا نصیب ہوجائے تو اسے بغیر اطاعت چین ہی نہیں ملتا اور اگر اس نعمت سے محروم رہے تو گویا انسانیت ہی سے محروم ہوگیا اب کمال معرفت نبوت ہے اللہ کریم کی جو پہچان اس کی عظمت کا جو ادراک مقام نبوت پر فائز ہو کر نصیب ہوسکتا ہے وہ بغیر اس مقام پر پہنچ نصیب نہیں ہوتا اور نبوت صرف انسانوں کو عطا فرمائی گئی دوسری کسی مخلوق کو اس مرتبہ عظیم سے نوازا ہی نہیں گیا اس لیے کہ اس کی استعداد ہی صرف انسانوں میں ودیعت فرمائی گئی تھی اب نبوت کا دوسرا خاصہ یہ ہے کہ یہ وہبی نعمت ہے یعنی اللہ کریم کی طرف سے عطا ہوتی ہے کوئی شخص محنت کرکے یا مجاہدہ کرکے حاصل نہیں کرسکتا مگر جو لوگ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حق ادا کرتے ہیں انہیں انبیاء کی معیت حاصل ہوسکتی ہے یعنی اگر نبی اس محل میں بطور شہنشاہ تشریف رکھتا ہے تو امتی بھی بطور خادم کے شرف باریابی پا سکتا ہے مگر یہ اس کا مقام نہیں ہوتا جیسے محل کسی غلام کا نہیں ہوسکتا دوسرے وہ باتباع نبوت وہاں تک پہنچتا ہے جبکہ نبی کی ذات کا وہی مقام ہوتا ہے۔ یہ بہت بازک بحث ہے اسے اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ روحانی ترقی کے مدارج جب نصیب ہوتے ہیں تو ایک حد ہے جہاں تک ولایت اولیا کہلاتی ہے اس سے آگے ولایت انبیاء شروع ہوتی ہے اس سے مراد وہ ولایت ہے جو انبیاء کو بعثت سے قبل نصیب ہوتی ہے یہاں تک اولیاء اللہ کی رسائی ممکن ہے یہ ضروری نہیں کہ ہر ولی اللہ وہاں تک رسائی رکھتا ہو مگر ایسا ہوسکتا ہے اور اللہ کے بندوں میں سے بیشتر کو یہ نعمت نصیب ہوتی ہے اس سے آگے وہ مقامات بلند ہیں جو نبوت کا خاصہ ہیں اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو بعد از بعثت جن میں عروج نصیب ہوتا ہے امتی کو بھی ان میں رسائی نصیب ہوسکتی ہے مگر صرف بطور خادم بادشاہ کے ہمرکاب اور بس اور وہاں جن کو اللہ نے پہنچایا انہیں جو درجہ معرفت کا نصیب ہوا یہ نبوت کے بعد عظیم تر ہے اور یہی صدیقیت ہے یہ ایک منصب و مرتبہ بھی ہے اور مقام و کیفیت بھی جسے یہ منصب نصیب ہوتا ہے اس کی ذات کا وصف بن جاتا ہے جیسے ابوبکر صدیق ؓ اور جس کا گذر ان مقامات تک ہوتا ہے اسے بھی ان کیفیات میں سے حظ وافر نصیب ہوتا ہے یہ یاد رہے کہ ایسے خوش نصیب صدیوں میں کوئی ایک نظر آتے ہیں اور ایک بات خاص طور پر جان لینے کی ہے کہ اگر نبی کو صدیق کہا جائے گا تو اس کا شان بحیثیت نبی کے ہوگا اگر صحابی کو یہ مرتبہ نصیب ہوگا تو اس کا شان اپنی حیثیت کے مطابق اور ولی کو نصیب ہوگا تو اس کی حیثیت اپنی کہ یہ داخلی اوصاف ہیں صدیق شہید اور صالح ہونا تو یہ سب اوصاف بیک وقت ایک انسان میں بھی جمع ہوسکتے ہیں جیسے عالم ہونا شمشیر زن ہونا اور اچھا ڈرائیور ہونا علیحدہ ہونے کے باوجود ایک انسان کے اوصاف بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد شہید کا مقام ہے یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کردیتے ہیں مگر ایسے لوگ بھی جو روحانی بلندی کی ان منازل پر فائز ہوتے ہیں جو قرب الہی کی لذتیں اور جمال الہی کی راحتیں دوسری طرف جانے نہیں دیتیں حتی کہ وہ موت قبول کرسکتے ہیں مگر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی قبول کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا وہ بھی شہید ہوتے ہیں اور اگر کوئی عظمت صدیقیت کی کیفیات تک نہ سہی لطف شہادت تک ہی پہنچ پاتا ہے ورنہ صالحین کا یہ چوتھا درجہ ارشاد ہوا ہے کہ ایسے لوگ جن کی سوچ نیک ارادے نیک عمل نیک اور ایک ایسی کیفیت جس نے انہیں یہ انداز بخشا اطاعت رسول کے باعث نصیب ہوجاتی ہے اس آیہ کریمہ کا شان نزول سیدہ عائشۃ الصدیقہ سے یوں روایت ہے کہ ایک صحابی نے مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ یہاں تو جب جی چاہتا ہے آپ کے جمال سے آنکھیں روشن اور دل ٹھنڈا کرلیتے ہیں مگر آخرت میں آپ مقام محمود کی بلندیوں پر تشریف فرما ہوں گے ہم عاجز جنت پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں اور پہنچ گئے مگر آپ ﷺ کی محفل و زیارت نصیب نہ ہوئی تو پھر جنت بھی ہمیں کوئی راحت نہ دے سکے گی۔ آپ ﷺ نے سکوت فرمایا کہ یہ آیات نازل ہوئیں جن کا مفہوم مختصراً یہ ہے کہ اطاعت شرط ہے وہ اطاعت جس میں جذب دروں ہو محبت کی چاشنی ہو چون و چناں سے بالاتر پھر دیکھو جنت میں بھی گھر تو اپنے اپنے ہوں گے مگر حاضری سے روکا نہ جائے گا مفسرین کرام نے اس کی مختلف صورتیں نقل فرمائی ہیں مگر دنیا اخروی زندگی کی اساس ہے اور ساری عمارت اسی بنیاد پر بنتی ہے سو جنہیں آخرت کی مجالس میں حاضری کا شرف نصیب ہوگا وہ دنیا میں بھی کیفیات و لذات معیت رسالت سے مستفید ہوتے ہیں اور کیفیات محسوس کی جاسکتی ہیں ، انہیں لکھنا پڑھنا یا بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا اللہ کریم ہمیں اس درجے کی غلامی نصیب فرمائے جو ہمارے قلوب کو بھی ان کے پرتو جمال سے روشن کردے۔ آمین
Top