Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِ١ۚ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَيَبْلُوَنَّكُمُ : ضرور تمہیں آزمائے گا اللّٰهُ : اللہ بِشَيْءٍ : کچھ (کسی قدر) مِّنَ : سے الصَّيْدِ : شکار تَنَالُهٗٓ : اس تک پہنچتے ہیں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَرِمَاحُكُمْ : اور تمہارے نیزے لِيَعْلَمَ اللّٰهُ : تاکہ اللہ معلوم کرلے مَنْ : کون يَّخَافُهٗ : اس سے ڈرتا ہے بِالْغَيْبِ : بن دیکھے فَمَنِ : سو جو۔ جس اعْتَدٰي : زیادتی کی بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فَلَهٗ : سو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اے ایمان والو ! اللہ تمہیں ضرور کسی قدر شکار سے آزمائیں گے (حالت احرام میں) کہ اسے تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچتے ہوں تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس سے بےدیکھے ڈرتا ہے پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے درد دینے والا عذاب ہے
رکوع نمبر 13 ۔ آیات 94 تا 100 ۔ اسرار و معارف : در اصل حرام اور حلال مقرر کرنے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کریم کو اس کا اختیار ہے وہ چاہے جس چیز سے منع کردے یہ اس کی شوکت کا اظہار بھی ہے مگر اس نے امت مرحومہ پر صرف وہ چیزیں حرام کردی ہیں جو یا تو جسمانی لا ظ سے نقصان دہ تھیں یا روحانی اعتبار سے یا پھر دونوں طرح سے بیک وقت نقصان دہ تھیں ورنہ پہلی امتوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اچھی اور حلال چیزیں بھی بطور سزا حرام کی جاتی رہیں یہاں بھی حرمت کا ایک پہلو ایسا ہے جس میں مسلمانوں پر اچھی اور مفید چیز بھی حرام کردی جاتی ہے مگر عذاب یا سزا کے طور پر نہیں کی جاتی۔ اور نہ لمبے عرصے کے لیے کی جاتی ہے مثلاً روزے میں کھانا پینا اور بعض دوسری جسمانی ضروریات جائز طریقے سے پوری کرنے سے روک دیا تو ایک مقررہ وقت یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک تھا۔ اور ایک مقررہ مہینہ ماہ رمضان کا ہمیشہ کے لیے نہیں اب اس میں کئی روشن پہلو ہیں عظمت باری عز اسمہ کا اظہار بھی ہے کہ حقیقی مالک وہی ہے ہم تو بندے ہیں جو حکم ہوگا تعمیل کریں گے دوسرے اس کے طفیل انسان پر رحمت اور بخشش کی بارش برستی ہے اور تیسرے کہ اس کی روحانی تربیت ہو رہی ہے اور روحانی قوت درجہ کمال کو پاسکتی ہے اور بھی کتنی برکتیں شمار کی جاسکتی ہیں جو قرآن میں حدیث شریف میں موجود ہیں اور ایسی بھی ہوں گی جن تک ہماری نگاہ نہیں پہنچتی یہی حال حالت احرام میں شکار کا ہے عرب صحرائی ملک ہے شکار ملتا بھی بہت تھا اور صحابہ ؓ شکار کے عادی بھی تھے اللہ کریم نے حد حرم میں ہمیشہ کے لیے اور حالت احرام میں تھا۔ تو اس پر جزا واجب ہوگی۔ اور وہ اسی جانور کے مثل ہوگی اب اس کی مثل کیا ہے کفارہ میں اس کی تعیین وہاں کے دو عادل آدمی جو نیک بھی ہوں اور بات سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں اور اسی علاقہ سے ہوں کہ وہاں کے ماحول کے مطابق جانوروں کی قیمتوں وغیرہ سے واقف ہوں وہ مقرر کریں گے کہ اس کا کفارہ بھیڑ ہے بکری یا دس بکریاں یا اونٹ وغیرہ۔ فقہاء کے مطابق ایک آدمی بھی کردے تو جائز ہوگا مگر شرط یہ ہے کہ آدمی نیک بھی ہو اور معاملہ فہم بھی یہی وجہ ہے کہ مشائخ صرف نیکی پہ صاحب مجاز مقرر نہیں کرتے بلکہ نیک ہونے کے ساتھ معاملہ فہمی بھی شرط ہے نیز اگر ارادتاً نہیں مارا غلطی سے جانور شکار ہوگیا نشانہ دیکھنے کو تیر چھوڑا تھا جانور کو لگ گیا یا فائر کیا تھا جانور مر گیا تو ویسا ہی کفارہ واجب وہ گا اور وہ کفارے میں ذبح کیا جانے والا جانور حرم تک پہنچایا جائے حرم کے اندر ذبح کیا جائے گا۔ یا پھر اسی اندازے کے مطابق مساکین کو کھانا کھلا دے اگر یہ بھی نہ کرسکے تو اسی اندازے کے مطابق روزے رکھے یہ مساکین کا کھلانا اور روزے حرم کی حد سے مشروط نہیں ہیں۔ سزا کا فلسفہ : یہ اس ک کام کی سزا ہے کہ اسے احساس جرم ہوجائے اور ندامت ہو اسلام میں جرم پر سزا محض مجرم کو تکلیف دینے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اسے جرم کی قباحت کا احساس دلانا مقصود ہوتا ہے تاکہ آئندہ جرم سے رک جائے اور ہاں اس سے پہلے جو گذر چکی وہ گذر چکی اس پر اللہ کریم گرفت نہیں فرماتے بلکہ معاف فرما دیا ہے اور اگر کوئی بار بار ہی جرم کرے گا تو بار بار کفارہ تو دے گا ہی مگر اسے غضب الہی سے بےفکر نہیں ہونا چاہئے کہ اس کی گرفت بھی بہت سخت ہے۔ اور ہوسکتا ہے مسلسل برائی کو روکنے کے لیے وہ خود بدلہ لے اور بدلہ لینے میں وہ غالب اور طاقتور بھی ہے اور اس کی گرفت بہت سخت ہے۔ ہاں ! پانی کا شکار اس کا پکڑنا کھانا حالت احرام میں بھی اس کی اجازت ہے یہ مسافروں کے لیے اللہ کریم کی طرف سے خصوصی تحفہ ہے جو سمندر میں سفر کرکے حرم کی طرف جا رہے ہیں انہیں کھانے پینے میں تنگی کا سامنا نہ ہو اور جب تک حالت احرام میں ہو۔ خشکی پر شکار کی اجازت نہیں کہ وہاں کھانے کا متبادل انتظام ہوسکتا ہے ہاں جب احرام کھول دو تو حد حرم سے باہر جب چاہو شکار کرو اور اکثر صحابہ شکار کرتے تھے بلکہ حضور اکرم ﷺ کو خبر ہوتی کہ فلاں خادم نے شکار کیا ہے تو وہ فرماتے بھئی میرا حصہ بھی رکھنا۔ اور اللہ کریم سے قلبی تعلق برقرار رکھو اور اس کے ٹوٹ جانے سے ڈرتے رہا کرو کہ وہ بےنیاز ہے اور تم محتاج ہو اور کتنی عجیب بات ہے کہ محتاج گستاخی کرے۔ اور جسے حاجت نہ ہو وہ درگذر فرمائے اور یہ بھی یاد رہے کہ سب کو لوٹ کر بھی تو اسی کے حضور جانا ہے۔ بیت اللہ شریف : اللہ کریم نے کعبہ کو بزرگی اور عظمت والا گھر بنایا ہے اور یہ لوگوں کی بقاء کا باعث ہے۔ قیاما للناس۔ اولاد آدم (علیہ السلام) یا انسانیت کی بقاء کا انحصار اس کی عظمت اور توقیر سے وابستہ کردیا گیا ہے اگر اس کی عظمت نہ رہے گی تو لوگوں کا باقی رہنا ممکن نہ ہوگا یعنی پھر یہ دنیا ہی نہ رہ سکے گی۔ اور حدیث شریف میں تفصیل ملتی ہے کہ ٹیڑھی ٹانگوں والا یہودی مکہ فتح کرکے بیت اللہ شریف گرا دے گا۔ اور اس کا حج ختم کردے گا جس کے بعد قیامت قائم ہوگی۔ اور اب یہود نے یہ کوشش پچھلے چند سالوں سے شروع کردی ہے ایک سال بارود بھیجا جو پکڑا گیا اس کام کیلئے آلہ کار ان کا غلام ایران کا رافضی ہے۔ پھر جلوس وغیرہ اور بد امنی پھیلانے کی سازش کی اور حج کو جو افضل العبادات کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک سیاسی کھیل میں تبدیل کرنا چاہا۔ جب سوائے اس ایک نامراد یہودی فرقہ کے دنیا کا کوئی مسلمان اس طرف راغب نہ ہوا تو پچھلے برس بیت اللہ شریف پر قبضہ کرنے کا ناکام منصوبہ بنایا۔ اللہ انہیں آئندہ بھی نامراد ہی رکھے تو کعبۃ اللہ ، اللہ کریم کی ذاتی تجلیات کا مرکز اور مہبط ہے اور پھر اہل مکہ یا قریش کو اس کے طفیل جو عزت نصیب ہے ۔ یا حاجیوں اور زائرین کی وجہ سے انہیں رزق کے حاصل کرنے میں جو آسانی ہے وہ ہے ہی۔ یہ صرف اہل مکہ اور قریش کی بات نہیں بلکہ روئے زمین کی انسانیت اور انسانی معاشرے کی بقاء اور زندگی کا مدار بیت اللہ کی بقاء سے وابستہ ہے اب اس کی کیفیت کیا ہے یا کس طرح سے اس کا جاننا ضروری ہوتا تو اللہ کریم یہ بھی ضرور ارشاد فرما دیتے۔ اب لوہے اور مقناطیس میں کیا رشتہ ہے۔ نظر نہیں آتا مگر لوہا کھینچتا چلا جاتا ہے اس کا مشاہدہ ہم کرتے ہیں اسی طرح دنیا اور عالم کی بقاء کا اور بیت اللہ شریف کا رشتہ ہے ایسے ان اہل اللہ کا جن کو مناصب عطا ہوتے ہیں حالات دنیا سے رشتہ ہوتا ہے جس پر صوفیاء کا اتفاق ہے کہ کارگہ حیات چار حصوں میں یا چار شعبوں میں بٹ کر ان چار وجودوں سے منسلک کردی جاتی ہے جو چار قطب کہلاتے ہیں ان کا مرکز یا حاکم غوث ہوتا ہے اور اس پایہ کا ولی اللہ اپنے زمانے میں روئے زمین پہ ایک ہوتا ہے بہت کم اس سے اوپر منصب دیا جاتا ہے اگر دیا جائے۔ تو غوث ترقی کرکے قیوم بنتا ہے قیوم فرد بنتا ہے فرد قطب وحدت اور قطب وحدت ترقی کرکے صدیق بنتا ہے۔ جو صدیوں میں کبھی ایک آدھ دنیا پہ آتا ہے جیسے حضرت مریم کے حق میں قرآن نے گواہی دی کہ آپ صدیقہ تھیں اور مناصب کے اعتبار سے حالات عالم ان حضرات کے وجود سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن اس میں عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ یہ سب کرشمہ اللہ کی قدرت کا ہے بعض کیا اکثر اوقات دنیا کی زندگی میں اہل اللہ کو اپنے منصب کا پتہ بھی نہیں چلتا مگر کام ان سے لیا جا رہا ہوتا ہے اور اس پر شرک کا فتوی دینے والوں کو یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ کعبۃ اللہ بھی بےجان پتھروں کا ڈھیر ہے اگر اللہ چاہے اسے قیام انسانیت اور بقائے جہان کا سبب بنا دے تو حید کو کوئی خطرہ نہیں چاہے تو پانی سے ہر شے کی حیات کا تعلق جوڑ دے اور توحید پختہ تر ہو کہ اصل اقتدار اسی کا ہے اور دنیا میں یہ قانون بھی اسی کا ہے کہ ہر شے کا سبب ہوتا ہے اگر اسباب باطنی میں بیت اللہ کے ساتھ ان انسانی قلوب کو بھی واسطہ اور ذریعہ بنا دے جن پر اس کی تجلیات متوجہ رہتی ہیں تو آپ بےفکر رہئے اس کی شان میں کوئی فرق آتا ہے نہ توحید خطرہ میں ہے ہاں بدعتیوں نے بدعات اور خرافات کی جو بنیاد ان باتوں پہ رکھی ہے اور جس قدر لوگوں کے ایمان و عمل کو نقصان پہنچایا ہے اس کی تردید اور اصلاح کی بہت زیادہ ضرورت ہے لیکن سر میں درد ہوجائے تو علاج سر کاٹ دینا نہیں ہوتا یہاں بھی اصل علاج یہ ہے کہ صحیح اسلامی اور موروثی کیفیات جو آپ ﷺ سینہ بسینہ منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ انہیں عام کردو جب بازار میں اصل عام ہوجائے تو نقل خود بخود بکنا بند ہوجاتی ہے ورنہ ان کیفیات کا انکار دلوں سے خلوص لے جائے گا اور بدعات کی جگہ نفاق آنا شروع ہوجائے گا۔ جو ان سے زیادہ خطرناک اور مہلک مرض ہے ایسے ہی حرمت والے مہینوں کی عزت ہے اور قربانی کے جانوروں کی عزت و احترام ہے کہ انہیں چھیڑا نہ جائے نہ راستہ روکا جائے نہ چرائے جائیں وہ جانور بھی جن کے گلوں میں بطور قربانی کی نشانی کے پٹے ڈال دئیے گئے ہوں یہ اس قدر باریک بینی اور چھوٹی سے چھوٹی بات پہ بحث و تمحیص اور رہنمائی فرمانے سے یہ بات تو پتہ چل رہی ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی کوئی چیز یا کوئی بات اللہ کریم سے پوشیدہ نہیں ہے اور وہ ہر ذرے ہر خیال ہر وسوسے تک سے آگاہ ہے اور یہ بھی خوب واضح رہے کہ مسلسل نافرمانی انسان کو اس کی گرفت میں لے جاتی ہے اور اس کی گرفت بہت ہی سخت ہے ہاں ! اگر باز آجائے توبہ کرلے عقائد و اعمال میں اپنی اصلاح کرلے تو وہ بخشنے والا بھی ہے اور اس کی رحمت کا سمندر بھی ناپیدا کنار ہے۔ فریضہ رسالت : یاد رکھو ! فریضہ رسالت ان تعلیمات اور برکات کا پہنچانا ہے جو پہنچانے کا حکم آپ کو اللہ کی طرف سے دیا گیا جہاں تک تعلیمات کا تعلق ہے آپ ﷺ نے اس انداز سے اس زور اور شدت سے پہنچائیں کہ اب چودہ صدیاں بیت چکی ہیں جن کی گرد میں بڑے بڑے شہنشاہ اور ان کے حالات دفن ہوگئے مگر آپ ﷺ کی تعلیمات کو ذرا میلا بھی نہ کرسکیں ایک گدا کے جھونپڑے سے لے کر محلات شاہی تک اللہ کا پیغام دیا بلکہ اس کے مطابق چند برسوں میں ایک معاشرہ ، ایک حکومت ، ایک ملک ، ایک فوج ، ایک طرز حکومت ، ایک طرز تعلیم ، ایک عدالتی نظام غرض مکمل سلطنت بنا کر چشم عالم کے سامنے اللہ کا مثالی مسلمان اللہ کا مثالی معاشرہ۔ اللہ کی مثالی پسندیدہ حکومت پیش فرما دی ، ﷺ۔ اور جہاں تک کیفیات اور برکات اور ذوق کا تعلق تھا وہ اس طرح لٹایا کہ یہ صرف آپ کا خاصہ ہے ایمان لا کر جو بھی سامنے آیا ایک نگاہ نے اسے صحابی بنا دیا مرد تھا یا خاتون امیر غریب عالم جاہل کوئی تھا بات ایمان کی تھی یا آپ ﷺ کی نگاہ میں آنے کی۔ اور ایمانیات سے لے کر اخلاقایت تک یہ وہ درجہ ہے کہ جس سے اوپر کوئی درجہ نہیں اس سے اوپر صرف نبوت ہے اور بس۔ سو فریضہ رسالت اللہ کے انعامات کا پہنچانا تھا اب اسے قبول کرنا اس پر عمل کرنا اس سے فائدہ اٹھانا یہ تو سب انسانوں کے ذمہ ہے اور یہ خوب جان رکھو کہ تم جو ظاہر کرتے ہو اللہ کریم اس سے بھی واقف ہیں اور اتنے ہی اس بات اور حالت سے بھی واقف ہیں جو تم ظاہر نہیں کرتے ہاں اکثر اوقات نیک صالح اور پاکیزہ افراد بھی معاشرے میں کم ہوتے ہیں تعداد کے اعتبار سے اور اعمال و نظریات بھی مگر ناپاک کی کثرت اس کے اچھا ہونے کی دلیل تو نہیں بن سکتی گو بظاہر وہی بات لوگوں کو بھلی لگتی ہے جس پر اکثریت کا عمل ہو لیکن یہ تو ہمیشہ رہا ہے کہ ایسے عالی ہمت اور اولو العزم لوگ تعداد میں کم ہی رہے ہیں وجو دنیا اور اس کی لذات کو اللہ کی اطاعت کے لیے رسول اللہ ﷺ سے رشتہ الفت قائم رکھنے کے لیے قربان کردیں اور دنیا کی لذات اور وقتی جذبوں کی تسکین کے لیے گناہ میں غرق ہونے والے لوگ ہمیشہ زیادہ رہے ہیں تو اے مخاطب تو اس لیے اس طرف چلا جائے گا کہ معاشرہ کی اکثریت اس طرف ہے اس لیے جمہوری اقدار کا پاس کرتے ہوئے تجھے اللہ کی عظمت کا احساس نہیں ہوگا ان لوگوں کی عالی ہمتی کی داد نہ دے جو اس سارے طوفان کو کوئی حیثیت دینے کو آمادہ نہیں ہوتے اور یہ طوفانی لہریں ان کے قدموں کی ٹھوکروں سے ہٹ ہٹ جاتی ہیں یا حرام مال زیادہ مل رہا ہے اور اس میں اللہ کی رضا مندی شامل نہیں عذاب الہی کا باعث بنے گا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں حلال کم سہی مقدار میں تھوڑا سہی مگر اللہ کریم کی رضا مندی اور خوشنودی کا سبب تو ہے جس پر کئی جہانوں کی لذتیں اور سینکڑوں زندگیاں اگر عطا ہوتی چلی جائیں تو بےدریغ نچھاور کرتے چلے جائیے پھر بھی سیری نہ ہو اور دل نہ بھرے سو یاد رکھئے یہ طیب حلال اور پاکیزہ اپنی ایک عظمت رکھتے ہیں جو ناپاک کی زیادتی سے مجروح نہیں ہوتی خواہ ظاہر بین کے لیے صرف کثرت ہی بڑی اہمیت کا باعث ہو لیکن اللہ کریم کے ہاں نیکی وار پاکیزگی کی عظمت ہے اسی لیے اسلام میں طریقہ انتخاب بھی یہ ہے کہ نیک اور پسندیدہ نیز معاملہ فہم لوگ جس ہستی پر متفق ہوجائیں عوام کو چاہئے کہ اس کی بیعت اختیار کریں نہ یہ کہ ہر کس و ناکس کی رائے برابر اہمیت رکھتی ہو یہ خوبصورت حماقت مغرب کی ایجاد ہے سو اللہ سے ڈرو۔ اور اللہ کا پسندیدہ راستہ اختیار کرو ، کہ دانشمندانہ بات یہی ہے اور اسی طریقے سے تمہیں دو عالم میں کامیابی نصیب ہوسکتی ہے۔
Top