بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
قسم ہے ان ہواؤں کی جو غبار کو اڑاتی ہیں
آیات 1 تا 23۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو گرداڑاتی ہیں اور ان بادلوں کو جو پانی کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں اور ان سواریوں کی جو سبک رفتار ہیں اور ان فرشتوں کی جو اللہ کے حکم سے ہر شے تقسیم کرتے ہیں قسم سے مراد گواہی اور شہادت ہے کہ یہ نظام اور اس کا صد فیصد درست ہونا اور ہمیشہ ہمیشہ بغیر کسی نقص وکوتاہی کے رواں دواں رہنا جیسے خشک ہوائیں جو گرداڑاتی پھرتی ہیں مگر ساتھ پانی کو بخارات بنا کر بھی اڑادیتی ہیں وہ بخارات خوبصورت بادلوں میں ڈھل رہے ہیں اور پھر بارش برس کر انسانی رزق کا ذریعہ بن رہے ہیں اسی طرح زمین ہوا اور سطح آب پر سبک رفتار سواریاں جو لوگوں کے حصول مقصد کا بہت بڑا ذریعہ ہیں اگر ان سب میں چھینا جھپٹی سے کچھ ملتا تو کچھ لوگ لوٹ کر ڈھیر لگالیتے جبکہ دوسروں کو سررمق بھی ہاتھ نہ آتا مگر وہ فرشتے جو بارش کا ہر قطرہ رزق کا ہر دانہ عمرصحت عقل شعور شکل قد بیٹا بیٹی صحت وبیماری ہر ہرشے اللہ کے حکم سے جہاں اللہ پہنچانا چاہتا ہے پہنچا رہے ہیں اور ایک ایسانظام جس کی بنیاد ہی عدل و انصاف پر ہے اور ہر ایک کو جو کچھ مل رہا ہے عین انصاف ہے اور وہ اسی کا مستحق ہے۔ یہ اس بات پر گواہ ہے کہ جب غیر اختیاری امور میں اس قدر انصاف ہورہا ہے تو انسان کو جن امور پر اختیار دیا گیا ہے اس میں کسی کو ایمان نصیب ہوا اور کسی نے کفر اختیار کیا ایک نے اطاعت کی جبکہ دوسرے نے نافرمانی کی اور ظلم کیا تو اس میں انصاف نہ ہوگاضرور ہوگا اور یہ سب کچھ اور سارانظام اس کی گواہی دے رہا ہے کہ تم سے جو قیامت کا وعدہ ہے وہ سچا ہے اور روز جزا ضرسور برپا ہوگا قسم ہے اس آسمان کی جس میں فرشتوں کے چلنے کی راہیں ہیں یعنی ملائکہ کا آناجانا اور آسمان میں نامہ اعمال کا رکھنا کہ تم اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہو کچھ لوگوں کو ایمان نصیب ہوتا ہے جبکہ دوسرے اختلاف کرکے کفر میں مبتلا ہوتے ہیں اور کفر میں وہی لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن سے ان گناہوں کے سبب ایمان کی توفیق چھن جاتی ہے تباہی ہوا ایسے غلط اندازے لگانے والوں کی جو اللہ کی یاد سے غافل اور راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ انصاف کا دن ا اور قیامت کب ہوگی یہ اس روز ہوگی جب انہیں آگ میں جھونکا جائے گا اور کہاجائے گالواب اپنی شرارتوں کے انجام کا مزہ چکھو تمہیں جلدی تھی کہ قیامت کب ہو آج وہ واقع ہوگئی جبکہ یہی لمحہ کفار کے لیے باعث ذلت ورسوائی ہوگا اللہ کے نیک بندوں کے لیے راحت کی گھڑی ثابت ہوگا کہ باغات اور چشموں سے سجائی ہوئی جنت میں داخ (رح) ہوں گے اور جو نعمتیں اللہ نے وہاں ان ک لیے رکھی ہیں حاصل کریں گے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں خلوص دل سے اتباع شریعت کرنے والے تھے وہ راتوں کو خواب غفلت میں نہ گنواتے بلکہ اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور سحری کو استغفار کیا کرتے تھے یعنی رات کی عبادت پہ نازاں نہ ہوتے تھے بلکہ یہ احساس رکھتے تھے کہ ان کی عبات اس بارگاہ عالی کے لائق نہیں اور اپنی کمزوریوں پر بخشش اور عفودرگزر کے طالب ہوتے تھے اور ان کے مال میں سے ایسے غریب جو سوال کرتے یا وہ لوگ بھی جو محتاج تو تھے مگر سوال کرنے سے بچتے تھے اور یوں محروم رہتے ہیں ان سب کو ملتا تھا اور وہ اس انداز سے مال خرچ کرتے تھے کہ ان غرباء پر کوئی احسان نہ جتاتے بلکہ ان کا حق سمجھ کر انہیں پہنچاتے اور یوں سبکدوش ہوتے تھے یعنی مال وزر کی محبت کے اسیر نہ تھے بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور زمین میں اہل ایمان کے لیے بیشمار دلائل ہیں کہ جس قدر انسانی عقل کو تحقیقات پہ دسترس ہوتی ہے اللہ کی عظمت کا احساس اور بڑھ جاتا ہے۔ کہ کس طرح سے ہر آنے والے کا رزق اس میں محفوظ ہے اس کے موسم ماحول اور فضا ہر جگہ ہر مزاج کے مطابق ہیں یا کس طرح سے ذرات اور ایٹم اشیاء کا روپ دھارتے ہیں اور سبزہ درخت پھل پھول چشمے اور دریا وجود پاتے ہیں اسی طرح خود تمہارے وجود کے اندر اس کی عظمت کے نشان موجود ہیں ایک ایک انسانی وجود پورے نظام عالم کی مائیکرو ہے اور عالم اصغر کہا گیا ہے کہ کس طرح اس کے منتشر اجزاء خوراک بن کروجود کا حصہ بن رہے ہیں کس طرح لوگ اپنی باری پہ آتے اپنارزق لیتے اور چلے جاتے ہیں کس طرح ایک قطرہ انسانی قالب میں ڈھلتا ہے اور کس طرح مختلف شکلیں استعداد عمر وقوت اور صحت تقسیم ہو رہے ہیں یہ سارانظام اور اس کی باقاعدگی کیا یوم جزا اور انصاف کے دن کا تقاضا نہیں کرتی تمہیں ایسا نظر نہیں آتا یعنی یقینا کرتی ہے اور یہ بھی جان لو کہ یہ مال وزر اور رزق روزی بھی آسمانی فیصلوں کے مطابق ہی ہر ایک کو ملتی ہے انسان کے بس میں تو ایمان یعنی ماننا اور نہ ماننا ہے اور وہ ذریعہ جائز اپناتا ہے یا غلط اور بس ملتا وہ ہے جو اللہ کے حکم سے اس کو نصیب ہوتا ہے اور اعمال کی جزا کے فیصلے بھی اسی کے محفوظ کے تابع ہیں اور ارض وسماء کے نظام کو بنانے اور چلانے والے کی قدرت کاملہ اور عظمت اس بات کی گواہ ہے کہ سب کچھ واقع ہوگایہ ایک ایسی سچائی ہے جیسے تم خود بات کرت ہو تمہیں اپنے بات کرنے کا یقین ہوتا ہے ایسے ہی اس کا وقع یقینی ہے۔
Top