Asrar-ut-Tanzil - Adh-Dhaariyat : 31
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ
قَالَ : کہا فَمَا خَطْبُكُمْ : تو کیا قصہ ہے تمہارا اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ : اے فرشتو۔ بھیجے ہوؤں
فرمایا اے بھیجے جانے والو ! (فرشتو) پھر تمہاری مہم کیا ہے ؟
آیات 31 تا 44۔ اسرار ومعارف۔ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تمہارے آنے کا اہم مقصد کیا ہے کس بات کو یہاں ٹھہرے تو آگے کہاں اور کس کام سے جانا ہے تب انہوں نے ساری بات عرض کردی کہ ہم قوم لوط (علیہ السلام) پر عذاب واقع کرنے جا رہے ہیں جو گناہ گار اور مجرم ہیں یعنی جرم وگناہ ان کی سرشت میں داخل ہوچکا ہے ہمیں حکم ہوا ہے کہ ان پر مٹی سے بنے ہوئے کنکر پتھر برسائیں۔ جو ان حد سے گزرنے والوں کے لیے آپ کے پروردگار نے مقرر کر رکھے ہیں کہ ہر آدمی کے لیے اس کے نام کا پتھر گرتا ہے اور وہ جدھر جاتا ہے اس کے پیچھے جاتا اور جب لگتا تو چور چور کردیتا اس ہلاکت سے ہم نے مسلمانوں کو محفوظ رکھا جو بہت کم تھے کہ اس ایک گھر کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی اور گھر تو تھا ہی نہیں اور انہیں برباد کرکے آنے والی نسلوں کے لیے جو ان میں سے عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں عبرت کانشان بنادیا۔ ایسے ہی دلائل موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہیں جب انہیں فرعون کے پاس واضح دلائل اور معجزات عطا کرکے بھیجا گیا تو فرعون نے اپنی طاقت کے گھمنڈ پر روگردانی اختیار کی اور انہیں کبھی جادوگر کہا اور کبھی کہا کہ دیوانہ ہے پھر ہم نے اسے پکڑا اور ذلیل کرکے غرق کردیا یا غرق ہو کر رسوا ہو ایسے ہی قوم عاد کا حال ہے کہ نافرمانی کی تو اللہ نے بلاخیز طوفان بھیج دیا جس نے کچھ باقی چھوڑا اور ہر شے تباہ وبرباد کردی یہی حال قوم ثمود کا ہوا جنہیں ایک وقت تک مہلت دی گئی کہ اللہ کے جہاں کو برت لو مگر انہوں نے اپنے پالنے والے کی اطاعت نہ کی تو ان پر دیکھتی آنکھوں بجلی کی کڑک پڑی اور تباہ ہوگئے اور نہ مقابلہ کی جرات ہوسکی ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم کا یہی حشر ہوا وہ بھی بہت نافرمان لوگ تھے۔
Top