Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
جس دن اللہ پیغمبروں کو جمع فرمائیں گے پھر کہیں گے کہ آپ کو (امتوں کی طرف سے) کیا جواب ملا تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں (ان کے دلوں) خبر نہیں بیشک آپ ہی غیبوں کے جاننے والے ہیں
رکوع نمبر 15 ۔ آیات 109 ۔ تا ۔ 115 ۔ اسرار و معارف : سفارش : اور ہاں اسی پر خوش ہونا کہ باوجود گناہ کے گذارہ چل ہی رہا ہے یا لوٹ کا مال بہت جمع کرلیا ہے دانشمندی کی بات نہین اس لیے کہ ایک دن ایسا آ رہا ہے جب ساری مخلوق کو ایک وقت میں اور ایک جگہ جمع کیا جائے گا اور یہ میدان حشر ہوگا دنیا اور اس کی زندگی اپنی لذتوں اور رنگینیوں سمیت ختم ہوچکی ہوگی کچھ لوگ تو وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں نافرمانی کا راستہ اپنایا اور غلط کار تھے عقیدے میں کافر ، عمل میں بدکار ، کچھ دوسرے جنہوں نے عقیدے میں بھی حق کو اختیار کیا اور عمل میں بھی کھرے رہے دو اقسام اور بھی ہوں گی ایک قسم کافروں کی جو دل سے کافر تھے بظاہر مسلمان بن کر دکھانے کو مسلمانوں جیسے کام بھی کرتے رہے اور دوسرے وہ مسلمان جو دل سے مسلمان تھے مگر عملی زندگی میں پورے نہ اترے اور پیچھے رہ گئے ان میں دو گروہ جو دونوں دل سے مسلمان ہیں اور عمل میں بھی اچھے تھے اور جو دل سے مسلمان تھے اور عمل میں کمی رہ گئی دونوں شفاعت کے مستحق اور دونوں کافر گروہ کسی سفارش کا حق نہیں رکھتے اور یہ سفارش کرنا انبیاء و رسل کا کام ہے یا پھر ان کی وساطت سے متعلقہ افراد مشائخ یا شہداء یا صالحین یا چھوٹی عمر میں فوت ہونے والے بچے وغیرہ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ساری مخلوق کو ایک جگہ جمع فرما کر سب سے پہلا سوال سب کے روبرو انبیاء و رسل سے ہی کیا جائے گا تاکہ ہر شخص پر یہ بات واضح ہوجائے کہ آج نہ کوئی چھپ سکے گا اور نہ کچھ چھپا سکے گا۔ اور جب اتنی عظیم ہستیاں جوابدہی کے لیے حاضر ہیں تو پھر غیر نبی کس شمار قطار میں اور ما وشما کی حیثیت ہی کیا ہے سوال بھی بڑا عجیب ہوگا کہ فرمائیے ، آپ حضرات کو اپنی امتوں کی طرف سے کیا جواب ملا تھا یا کن لوگوں نے اطاعت کی اور کون تھے جو میرے رسولوں کے مقابل اکڑ گئے اب انبیاء اگر دنیا سے جانے کے بعد والوں سے واقف نہ بھی ہوں تو ان کے روبرو جنہوں نے قبول کیا قربانیاں دیں ان سے بھی واقف تھے اور جنہوں نے رد کی مقابلے کیے ان سے بھی لیکن وہ یہ جانتے ہوئے کہ مومن تو رحمت سے محروم نہ رہے گا البتہ ہماری گواہی کافر کے لیے کوئی رعایت باقی نہ چھورے گی پھر اپنی طبعی شرافت رحمت ورافت کا اظہار فرماتے ہوئے عرض کریں گے خدایا ! ہمیں کیا خبر ؟ ہمارے علوم تو ظاہر تک مدرود تھے اور تیری نگاہ دل کے اندر تک تھی ہم نے وہ دیکھا جو تو نے دکھایا وہ جانا۔ جو تو نے بتایا لہذا ہمیں خبر نہیں اس لیے کہ آج کا دن محض ظاہر کی حالت پہ اعتبار کا دن نہیں ہے آج تو بال کی کھال اتاری جائے گی اور ہر ڈھکی چھپی بات بھی آپ پر تو عیاں ہے اس لیے آپ ہی خوب اور بہتر جاننے والے ہیں۔ عیسی (علیہ السلام) : پھر بات ہوگی بھرے میدان میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہ میرے احسانات کا آپ شمار نہیں کرسکتے اور ان کی کیفیت کا لوگ اندازہ کرنے سے قاسر ہیں دیکھیں آپ پر اور آپ کی والدہ ماجدہ پر کس قدر انعامات فرمائے آپ سے معجزات کا ظہور اور ان کی کرامات کا ظہور عقل انسانی کو عاجز کیے دیتا ہے آپ ہی دیکھئے کہ ہم نے جبرائیل امین کو آپ کے ساتھ آپ کی مدد پہ مقرر فرمادیا۔ یا ان کی معیت سے آپ کو قوت و شوکت عطا کی تو اللہ کی طرف سے فرشتہ معاون ہو یا ارواح میں سے کوئی نیک روح منجانب اللہ ترسیل برکات یعنی برکات و انوارات پہنچانے پہ مقرر کردی جائے تو اس بات کا ثبوت یہاں موجود ہے اور آپ نے پیدا ہوتے ہی پنگھوڑے میں بات کی ، بات کا معنی ہے مکمل اور بامعنی گفتگو ، جو ایک بہت بڑا معجزہ تھا اور ادھیڑ عمر میں پھر لوگوں سے باتیں کیں یہ بھی آپ کے لیے معجزہ ہوگیا ورنہ بات تو اس عمر میں ہر آدمی کرتا ہے مگر آپ کہولت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے آسمانوں اٹھا لیے گئے تھے اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق پھر زمین پر تشریف لائیں گے یہاں رہیں گے دین اسلام کو پھیلائیں گے فوت ہو کر روضہ اطہر میں دفن ہوں گے جہاں ایک قبر کی جگہ خالی ہے تو آسمانوں سے نازل ہو کر دوبارہ باتیں کرنا یا دنیا کی زندگی میں شراکت بھی معجزہ ٹھہری اور ہم نے آپ کو کتاب کا علم دیا اور آسمانی کتب پر آپ کو عبور عطاء فرمایا اور حکمت یعنی علوم کتب سماویہ کی تشریح اور تفہیم اور تورات اور انجیل یعنی آسمانی کتابیں سکھا دیں یا ازبر کرادیں یاد کرادیں اور ایسے محیر العقول کام کرنے کی قوت عطا فرمائیں کہ آپ مٹی سے پرندہ سا بنا لیتے جیسے چڑیا ، کوا ، کبوتر اور وہ بھی محض صورت سی کوئی اتنا ہوبہو بنانا بھی ضروری نہ تھا مگر جب آپ اس پر دم کردیتے یا پھونک مار دیتے تو ہمارے حکم سے وہ فوراً اصلی پرندہ بن جاتا اور اڑجاتا یہاں دم کرنا ثابت ہے جبکہ حدود شرعیہ کے اندر ہو جس کام کے لیے کیا جائے جائز ہو کہ یہ معجزہ کا اظہار دین کی تائید کے لیے ہوتا تھا اور جو پڑھا جائے اس کا پڑھنا شرعاً درست ہو پڑھنے والا کلام کو سمجھتا ہو محض اول فول نہ یاد کر رکھے اس کے مقابل جھاڑ پھونک کی ایک قسم حرام بھی ہے اور وہ شیطانی الفاظ یا ناجائز الفاظ اور غلط کاری کے لیے استعمال ہوتے ہیں اس میں جس حد تک کرسکے شیطان سے تعاون کرتا ہے اور آپ دم کرکے مادر زاد اندھوں اور کوڑھ اور جذام کے مریضوں کو تندرست کردیتے تھے ایسے امراض جو ناقابل علاج تھے آپ کے ہاتھ سے شفا پاتے بلکہ مریض زندہ تو تھے آپ مردہ کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرتے تو وہ زندہ ہو کر باہر آجاتا تھا اور یاد رہے جو فعل نبی سے بطور معجزہ صادر ہوتا ہے ولی سے بطور کرامت اس کا صدور ممکن ہوتا ہے کہ ولی کی کرامت نبی ہی کا معجزہ ہوتی ہے اور نبی کی سچی غلامی سے ولی کو نصیب ہوتی ہے اور اس سے بھی عظیم تر بات کہ بنی اسرائیل کی پوری حکومت سارا زور لگا کر بھی آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور میں نے انہیں عاجز کردیا اور آپ سے ان کے ہاتھ روک دئیے وہ زمین پر رہ گئے آپ کو آسمان پہ اٹھا لیا لیکن برا ہو کفر کا اس کی عینک کا رنگ اپنا ہوتا ہے یہ سب کچھ دیکھ کر کہہ دیا کہ سوائے جادو کے اور کچھ نہیں بھئی ! ہم جان چکے ہیں کہ آپ جادوگر ہیں۔ معاذ اللہ ! پھر آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے آپ کے حواریوں سے بات کی یعنی آپ کی معرفت انجیل میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ مجھے اور میرے رسول کو صدق دل اور خلوص کے ساتھ مانو اور ایمان لاؤ۔ حواریوں سے بات کرنا ان کی عزت و شرف کے اظہار کے لیے ہے جیسے نزول قرآن کی تدریج یعنی مسلسل تئیس برسوں کے نزول میں ایک راز یہ بھی تھا کہ صحابہ کرام کو اتنا عرصہ اللہ کریم سے شرف ہم کلامی حاصل رہا جب کوئی سوال کرتے اللہ کی طرف سے جواب آتا تھا۔ یہاں انجیل یکبارگی نازل ہوئی مگر یہ مطالبہ تھا جس پر انہوں نے کہا اللہ ہم ایمان لاتے ہیں تجھ پر تیرے رسول پر ، اور تو بھی ہمارے ایمان کا گواہ رہیو پھر عجیب بات ہوئی وہ کہنے لگے اے عیسیٰ ! اگر گستاخی نہ ہو تو کیا آپ کا پروردگار یہ مناسب جانے گا کہ ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرمائے یعنی باوجود اس قدر دعوے ایمان کا رکھتے تھے کہا ، ربک۔ یعنی تیرا رب۔ یہ نہیں کہ اہمارا رب اور پھر تسکین اور اطمینان کی خاطر دلیل مطلوب ہے کہ زمین پہ جو کچھ ہو رہا ہے جادو سے بھی ممکن ہے آسمان پہ جادو نہیں چلتا تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ سے ڈرو ، ایمان کے ساتھ یہ معجزات کا تقاضا میل نہیں کھاتا اسی طرح شیخ کی سب سے بڑی کرامت ہے کہ خود راستی پہ چلے اور آپ کو راستی کی طرف لے کر چلے اس سے زیادہ شیخ قبول کرنے کے بعد کرامات کا طالب رہنا مناسب نہیں۔ تو وہ کہنے لگے حضور ! بات یہ نہیں ! بلکہ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ اس سے کھان کھا کر برکت حاصل کریں دوسرے واقعی ہمارے دلوں کو مزید اطمینان اور تسلی نصیب ہوگی۔ اور ہم لوگوں کے سامنے بطور شہادت بات کرسکیں گے۔ آپ کی صداقت پہ دلیل کے طور پر اس کا تذکرہ کریں گے۔ تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے یعنی کھانے میں برکت کا ہونا بعض صورتوں میں ممکن ہے اور کرامت و معجزہ ایک ہی کام کے لیے دونوں چیزیں ہوتی ہیں یعنی دین کی سربلندی اور نبی کی تصدیق کرنے کے لیے تو انہوں نے عرض کی بار الہ آسمانوں سے ہمارے لیے کھانا نازل فرما۔ تاکہ ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا دن یعنی عید قرار پائے اور تیری ربوبیت اور الوہیت کی نشانی بھی ہو اللہ کریم تو ہی بہترین رزاق ہے ویسے بھی تو تیرا ہی دیا کھاتے ہیں ذرا سی تبدیلی کردے کہ زمین سے اگانے کی بجائے آسمان سے بھیج دے تو ارشاد ہوا بھیج تو دیتے ہیں لیکن یہ معمولی بات بہت بڑی نعمت ہے اور جب انعام اور عطا بہت بڑی ہوتی ہے تو اس کے مقابلے میں ناشکری کی سزا بھی بہت بڑی دی جاتی ہے۔ کھانا تو نازل کردیا جائے گا مگر آسمانی کھانا کھا کر بھی جس نے نافرمانی کی اسے عذاب بھی ایسا دوں گا کہ دنیا میں اور کہیں اس کی مثال نہ ہوگی چناچہ مفسرین کے مطابق یہ کھانا نازل ہوا انہوں نے کھایا پھر نافرمانیاں کیں۔ اور بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ ہو کر تباہ ہوئے۔
Top