Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے بعد چھوٹے بچے چھوڑ جائیں تو انہیں ان کی (کتنی) فکر ہو پس ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اور سیدھی بات کہنی چاہیے
آیت 9 تا 10 ۔ قرآنی انداز تربیت : دین اسلام کو یاد دلاتا ہے کہ اسے بھی مرنا ہے اور ممکن ہے اسی طرح چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر مرجائے تو یہ کیا چاہے گا کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہئے ویسا ہی سلوک ان بچوں سے کرے جو آج اس کے سامنے یتیم ہو کر بےکسی کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ اور اللہ سے ڈرتا رہے کہ وہ ہر چیز پہ قادر ہے ایسا ہی سلوک اس کے ساتھ بھی کرسکتا ہے سو چاہئے کہ نہایت ہی موزوں بات کرے۔ اور یہ یاد رکھو کہ مال یتیم جو شخص بھی ناروا طور پر کھائے گا وہ یقیناً اپنے پیٹ میں آگ بھر رہا ہے اور عنقریب اسے بھڑکتی آگ یعنی دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ بعض علما نے لکھا کہ یہ خبر بطور استعارہ کے ہے مگر ایسا نہیں ہے بلکہ اعمال انسانی پر دونوں اجر بیک وقت دئیے جاتے ہیں دنیا کا اجر بھی اور آخرت کا بھی دنیا کا اثر یہ ہے کہ پیٹ بھر گیا مگر اخروی اجر یہ ہے کہ پیٹ میں آگ ڈالی جا رہی ہے حدیث شریف میں وارد ہے کہ بعض لوگ اس حال میں اٹھیں گے کہ منہ ناک کان وغیرہ سے دھواں اور شعلے نکل رہے ہوں گے اور یہ آگ اگرچہ ظاہر کی آنکھوں سے نظر نہیں آتی مگر اپنا اثر دکھاتی ہے اور دنیا میں بھی چین نصیب نہیں ہوتا ایسے لوگ زندگی بھر تڑپتے رہتے ہیں اور بعد مرگ تو عذاب ہے ہی۔ اللہ کریم اپنے عذابوں سے اپنے ہی پناہ میں رکھے اور ایسے امور سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی ناراضگی کا سبب ہوں۔ آمین۔
Top