Asrar-ut-Tanzil - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
بیشک اللہ خوش ہوئے ان ایمان والوں سے جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو (خلوص) تھا سو وہ بھی اللہ کو معلوم تھا پس اللہ نے ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں جلدی فتح عطا فرمادی
آیات 18 تا 26۔ اسرار ومعارف۔ اللہ جل شانہ یقینا ان مومنین سے راضی ہوگیا اور ان کی جاں سپاری کے جذبہ کو قبول فرمایا کہ حدیبیہ کے مقام پر ایک درخت کے نیچے جب وہ آپ سے موت پر بیعت کر رہے تھے وہ اس لیے راضی ہوا کہ وہ ان کے قلبی خلوص کو جانتا تھا لہذا اس نے ان کے دلوں پر اطمینان نازل فرمایا۔ بیعت رضوان کا درخت۔ یہ ایک ببول کا درخت تھا مقام حدیبیہ پر جس کے نیچے رسول اللہ نے بیعت لی تھی بعد میں لوگوں نے وہاں نماز پڑھنا شروع کردی اور زیارت کو جانے لگے مگر کسی نے حضرت سعید بن مسیب سے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے والد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بیعت رضوان کی تھی وہ فرماتے تھے کہ ہم جب دوبارہ وہاں سے گزرے تو ہمیں وہ درخت نہیں ملا ہم سے کھوگیا بھلالوگوں کو کیسے پتہ چلا لوگوں نے یونہی اندازے پر کوئی درخت مقرر کرلیا تھا جسے رسم بن جانے کے ڈر سے سیدنا فاروق اعظم نے کٹوا دیا۔ ثواب کی تحقیق۔ یہاں بھی اہل بدر کی طرح ثواب کی تعین ہوجاتی ہے کہ ثواب اللہ کی رضامندی کا نام ہے جس کے باعث عملی زندگی میں نیکی پر کاربند رہنے اور ہمیشہ نیک عمل کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے چناچہ علماء حق کا اتفاق ہے کہ ان سب لوگوں کا خاتمہ بھی اسی رضائے الٰہی پر یقینی ہے کہ انہیں حدیبیہ میں آپ کے ہم رکاب ہونے کے سبب ہمیشہ کے لیے اللہ کی رضا حاصل ہوگئی اور ا ن کے قلوب میں سکینہ یعنی سکون کا نزول ہوا اور اس کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے بھی نوازا گیا کہ پھر یہاں کے فورا بعد ایک فتح عطا کی گئی جس میں بہت سامال غنیمت اسلحہ اور سامان مسلمانوں کو حاصل ہوا جس سے ان کی قوت بڑھی اور دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی مراد فتح خیبر ہے۔ خیبر۔ خیبر ایک صوبے کا نام تھا جس میں بہت سے قلعے وادیاں اور باغات اور بستیاں شامل تھیں چناچہ آپ جب حدیبیہ سے واپس تشریف لائے تو ایک روایت کے مطابق دس روز اور دوسری کے مطابق بیس روز مدینہ منورہ میں قیام فرما کر خیبر کو کوچ فرمایا یہ محرم 7 ہجری تھا اور صفر 7 ہجری میں خیبر فتح ہوگیا اس کی فتح کی بشارت سن کر ان لوگوں نے بھی شرکت کی اجازت چاہی تھی جن کا ذکر گذرچکا کہ سوائے چنداصحاب کے کسی کو اجازت عطا نہ کی گئی کہ یہ فتح اور غنیمت اس کے انعامات ہیں اور وہ غالب ہے چاہتا تو ابھی مکہ مکرمہ فتح کرادیتا مگر یہ اس کی حکمت کا تقاضا تھا کہ اسے کچھ عرصہ کے لیے موخر کردیا اللہ تم سے نبی (علیہ السلام) کے اس مخلصانہ اتباع کے سبب تم سے بہت سی فتوحات کا اور مال غنیمت کا وعدہ فرماتا ہے جسے تم ضرور حاصل کرو گے اس میں فتح مکہ کی نوید بھی ہے۔ اور بعد کی روم وفارس اور عالمی فتوحات کی پیش گوئی بھی اور خیبر میں ان لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے کہ جس قدر جری افواج تھیں اس شان سے لڑہی نہ سکیں نیز خیبر کی وادی کے کے دوسری طرف بنوغطفان تھے جن کا اہل خیبر سے معاہدہ تھا وہ باوجود تیاری کے نہ آسکے مسلمانوں کا رعب چھا گیا اور کہتے اگر ہم اہل خیبر کی مدد کو چلے گئے اور مسلمانوں کا کوئی لشکر ہماری بستی پہ آپڑا تو کیا ہوگا۔ اور یہ سب اللہ کی طرف سے اس کی مدد کا ایک نمونہ مسلمانوں کے سامنے تھا نیز تمہیں صراط مستقیم پر اور ہدایت کی راہ پر چلانا مقصود تھا۔ ترقی درجات۔ حالانکہ وہ سب لوگ پہلے ہی صراط مستقیم پر اور ہدایت پر تھے مگر یہاں مراد ترقی درجات ہے کہ یہ کیفیات کے اعتبار سے مزید ترقی ہوئی اور وہ درجہ نصیب ہوا جو پہلے نہ تھا یہی ثواب کا اثر اس دنیا کی حیات پر مرتب ہوتا ہے۔ اور فتح یعنی فتح مکہ بظاہر تم لوگ جس پر قابو نہ پاسکے وہ اللہ رب العزت کے قابو اور قبضہ قدرت میں ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اگر حدیبیہ میں جنگ ہوتی بھی تو کفار کو ایسی شکست ہوتی کہ انہیں کوئی حمایتی یا مددگار بھی نہ ملتا۔ اور بھاگ کھڑے ہوتے کہ ان کی شکست کے یقینی اسباب موجود تھے جن کا ذکر آگے آتا ہے اور ایسے اسباب پر یہی نتیجہ مرتب ہوتا ہے یہ اللہ کی سنت اور طریقہ ہے اور اے مخاطب اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی لیکن وہ ایسا قادر ہے کہ بطن مکہ یعنی حدیبیہ میں کفار کو حملہ کرنے کی توفیق ہی نہ دی ان کے ہاتھ روک دیے اور اے مسلمانو تمہارے ہاتھوں بھی کفار کو قتل نہ ہونے دیا جو جنگ کے چھڑنے کا سبب نن جاتا حالانکہ ان میں سے بہت سے قیدی بن کر تمہارے قابو میں آچکے تھے اور اللہ تمہاری ہر حرکت کو دیکھ رہا تھا۔ شکست کے اسباب۔ شکست کے یقینی اسباب میں سب سے پہلا سبب تو یہ تھا کہ وہ کافر تھے اور حق پر نہ تھے لہذا باطل کو شکست ہوتی ہے اگر مقابلے میں اہل حق ہوں گویا آج اگر کافر غالب ہیں تو ہماری طرف سے بھی حق پر قائم ہونے میں کمی اس کا سبب ہے اور دوسرے یہ کہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے تھے اور تیسرے یہ کہ اللہ کی راہ میں قربانی کے جانوروں کو قربان گاہ تک پہنچے سے روک رکھا تھا۔ یہ سب تو ان کی شکست کے اسباب تھے مگر اس وقت فتح مکہ کو موخر کرنے میں حکمت الٰہی تھی ایک تو پہلے گذرچ کی کہ انکی پشت پناہ کو توڑ کر ان کے حوصلے پست کرنا اور ان کی مدد کی راہ روکنا مقصود تھا کہ مشرکین کی نسبت دشمنی میں بھی یہود بڑھے ہوئے تھے۔ اور دوسری حکمت ان بیشمار حکمتوں میں یہ تھی کہ بہت سے مسلمان مرد اور خواتین مکہ مکرمہ میں مقیم تھے جو ممتاز نہ تھے غریب لوگ تھے اور اہل شہر میں مل کر بسرکر رہے تھے جنگ ہوتی تو تمہارے ہاتھوں پس جاتے جس پر تمہیں بعد میں صدمہ بھی ہوتا اور لوگ عار بھی دلاتے کہ ان کے ہاتھوں تو اپنے بھی نہ بچ سکے اگرچہ یہ سب لاعلمی میں ہوتا اگر لاعلمی میں وہ لوگ مارے جاتے تو اگرچہ گناہ نہ ہوتا مگر خود مسلمانوں کو دکھ ضرور ہوتا نیز کفار طعنہ بھی دیتے تو اللہ نے صحابہ کرام کو اس سے بچانے کا سبب بنادیا۔ صحابہ کرام معصوم نہیں مگر محفوظ ضرور ہیں۔ علماء کا اتفاق ہے کہ معصوم صرف نبی ہوتا ہے مگر صحابہ کرام محفوظ ہیں اور ان کے گناہ سے بچنے کے غائبانہ اسباب پیدا کردیے جاتے ہیں ان کے اتباع میں کبار اولیاء اللہ کو بھی یہ نعمت نصیب ہوتی ہے حضرت استاذی المکرم (رح) اس طرح کے واقعات سنایا کرتے تھے کہ اللہ نے کیسے کیسے انہیں کہاں کہاں سے بچایاجن کالکھنا باعث طوالت جان کر چھوڑ دیا ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے اور اگر یہ لوگ ان مشرکین سے الگ ہوجاتے تو ہم ان کفار کو بہت سخت عذاب میں مبتلا کرتے۔ مومن کی معیت بھی کافر کو دنیا میں عذاب سے بچانے کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ ثابت ہے کہ نیک لوگوں کا ساتھ کافر تک کو دنیا کے عذاب سے بچاتا ہے اور مومن کو تو دنیاوآخرت میں ہر دوجہاں سے بچانے کا سبب بن جاتا ہے کفار کو اس لیے بھی دردناک عذاب دیاجانا تھا کہ انہوں نے محض جاہلانہ ضد اور انا کو دلوں میں پال کر رسول برحق کا راستہ روکنے کی حماقت اور بہت بڑے ظلم کے مرتکب ہو رہے تھے اور اللہ نے اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر سکون و اطمینان نازل فرمایا اور ان کی کیفیات قلبی میں بہت زیادہ ترقی عطا فرمائی اور انہیں نیکی اور حق عدل کی بات پر قائم رکھا کہ وہ اس کے مستحق اور اہل تھے۔ مقام صحابہ۔ اللہ صحابہ کرام کو بھلائی نیکی اور حق و انصاف پر قائم رکھنے کی شہادت دے رہا ہے جبکہ بعض باطل فرقے ان کی دیانت وامانت پہ اعتراض کرتے ہیں نیز بعض دوسرے حضرات بھی اپنے علمی زور سے خود کو صاحب الرائے ثابت کرنے کے لیے صحابہ کرام اور ان کے کردار پر اعتراض کرتے ہیں اور فرماتے ہیں انہوں نے یہ غلط کیا وہ درست نہ تھا ظاہر ہے یہ سب گمراہی ہے حق یہ ہے کہ یہ عظمت اور حفاظت الٰہیہ تمام صحابہ کو حاصل ہے جبکہ ان کے طفیل اولیاء اللہ تک کو نصیب ہے پھر ان حضرات پہ اعتراض جو بنفس نفیس بیعت رضوان میں شریک تھے اور حضرت عثمان جن کی طرف آپ نے اپنا دست مبارک رکھ کر بیعت کی بھلاوہاں اعتراض کیسے کیا جاسکتا ہے اللہ کریم سب کو ہدایت دے آمین۔ اللہ ان کی گواہی دیتا ہے کہ وہ کلمہ حق کے اہل اور مستحق تھے کہ اللہ توہرچیز کو خوب جانتا ہے۔
Top