Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کو يٰقَوْمِ : اے میری قوم اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ : جب جَعَلَ : اس نے پیدا کیے فِيْكُمْ : تم میں اَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) وَجَعَلَكُمْ : اور تمہیں بنایا مُّلُوْكًا : بادشاہ وَّاٰتٰىكُمْ : اور تمہیں دیا مَّا : جو لَمْ يُؤْتِ : نہیں دیا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں میں
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اے میری قوم ! اللہ نے جو تم پر انعام کیا (وہ) یاد کرو جب اس نے تم میں پیغمبر بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو سارے جہانوں میں سے کسی کو نہ دیا تھا
رکوع نمبر 4 ۔ آیات نمبر 20 تا 26: اسرار و معارف : بنی اسرائیل کا بگاڑ : دنیا میں انسانیت پہ اور بنی آدم پہ اللہ نے کیا کیا انعامات کئے اور کتنے احسانات فرمائے اس کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے اور انسانوں سے کس قدر لغزشیں کوتاہیاں بلکہ نافرمانیاں وقوع پذیر ہوئیں یہ شمار کرنا بھی ناممکن مگر ایک بات سامنے آجاتی ہے کہ پھر اللہ ہی کی رحمت اور اسی کی شفقت گرتے پڑتے انسانوں کو تھام لیتی ہے اور وہ کتنا حلیم کس قدر بردبار اور عظیم ہے اس قدر کہ اس کے برابر کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا رہے یہ بنی اسرائیل تو ان کی عمومی گمراہی کی بات تو ہوچکی ایک خاص واقعہ بھی سن لیجئے اور بڑی عجیب بات ہے کہ ایسے زمانے میں یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا جو اپنی برکات کے اعتبار سے معجزات کے اعتبار سے بنی اسرائیل کا مثالی دور تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) جیسے اولوالعزم رسول ان میں بنفس نفیس تشریف رکھتے تھے برکات الہی کا کوئی حساب و شمار نہ تھا کہ اللہ کریم کی طرف سے ارشاد ہوا موسیٰ ! اپنی قوم سے کہو آگے بڑھ کر ارض مقدس پر قبضہ کرلے یہ قبضہ ہم نے تمہارے نصیب میں لکھ دیا ہے یعنی بنی اسرائیل کے حق میں فیصلہ کردیا ہے کہ اس پر ان کا قبضہ ہوگا ارض مقدس سے اس عہد کا ملک شام مراد لیا جاتا ہے جس میں بیت المقدس بھی شامل تھا اور یہ زمین انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا تقریباً مرکز رہی ہے غالباً طوفانِ نوح (علیہ السلام) کے بعد اکثر آبادی بھی انہی علاقوں میں تھی یا اسی جگہ سے گردوپیش پھیلنا شروع ہوئی تھی لہذا یہاں کثرت سے نبی مبعوث ہوئے اس لیے نہ صرف بیت المقدس بلکہ پورے ملک کو ارض مقدس کہا جاتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے حکیمانہ انداز میں بات قوم تک پہنچائی کہ دیکھو اللہ کریم نے تم پر بیشمار احسانات کئے ہیں اور بہت ہی انعامات سے نوازا ہے کہ تمہاری قوم میں مسلسل سلسلہ نبوت جاری فرما دیا تھا سب سے اعلی انعام روحانی کمال ہوتا ہے۔ مادی کمالات کی حیثیت اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر بھی نہیں بنتی اور کمالات روحانی کی انتہا نبوت ہے جس کے فیضان سے صحابیت اور جس کی تربیت سے ولایت خاصہ نسل در نسل اور سینہ بسینہ چلتی ہے اب تم لوگ یہ دیکھو کہ اللہ کریم نے اتنی بڑی نعمت تم میں کس قدر عام کردی کہ پے درپے انبیاء مبعوث فرمائے پھر کمالات روحانی کے ساتھ مادی دولت یا سیاسی غلبہ نصیب ہوجائے تو یہ نور علی نور ہے اور رب کریم کا بہت بڑا احسان ہے سو تمہیں بادشاہت بھی عطا کی حکومت و سلطنت بھی بخشی کبھی نبی کو ہی بادشاہ بنا دیا اور یہ کتنا حسین دور ہوگا جس میں حکومت اللہ کے نبی کی ہو یا پھر نبوت کے ساتھ انبیاء کے خدام کو حکومت عطا کردی اور من حیث القوم روحانی کمالات بھی اور مادی ترقی بھی۔ دونوں تمہارے حصے میں آئے اور تمہیں نصیب ہوئے۔ یہ ایسے کمالات تھے جو تمہارے زمانے میں روئے زمین پر تمہارے کسی ہم عصر کو نصیب نہ ہوئے یہ معمولی انعامات نہ تھے اور پھر اب دیکھ لو کہ تم قبطیوں کے تابع تھے کس قدر ذلیل و خوار ہوچکے تھے وہ تمہیں انسانی حقوق دینے پہ بھی تیار نہ تھے مگر اللہ نے پھر مجھے مبعوث فرمایا اور تم نے دیکھا کہ ساری شان و شوکت ساری ہیبت و عظمت کے باوجود فرعون کو ہر مقابلے میں ذلیل ہونا پڑا۔ اور جادوگر بھی اسے چھوڑ کر ایمان لے آئے پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ غرق ہوا اس کے لشکر تباہ ہوئے اور اللہ نے تمہیں قابض کردیا حکومت عطاء کردی اپنی کتاب عطا فرمائی باوجودیکہ تم بچھڑے کی پوجا میں ملوث ہوگئے تھے پھر تمہیں معاف فرمایا اور توبہ قبول فرمائی اب جس ملک میں تمہیں انسان نہیں سمجھا جاتا تھا وہاں تمہاری حکومت ہے اس کے ساتھ اللہ کریم نے تم پر مزید انعام کیا ہے اب قاعدہ یہ ہے دنیا میں اسباب اختیار کرنا ضروری ہے پھر اس پر اجر دینا یا انعام عطا فرمانا یہ اللہ کا کام ہے مجاہدہ کسبی اور ثمرات وہبی ہوتے ہیں سو اللہ نے تمہیں ارض مقدس یا ملک شام بھی بخش دیا مگر تم اس طرف بڑھو سہی جہاد کا ثواب بھی پاؤ اور ملک کی سرحدیں بھی وسیع تر کرلو اور اس کے ساتھ ارض مقدس بھی تمہاری حکومت کے زیر انتظام آجائے اور دیکھو جہاد کو مشکل سمجھ کر پیچھے مت ہٹنا ورنہ نقصان اٹھاؤگے اگر وہ احسانات و انعامات عطاء کرسکتا ہے تو سزا بھی دے سکتا ہے لہذا اس کا حکم ماننے میں کوتاہی نہ کرنا اب ہوا یہ کہ قوم نکل چلی جب مصر اور شام کے درمیان پہنچے تو فیصلہ ہوا کہ کچھ لوگوں کو بھیجا جائے جو اندازہ کریں کہ اس شہر کے لوگ کیسے ہیں فوج کیسی اور کتنی ہے ؟ حفاظت کا اہتمام کیا ہے تو قرعہ فال سرداروں کے نام پڑا کہ جناب ! جو سرداری کرتے ہیں انہیں پہلے بھیجا جائے چناچہ وہ گئے۔ شہر کونسا تھا ؟ مفسرین نے تین چار شہروں کے نام لکھے ہیں مگر کوئی بھی ہو ملک شام کا مرکزی شہر تھا۔ اگر فتح ہوجاتا تو سارا ملک فتح ہوجاتا چناچہ وہ آگے آگے بڑھے جا رہے تھے کہ انہیں اس شہر کا ایک آدمی مل گیا یہ لوگ عمالقہ کہلاتے اور قوم عاد کے بچے کھچے لوگوں کی اولاد تھے جن کی قدو قامت اور ڈیل ڈول تو مشہور ہے انہوں نے دیکھا تو ہاتھ پاؤں پھول گئے اس نے پوچھ گچھ کی تو مزید گھبرا گئے وہ پکڑ کرلے گیا اور امیر کے روبرو پیش کردئیے وہاں انہوں نے جو دیکھا وہ اسی ڈیل ڈول کا ، بڑی شان و شوکت فوج اسلحہ اور بہت گھبرائے اہل دربار نے سوچا انہیں قتل کرنا مفید نہیں انہیں چھوڑ دیا جائے تو یہ اپنی قوم کو جا کر بد دل کردیں گے جو ہم پر حملہ آور ہوا چاہتی ہے کیونکہ انہوں نے سارا راز اگل دیا تھا چناچہ رہا کردئیے گئے اور گرتے پڑے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور سارا قصہ سنایا کہ جناب یہ لوہے کے چنے ہیں حضرت نے تسلی دی فرمایا یہ اللہ کا کام ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ یہ ملک تمہیں عطاء کرے گا تمہیں صرف آگے بڑھنا ہے لہذا تم یہ باتیں مت کرو ، نہ خود گھبراؤ اور نہ دوسروں کے لیے ایسی فضا پیدا کرو کہ وہ جہاد سے ڈر جائیں بلکہ یہ بات بھول جاؤ کسی سے تذکرہ ہی نہ کرنا لیکن وہ رہ سکے ، اور اس تاکید کے ساتھ کہ میں تمہیں بتاتا ہوں تم کسی کو مت بتانا اپنے قریبی لوگوں کو بتایا پھر کچھ ان کے قریبی تھے سوائے دو سرداروں کے باقی دس نے افشائے راز کردیا اور بات لوگوں میں پھیل گئی یہ قوم جو آج بڑھ بڑھ کر باتیں بنا رہی ہے۔ ان کے اجداد نے کہا اے موسیٰ ! وہاں تو کوئی بڑے تکڑے لوگ رہتے ہیں ہمہ ان سے نہیں لڑسکتے بھلا انسان انسان سے تو لڑے پہاڑوں سے کون سر مارے۔ ان میں سے ایک آدمی نے ہمارے بارہ سردار پکڑ لیے بھلا ہم ان کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں ؟ ہاں اگر وہ شہر خالی کردیں اور اللہ ان پر کوئی ایسی مصیبت ڈالے کہ انہیں وہاں سے بھاگنا پڑے تو جب وہ لوگ چلے گئے ہم شہر میں داخل ہوجائیں گے۔ ان دوسرداروں نے جنہوں نے راز بھی افشا نہیں کیا تھا بہت کوشش کی ، بڑا سمجھایا اور اس لیے وہ اس قابل ہوئے یعنی تھے تو اسی قوم کے فرد مگر نہ صرف خود قائم رہے بلکہ دوسروں کو سمجھانے اور تبلیغ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اس لیے کہ ان میں اللہ کا خوف تھا ان کے کاموں میں للہیت ہوتی تھی دکھاوے کو نہیں کرتے تھے سو ان پر اللہ کا انعام تھا کہ انبیاء کے انوارات کو ان کے مزاج اور ان کے قلوب قبول کرتے تھے اگر خوف خدا نہ ہوتا دکھاوا ہوتا تو دوسروں کے ساتھ ہی ان کا شمار بھی ہوتا تو انہوں نے بات سمجھانے کی بڑی کوشش کی کہ بھئی وہ لوگ تم سے خوفزدہ تھے۔ اگر جرات ہوتی تو ہمیں کو قتل کردیتے مگر انہوں نے اس منصوبہ بندی پہ ہمیں چھوڑا ہے کہ ان کے قد کاٹھ کے قصے سن کر تم لوگ ڈر جاؤ اور حملہ کرنے سے باز رہو ورنہ اندر سے وہ کھوکھلے ہیں اور بہت ڈرے ہوئے اگر تم شہر کے ایک دروازے پہ ہلہ بول دو تو وہ دوسرے سے بھاگ جائیں گے اور تمہیں فتح نصیب ہوگی اور ویسے بھی ایمان کا تو تقاضا ہی یہی ہے کہ اللہ پر بھروسہ کیا جائے اور اسی پہ امید رکھی جائے۔ جب اللہ کریم اپنے رسول کی وساطت سے فتح کا وعدہ فرما رہے ہیں جس کی زبان حق ترجمان پر سینکڑوں وعدے پورے ہوچکے ہیں تو پھر پیچھے ہٹنے کے لیے تو کوئی جواز نہیں رہ جاتا ۔ مگر وہ نہ مانے اور سیدھا سیدھا کردیا کہ اے موسیٰ ! ان کے ہوتے ہوئے ہم اس شہر میں داخل نہ ہوگے۔ ہاں ! آپ لڑئیے اور آپ کا خدا بھی تو آپ کے ساتھ ہے خدا خود ان سے لڑے ہم یہاں بیٹھے ہیں یہ کریں گے کہ چلو ! یہاں سے پیچھے نہیں بھاگتے مگر آجے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ جانیں اور آپ کا رب۔ اس قوم کو دیکھو ! کہنے لگے موسیٰ یہ آپ کا رب بھی عجیب ہے ، ذلیل تھے ، خوار تھے ، زندہ تو تھے ، وہاں سے نکلوایا۔ فرعون سے بچایا۔ ورنہ غرق دریا ہی کردیتا اب یہاں لاکر مروانے کا کیا فائدہ بھئی ! ہمیں تو سوائے موت کے کچھ نظر نہیں آتا موت سے زندگی بہرحال اچھی تھی۔ خواہ تکلیف دہ سہمی اب خود لڑئیے یا اپنے رب کو بلا لیجئے ہم یہاں نتائج کا انتظار کریں گے یہ ایک میدان میں فروکش تھے جو مصر اور شام کے درمیان تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی بار الہ ! اپنی جان پر اور بھائی پر تو بس چلتا ہے لیکن ان بدکاروں پہ میرا اختیار نہیں چلتا۔ اب تو ہی مناسب اور بہتر فیصلہ صادر فرما۔ خواہ ہمیں ان سے جدا ہونا پڑے اکیلے لڑنے کا حکم دیدے ہم حاضر ہیں۔ تو جواباً ارشاد ہوا کہ ان کا اپنا فیصلہ ہے ہم اسی جگہ بیٹھیں گے سو اب انہیں بطور سزا چالیس برس اسی جگہ گذارنے ہوں گے اب چاہیں بھی تو چالیس برس سے پہلے نہ آگے جاسکتے ہیں نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ ہاں یہی وادی ہے جس میں آوارہ گردی ان کا مقدر ہے چناچہ کوئی تیس فرسخ یا تقریباً نوے میل لمبی اور نو فرسخ یعنی ستائیس میل چوری وادی میں پھنس کر رہ گئے اور چالیس برس تک کوشش کرتے رہے ہر طرف چلتے اور سفر کرتے رہے مگر وادی سے نکلنا نصیب نہ ہوا اگرچہ پہلے بھی کئی بار ان سے گستاخی اور اللہ کی طرف سے معافی ہوتی رہی کہ موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے تو انہیں پھر معاف کردیا جاتا مگر ہر بار کسی نہ کسی سزا سے گذرنا پڑا ، گو سالہ پرستی پہ قتل ہونا پڑا اور یہاں جہاد سے انکا پر چالیس برس کے لیے نظر بند کردئیے گئے نہ پولیس نہ ہتھکڑی نہ جیل نہ دیوار بس اللہ کی مرضی کہ ہمیشہ چل پھر کر انہی جگہوں پہ پہنچ جاتے جہاں سے چلے ہوتے اور یہ حال پورے چالیس برس رہا غرضیکہ ایک نسل تقریباً گذر گئی خود ہارون (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی۔ عرصہ پورا ہوا تو یوشع بن نون نبی مبعوث ہوئے اور پھر ان کی سرکردگی میں اس شہر پر حملہ ہوا اور فتح ہوا۔ ملک شام میں بھی ان کی ملکیت یا حکومت میں شامل کردیا گیا ۔ یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کا اتباع نہ کرنے پر اگر نبی معاف بھی کردے تو بھی دنیاوی نقصان ضرور ہوتا ہے یہی حال طالب اور شیخ کے رشتے کا ہے اگر معاف بھی کردیا جائے تو مقامات روحانی سلامت رہ جائیں گے مصائب دنیوی سے بچنا ممکن نہیں ہوتا مگر اس سب کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اللہ کے دو نبیوں کا ساتھ اور نیک اور مخلص بندوں کا ساتھ بھی تھا جنہوں نے انہیں چھوڑا نہیں ان کے ساتھ اس وادی میں رہے تو اس کے طفیل انہیں توبہ نصیب ہوئی حکومت نہ صرف بچ گئی بلکہ سدھر گئی نیز دنیا میں بیشمار برکات نصیب ہوئیں کہ دھوپ کی شکایت ہوئی تو بادل کا سایہ کردیا گیا جدھر چلتے ادھر چلتا رہتا پانی کی تنگی ہوئی تو ایک پتھر میں سے بارہ چشمے جاری ہوجاتے جو متناسب سا پتھر تھا جب روانہ ہوتے تو اٹھا کر ساتھ لے چلتے جب پانی کی ضرورت ہوتی تو عصا مارتے اور پانی جاری ہوجاتا ایسے ہی آسمانوں سے من وسلوی کا نازل کیا جانا روشنی کے لیے اسی عصاء کو حضرت میدان میں گاڑ دیتے تو وہ نور کا منارہ بن جاتا اور سارے میدان کو روشن کردیتا سو شروع میں تو جب ان پر سزا مسلط کی گئی تو موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بہت دکھ لگا کہ شاید انہیں اتنی بڑی سزا کا گمان نہ ہوگا مگر سزا اعمال کی جنس ہی سے ہوتی ہے جب وہ اللہ کا ، اللہ کے نبی کا حکم چھوڑ کر بیٹھ رہے تو اللہ نے فرمایا چھا پھر بیٹھو اور اب تسلی سے بیٹھو حتی کہ یہ نسل تو اسی بیٹھک میں گذر جائے گی ، مگر پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ بدکاروں پہ دکھ نہیں کرنا چاہئے مگر ساتھ ساتھ ان کی وجہ سے ان پر پھر سے نعمتیں اور نوازشیں بھی جاری رکھیں کہ نیکوں کی صحبت کبھی ضائع نہیں جاتی۔
Top