Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِ١ۚ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والو
لَيَبْلُوَنَّكُمُ
: ضرور تمہیں آزمائے گا
اللّٰهُ
: اللہ
بِشَيْءٍ
: کچھ (کسی قدر)
مِّنَ
: سے
الصَّيْدِ
: شکار
تَنَالُهٗٓ
: اس تک پہنچتے ہیں
اَيْدِيْكُمْ
: تمہارے ہاتھ
وَرِمَاحُكُمْ
: اور تمہارے نیزے
لِيَعْلَمَ اللّٰهُ
: تاکہ اللہ معلوم کرلے
مَنْ
: کون
يَّخَافُهٗ
: اس سے ڈرتا ہے
بِالْغَيْبِ
: بن دیکھے
فَمَنِ
: سو جو۔ جس
اعْتَدٰي
: زیادتی کی
بَعْدَ ذٰلِكَ
: اس کے بعد
فَلَهٗ
: سو اس کے لیے
عَذَابٌ
: عذاب
اَلِيْمٌ
: دردناک
اے ایمان والو ! اللہ تمہیں ضرور کسی قدر شکار سے آزمائیں گے (حالت احرام میں) کہ اسے تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچتے ہوں تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس سے بےدیکھے ڈرتا ہے پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے درد دینے والا عذاب ہے
رکوع نمبر 13 ۔ آیات 94 تا 100 ۔ اسرار و معارف : در اصل حرام اور حلال مقرر کرنے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کریم کو اس کا اختیار ہے وہ چاہے جس چیز سے منع کردے یہ اس کی شوکت کا اظہار بھی ہے مگر اس نے امت مرحومہ پر صرف وہ چیزیں حرام کردی ہیں جو یا تو جسمانی لا ظ سے نقصان دہ تھیں یا روحانی اعتبار سے یا پھر دونوں طرح سے بیک وقت نقصان دہ تھیں ورنہ پہلی امتوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اچھی اور حلال چیزیں بھی بطور سزا حرام کی جاتی رہیں یہاں بھی حرمت کا ایک پہلو ایسا ہے جس میں مسلمانوں پر اچھی اور مفید چیز بھی حرام کردی جاتی ہے مگر عذاب یا سزا کے طور پر نہیں کی جاتی۔ اور نہ لمبے عرصے کے لیے کی جاتی ہے مثلاً روزے میں کھانا پینا اور بعض دوسری جسمانی ضروریات جائز طریقے سے پوری کرنے سے روک دیا تو ایک مقررہ وقت یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک تھا۔ اور ایک مقررہ مہینہ ماہ رمضان کا ہمیشہ کے لیے نہیں اب اس میں کئی روشن پہلو ہیں عظمت باری عز اسمہ کا اظہار بھی ہے کہ حقیقی مالک وہی ہے ہم تو بندے ہیں جو حکم ہوگا تعمیل کریں گے دوسرے اس کے طفیل انسان پر رحمت اور بخشش کی بارش برستی ہے اور تیسرے کہ اس کی روحانی تربیت ہو رہی ہے اور روحانی قوت درجہ کمال کو پاسکتی ہے اور بھی کتنی برکتیں شمار کی جاسکتی ہیں جو قرآن میں حدیث شریف میں موجود ہیں اور ایسی بھی ہوں گی جن تک ہماری نگاہ نہیں پہنچتی یہی حال حالت احرام میں شکار کا ہے عرب صحرائی ملک ہے شکار ملتا بھی بہت تھا اور صحابہ ؓ شکار کے عادی بھی تھے اللہ کریم نے حد حرم میں ہمیشہ کے لیے اور حالت احرام میں تھا۔ تو اس پر جزا واجب ہوگی۔ اور وہ اسی جانور کے مثل ہوگی اب اس کی مثل کیا ہے کفارہ میں اس کی تعیین وہاں کے دو عادل آدمی جو نیک بھی ہوں اور بات سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں اور اسی علاقہ سے ہوں کہ وہاں کے ماحول کے مطابق جانوروں کی قیمتوں وغیرہ سے واقف ہوں وہ مقرر کریں گے کہ اس کا کفارہ بھیڑ ہے بکری یا دس بکریاں یا اونٹ وغیرہ۔ فقہاء کے مطابق ایک آدمی بھی کردے تو جائز ہوگا مگر شرط یہ ہے کہ آدمی نیک بھی ہو اور معاملہ فہم بھی یہی وجہ ہے کہ مشائخ صرف نیکی پہ صاحب مجاز مقرر نہیں کرتے بلکہ نیک ہونے کے ساتھ معاملہ فہمی بھی شرط ہے نیز اگر ارادتاً نہیں مارا غلطی سے جانور شکار ہوگیا نشانہ دیکھنے کو تیر چھوڑا تھا جانور کو لگ گیا یا فائر کیا تھا جانور مر گیا تو ویسا ہی کفارہ واجب وہ گا اور وہ کفارے میں ذبح کیا جانے والا جانور حرم تک پہنچایا جائے حرم کے اندر ذبح کیا جائے گا۔ یا پھر اسی اندازے کے مطابق مساکین کو کھانا کھلا دے اگر یہ بھی نہ کرسکے تو اسی اندازے کے مطابق روزے رکھے یہ مساکین کا کھلانا اور روزے حرم کی حد سے مشروط نہیں ہیں۔ سزا کا فلسفہ : یہ اس ک کام کی سزا ہے کہ اسے احساس جرم ہوجائے اور ندامت ہو اسلام میں جرم پر سزا محض مجرم کو تکلیف دینے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اسے جرم کی قباحت کا احساس دلانا مقصود ہوتا ہے تاکہ آئندہ جرم سے رک جائے اور ہاں اس سے پہلے جو گذر چکی وہ گذر چکی اس پر اللہ کریم گرفت نہیں فرماتے بلکہ معاف فرما دیا ہے اور اگر کوئی بار بار ہی جرم کرے گا تو بار بار کفارہ تو دے گا ہی مگر اسے غضب الہی سے بےفکر نہیں ہونا چاہئے کہ اس کی گرفت بھی بہت سخت ہے۔ اور ہوسکتا ہے مسلسل برائی کو روکنے کے لیے وہ خود بدلہ لے اور بدلہ لینے میں وہ غالب اور طاقتور بھی ہے اور اس کی گرفت بہت سخت ہے۔ ہاں ! پانی کا شکار اس کا پکڑنا کھانا حالت احرام میں بھی اس کی اجازت ہے یہ مسافروں کے لیے اللہ کریم کی طرف سے خصوصی تحفہ ہے جو سمندر میں سفر کرکے حرم کی طرف جا رہے ہیں انہیں کھانے پینے میں تنگی کا سامنا نہ ہو اور جب تک حالت احرام میں ہو۔ خشکی پر شکار کی اجازت نہیں کہ وہاں کھانے کا متبادل انتظام ہوسکتا ہے ہاں جب احرام کھول دو تو حد حرم سے باہر جب چاہو شکار کرو اور اکثر صحابہ شکار کرتے تھے بلکہ حضور اکرم ﷺ کو خبر ہوتی کہ فلاں خادم نے شکار کیا ہے تو وہ فرماتے بھئی میرا حصہ بھی رکھنا۔ اور اللہ کریم سے قلبی تعلق برقرار رکھو اور اس کے ٹوٹ جانے سے ڈرتے رہا کرو کہ وہ بےنیاز ہے اور تم محتاج ہو اور کتنی عجیب بات ہے کہ محتاج گستاخی کرے۔ اور جسے حاجت نہ ہو وہ درگذر فرمائے اور یہ بھی یاد رہے کہ سب کو لوٹ کر بھی تو اسی کے حضور جانا ہے۔ بیت اللہ شریف : اللہ کریم نے کعبہ کو بزرگی اور عظمت والا گھر بنایا ہے اور یہ لوگوں کی بقاء کا باعث ہے۔ قیاما للناس۔ اولاد آدم (علیہ السلام) یا انسانیت کی بقاء کا انحصار اس کی عظمت اور توقیر سے وابستہ کردیا گیا ہے اگر اس کی عظمت نہ رہے گی تو لوگوں کا باقی رہنا ممکن نہ ہوگا یعنی پھر یہ دنیا ہی نہ رہ سکے گی۔ اور حدیث شریف میں تفصیل ملتی ہے کہ ٹیڑھی ٹانگوں والا یہودی مکہ فتح کرکے بیت اللہ شریف گرا دے گا۔ اور اس کا حج ختم کردے گا جس کے بعد قیامت قائم ہوگی۔ اور اب یہود نے یہ کوشش پچھلے چند سالوں سے شروع کردی ہے ایک سال بارود بھیجا جو پکڑا گیا اس کام کیلئے آلہ کار ان کا غلام ایران کا رافضی ہے۔ پھر جلوس وغیرہ اور بد امنی پھیلانے کی سازش کی اور حج کو جو افضل العبادات کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک سیاسی کھیل میں تبدیل کرنا چاہا۔ جب سوائے اس ایک نامراد یہودی فرقہ کے دنیا کا کوئی مسلمان اس طرف راغب نہ ہوا تو پچھلے برس بیت اللہ شریف پر قبضہ کرنے کا ناکام منصوبہ بنایا۔ اللہ انہیں آئندہ بھی نامراد ہی رکھے تو کعبۃ اللہ ، اللہ کریم کی ذاتی تجلیات کا مرکز اور مہبط ہے اور پھر اہل مکہ یا قریش کو اس کے طفیل جو عزت نصیب ہے ۔ یا حاجیوں اور زائرین کی وجہ سے انہیں رزق کے حاصل کرنے میں جو آسانی ہے وہ ہے ہی۔ یہ صرف اہل مکہ اور قریش کی بات نہیں بلکہ روئے زمین کی انسانیت اور انسانی معاشرے کی بقاء اور زندگی کا مدار بیت اللہ کی بقاء سے وابستہ ہے اب اس کی کیفیت کیا ہے یا کس طرح سے اس کا جاننا ضروری ہوتا تو اللہ کریم یہ بھی ضرور ارشاد فرما دیتے۔ اب لوہے اور مقناطیس میں کیا رشتہ ہے۔ نظر نہیں آتا مگر لوہا کھینچتا چلا جاتا ہے اس کا مشاہدہ ہم کرتے ہیں اسی طرح دنیا اور عالم کی بقاء کا اور بیت اللہ شریف کا رشتہ ہے ایسے ان اہل اللہ کا جن کو مناصب عطا ہوتے ہیں حالات دنیا سے رشتہ ہوتا ہے جس پر صوفیاء کا اتفاق ہے کہ کارگہ حیات چار حصوں میں یا چار شعبوں میں بٹ کر ان چار وجودوں سے منسلک کردی جاتی ہے جو چار قطب کہلاتے ہیں ان کا مرکز یا حاکم غوث ہوتا ہے اور اس پایہ کا ولی اللہ اپنے زمانے میں روئے زمین پہ ایک ہوتا ہے بہت کم اس سے اوپر منصب دیا جاتا ہے اگر دیا جائے۔ تو غوث ترقی کرکے قیوم بنتا ہے قیوم فرد بنتا ہے فرد قطب وحدت اور قطب وحدت ترقی کرکے صدیق بنتا ہے۔ جو صدیوں میں کبھی ایک آدھ دنیا پہ آتا ہے جیسے حضرت مریم کے حق میں قرآن نے گواہی دی کہ آپ صدیقہ تھیں اور مناصب کے اعتبار سے حالات عالم ان حضرات کے وجود سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن اس میں عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ یہ سب کرشمہ اللہ کی قدرت کا ہے بعض کیا اکثر اوقات دنیا کی زندگی میں اہل اللہ کو اپنے منصب کا پتہ بھی نہیں چلتا مگر کام ان سے لیا جا رہا ہوتا ہے اور اس پر شرک کا فتوی دینے والوں کو یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ کعبۃ اللہ بھی بےجان پتھروں کا ڈھیر ہے اگر اللہ چاہے اسے قیام انسانیت اور بقائے جہان کا سبب بنا دے تو حید کو کوئی خطرہ نہیں چاہے تو پانی سے ہر شے کی حیات کا تعلق جوڑ دے اور توحید پختہ تر ہو کہ اصل اقتدار اسی کا ہے اور دنیا میں یہ قانون بھی اسی کا ہے کہ ہر شے کا سبب ہوتا ہے اگر اسباب باطنی میں بیت اللہ کے ساتھ ان انسانی قلوب کو بھی واسطہ اور ذریعہ بنا دے جن پر اس کی تجلیات متوجہ رہتی ہیں تو آپ بےفکر رہئے اس کی شان میں کوئی فرق آتا ہے نہ توحید خطرہ میں ہے ہاں بدعتیوں نے بدعات اور خرافات کی جو بنیاد ان باتوں پہ رکھی ہے اور جس قدر لوگوں کے ایمان و عمل کو نقصان پہنچایا ہے اس کی تردید اور اصلاح کی بہت زیادہ ضرورت ہے لیکن سر میں درد ہوجائے تو علاج سر کاٹ دینا نہیں ہوتا یہاں بھی اصل علاج یہ ہے کہ صحیح اسلامی اور موروثی کیفیات جو آپ ﷺ سینہ بسینہ منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ انہیں عام کردو جب بازار میں اصل عام ہوجائے تو نقل خود بخود بکنا بند ہوجاتی ہے ورنہ ان کیفیات کا انکار دلوں سے خلوص لے جائے گا اور بدعات کی جگہ نفاق آنا شروع ہوجائے گا۔ جو ان سے زیادہ خطرناک اور مہلک مرض ہے ایسے ہی حرمت والے مہینوں کی عزت ہے اور قربانی کے جانوروں کی عزت و احترام ہے کہ انہیں چھیڑا نہ جائے نہ راستہ روکا جائے نہ چرائے جائیں وہ جانور بھی جن کے گلوں میں بطور قربانی کی نشانی کے پٹے ڈال دئیے گئے ہوں یہ اس قدر باریک بینی اور چھوٹی سے چھوٹی بات پہ بحث و تمحیص اور رہنمائی فرمانے سے یہ بات تو پتہ چل رہی ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی کوئی چیز یا کوئی بات اللہ کریم سے پوشیدہ نہیں ہے اور وہ ہر ذرے ہر خیال ہر وسوسے تک سے آگاہ ہے اور یہ بھی خوب واضح رہے کہ مسلسل نافرمانی انسان کو اس کی گرفت میں لے جاتی ہے اور اس کی گرفت بہت ہی سخت ہے ہاں ! اگر باز آجائے توبہ کرلے عقائد و اعمال میں اپنی اصلاح کرلے تو وہ بخشنے والا بھی ہے اور اس کی رحمت کا سمندر بھی ناپیدا کنار ہے۔ فریضہ رسالت : یاد رکھو ! فریضہ رسالت ان تعلیمات اور برکات کا پہنچانا ہے جو پہنچانے کا حکم آپ کو اللہ کی طرف سے دیا گیا جہاں تک تعلیمات کا تعلق ہے آپ ﷺ نے اس انداز سے اس زور اور شدت سے پہنچائیں کہ اب چودہ صدیاں بیت چکی ہیں جن کی گرد میں بڑے بڑے شہنشاہ اور ان کے حالات دفن ہوگئے مگر آپ ﷺ کی تعلیمات کو ذرا میلا بھی نہ کرسکیں ایک گدا کے جھونپڑے سے لے کر محلات شاہی تک اللہ کا پیغام دیا بلکہ اس کے مطابق چند برسوں میں ایک معاشرہ ، ایک حکومت ، ایک ملک ، ایک فوج ، ایک طرز حکومت ، ایک طرز تعلیم ، ایک عدالتی نظام غرض مکمل سلطنت بنا کر چشم عالم کے سامنے اللہ کا مثالی مسلمان اللہ کا مثالی معاشرہ۔ اللہ کی مثالی پسندیدہ حکومت پیش فرما دی ، ﷺ۔ اور جہاں تک کیفیات اور برکات اور ذوق کا تعلق تھا وہ اس طرح لٹایا کہ یہ صرف آپ کا خاصہ ہے ایمان لا کر جو بھی سامنے آیا ایک نگاہ نے اسے صحابی بنا دیا مرد تھا یا خاتون امیر غریب عالم جاہل کوئی تھا بات ایمان کی تھی یا آپ ﷺ کی نگاہ میں آنے کی۔ اور ایمانیات سے لے کر اخلاقایت تک یہ وہ درجہ ہے کہ جس سے اوپر کوئی درجہ نہیں اس سے اوپر صرف نبوت ہے اور بس۔ سو فریضہ رسالت اللہ کے انعامات کا پہنچانا تھا اب اسے قبول کرنا اس پر عمل کرنا اس سے فائدہ اٹھانا یہ تو سب انسانوں کے ذمہ ہے اور یہ خوب جان رکھو کہ تم جو ظاہر کرتے ہو اللہ کریم اس سے بھی واقف ہیں اور اتنے ہی اس بات اور حالت سے بھی واقف ہیں جو تم ظاہر نہیں کرتے ہاں اکثر اوقات نیک صالح اور پاکیزہ افراد بھی معاشرے میں کم ہوتے ہیں تعداد کے اعتبار سے اور اعمال و نظریات بھی مگر ناپاک کی کثرت اس کے اچھا ہونے کی دلیل تو نہیں بن سکتی گو بظاہر وہی بات لوگوں کو بھلی لگتی ہے جس پر اکثریت کا عمل ہو لیکن یہ تو ہمیشہ رہا ہے کہ ایسے عالی ہمت اور اولو العزم لوگ تعداد میں کم ہی رہے ہیں وجو دنیا اور اس کی لذات کو اللہ کی اطاعت کے لیے رسول اللہ ﷺ سے رشتہ الفت قائم رکھنے کے لیے قربان کردیں اور دنیا کی لذات اور وقتی جذبوں کی تسکین کے لیے گناہ میں غرق ہونے والے لوگ ہمیشہ زیادہ رہے ہیں تو اے مخاطب تو اس لیے اس طرف چلا جائے گا کہ معاشرہ کی اکثریت اس طرف ہے اس لیے جمہوری اقدار کا پاس کرتے ہوئے تجھے اللہ کی عظمت کا احساس نہیں ہوگا ان لوگوں کی عالی ہمتی کی داد نہ دے جو اس سارے طوفان کو کوئی حیثیت دینے کو آمادہ نہیں ہوتے اور یہ طوفانی لہریں ان کے قدموں کی ٹھوکروں سے ہٹ ہٹ جاتی ہیں یا حرام مال زیادہ مل رہا ہے اور اس میں اللہ کی رضا مندی شامل نہیں عذاب الہی کا باعث بنے گا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں حلال کم سہی مقدار میں تھوڑا سہی مگر اللہ کریم کی رضا مندی اور خوشنودی کا سبب تو ہے جس پر کئی جہانوں کی لذتیں اور سینکڑوں زندگیاں اگر عطا ہوتی چلی جائیں تو بےدریغ نچھاور کرتے چلے جائیے پھر بھی سیری نہ ہو اور دل نہ بھرے سو یاد رکھئے یہ طیب حلال اور پاکیزہ اپنی ایک عظمت رکھتے ہیں جو ناپاک کی زیادتی سے مجروح نہیں ہوتی خواہ ظاہر بین کے لیے صرف کثرت ہی بڑی اہمیت کا باعث ہو لیکن اللہ کریم کے ہاں نیکی وار پاکیزگی کی عظمت ہے اسی لیے اسلام میں طریقہ انتخاب بھی یہ ہے کہ نیک اور پسندیدہ نیز معاملہ فہم لوگ جس ہستی پر متفق ہوجائیں عوام کو چاہئے کہ اس کی بیعت اختیار کریں نہ یہ کہ ہر کس و ناکس کی رائے برابر اہمیت رکھتی ہو یہ خوبصورت حماقت مغرب کی ایجاد ہے سو اللہ سے ڈرو۔ اور اللہ کا پسندیدہ راستہ اختیار کرو ، کہ دانشمندانہ بات یہی ہے اور اسی طریقے سے تمہیں دو عالم میں کامیابی نصیب ہوسکتی ہے۔
Top