Asrar-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 16
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِیْنَ
اَمِ اتَّخَذَ : یا اس نے انتخاب کرلیں مِمَّا يَخْلُقُ : اس میں سے جو وہ پیدا کرتا ہے بَنٰتٍ : بیٹیاں وَّاَصْفٰىكُمْ : اور چن لیا تم کو بِالْبَنِيْنَ : ساتھ بیٹوں کے
کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں پسند فرمائیں اور تم کو چن کر بیٹے دیئے
آیات 16 تا 25۔ اسرار ومعارف۔ اور جز یا اولاد بھی ایسی تجویز کی کہ گویا اللہ نے اپنے لیے بیٹیاں پسند کیں اور تمہیں بیٹے عطا کردیے کہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے اور اگر تم میں سے کسی کو ایسی خوش خبری سنائی جائے یعنی بیٹی پیدا ہونے کی اطلاع ملے تو تمہارے منہ لٹک جاتے ہیں چہرے کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے اور دل ہی دل میں بہت دکھ محسوس کرتے ہو حالانکہ بیٹیاں اس طرح کوئی ذلت کی بات نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ وہ بناؤ سنگھار میں پرورش والی ہوتیں ہیں اور مردوں کے مقابل قوت بیانیہ میں کمزور۔ بناؤ سنگھار خواتین کے لیے۔ یہاں ثابت ہے کہ عورتوں کے لیے بناؤ سنگھار جائز ہے مگر اس میں اس قدر انہماک کہ ہمہ وقت اسی میں لگی رہے درست نہیں نیز ضعف عقل اور رائے کی کمزوری کی دلیل بھی ہے اور خواتین فطرتا مردوں کی نسبت قوت بیانیہ میں کمزور ہوتی ہیں بتانا کچھ ہوتا ہے مضمون کوئی اور ملادیتی ہیں یہ قاعدہ اکثریہ کے اعتبار سے ہے کسی ایک آدھ خاتون کا ایسا نہ ہونا اس کے منافی نہیں۔ اور انہوں نے فرشتوں تک کو جو اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق عورتیں مان رکھا ہے حالانکہ انہیں نظر تک تو آتے نہیں اور کوئی اللہ کے بتانے سے ہی جان سکتا ہے تو کیا کسی نے ان میں سے انہیں بنتے اور پیدا ہوتے دیکھا ہے ہرگز نہیں تو جب انہوں نے دیکھا بھی نہیں اللہ نے کسی کتاب میں ایسی بات نہیں بتائی تو ان کا یہ دعوی کس قدر جھوٹا ہے نیز ان کا یہ جھوٹ لکھ دیا گیا ہے اور ان سے اس کی پرسش ہوگی پھر یہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم فرشتوں کو یا اللہ کے سوا دوسروں کو کیوں پوجتے اگر اس کے باوجود ہمیں رزق صحت مال واولاد دے رہا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ اس پر خوش ہے اور انہیں اس بات تک کی خبر نہیں کہ ایک یہی اختیار تو انسان کے پاس ہے کہ وہ کس کا بندہ بن کر جیتا ہے اور کس عقیدے پر مرتا ہے ورنہ اور تو کچھ اس کے بس میں نہیں لہذا یہ فیصلہ ان کا اپنا ہے اور انہی کے حق میں ہے یہی خود بھگتیں گے اور اب بغیرعلم کے اٹکل پچو لگا رہے ہیں ورنہ کیا قرآن حکیم سے پہلے اللہ نے کوئی ایسی کتاب نازل فرمائی تھی جس کو مان کر ایسے عقیدے پر قائم ہیں ہرگز نہیں بلکہ اس بات کا تودعوی تک نہیں کرتے ہاں کہتے ہیں کہ باپ دادا کو اس عقیدے پر پایاہم نے لہذا ہم نے اسے اپنارکھا ہے اور یہی بات ان انبیاء سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے مبعوث فرمایا۔ وہاں کے خوشحال لوگوں اور طبقہ امراء نے کہی تھی کہ ہمیشہ قیادت طبقہ امراء کے پاس ہوتی ہے اور غریب عموما پیچھے چلنے والے ہوتے ہیں انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہم نے باپ دادا کو جس عقیدے اور مذہب پر پایا ہم اس پر قائم ہیں اور اللہ کے رسولوں نے ان سے کہا کہ محض باپ دادا کا اتباع کیے جاؤ گے یا حق اور ناحق میں فرق کرکے اگر تمہیں بہتر اور آسان راستہ ملے جو منزل مقصود پہ پہنچانے والا ہو اور یہی حق کی خصوصیت تو وہ اختیار کرو گے تب انہوں نے ماننے سے انکار کردیا کہ جو تم لائے اگرچہ وہ حق بھی ہے ہم قبول نہیں کریں گے جب وہ اس حد تک آگے بڑھ گئے تو پھر ہم نے ان سے انتقام لیا اور دیکھ لیجئے انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کیسابرا انجام ہوا۔
Top