Asrar-ut-Tanzil - Al-Hadid : 11
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌۚ
مَنْ ذَا الَّذِيْ : کون ہے جو يُقْرِضُ اللّٰهَ : قرض دے گا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ فَيُضٰعِفَهٗ : پھر وہ دوگنا کرے گا اس کو لَهٗ : اس کے لیے وَلَهٗٓ اَجْرٌ : اور اس کے لیے اجر ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
کون ہے جو اللہ کو خالص نیت سے قرض کے طور پر دے پھر وہ اس کو اس شخص کے لئے بڑھاتے چلے جائیں اور اس کے لئے عزت کا صلہ (جنت) ہے
آیات 11 تا 19 اسرار ومعارف۔ نیزا للہ کی راہ میں جان مال یا کوشش و محنت جو بھی خرچ کیا جاتا ہے وہ ضائع نہیں ہوتا بلکہ ایک قرض ہے یعنی ایسی دولت جس کی واپسی یقینی ہے اور وہ بھی اللہ کریم کے پاس توکیاہی خوب قرض ہے کہ اللہ کریم اسے کئی گنا بڑھادیتے ہیں اور زیادہ کرکے لوٹاتے ہیں نیز عنداللہ اس کی عزت و عظمت یہ الگ انعام ہے اور یہی مجاہدہ ایک دن مومن مردوں اور خواتین کے آگے اور دائیں بائیں نور کی صورت چلے گا کہ حساب کتاب کے بعد سخت اندھیرا چھاجائے گا اور کفار کو جہنم میں دھکیل دیاجائے گا جبکہ مومنین میں نورتقسیم ہوگا اور ہر ایک مرد وزن کو بقدر اس کے اعمال اور خلوص ملے گا جس کی روشنی میں وہ جہنم پر سے پل صراط کے راستے گزر جائیں گے اور جنت کی نعمتوں میں پہنچیں گے جہاں انہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا نصیب ہوگاجوسدا آباد اور سدابہار ہے اور اس میں نہریں جاری ہیں یہ مقام و مرتبہ پالینا ہی بہت بڑی کامیابی ہے مگر منافقین ایسے لوگ جو بظاہر تو مسلمان کہلاتے رہے مگر دل میں نور ایمان نہ رکھتے تھے وہ مرد خواتین مومنین کو پکاریں گے کہ ذرارک جاؤ ہمارا انتظار کرلو کہ تمہاری روشنی سے ہم بھی استفادہ کریں یا تمہارے نور سے کچھ روشنی لے لیں۔ منافقین کا حال۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ہر عمل سے نور پیدا ہوتا ہے اگر وہ اتباع رسالت میں ہو اور ہر کافرانہ عمل سے بھی اور کفر سے بھی ظلمت پیدا ہوتی ہے جو اخرت کو ظاہر ہوجائے گی یہاں کفار کا تذکرہ نہیں کہ وہاں تو نور ہوگا ہی نہیں مگر منافقن جو عمل تو مسلمان کا سا کرتا ہے اس پر نور مرتب ہوگامگر دل میں خلوص نیت نہیں تو اس نور کی کوئی بنیاد نہ ہوگی وہ بجھ جائے گا جس طرح دنیا میں دھوکا کرتے تھے وہ آخرت میں پیش آجائے گا تب چلائیں گے کہ ذرا رک جاؤ ہم بھی تم سے کچھ نور حاصل کریں تو جواب دیاجائے گا کہ انہیں مت پکارو پیچھے جاؤ جہاں نورت بٹ رہا ہے وہاں سے لے کر آؤ وہاں جائیں گے تو ملے گا نہیں کہ تم لے چکے۔ تب منافقین اور مومنین کے درمیان دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں دروازہ ہوگاجس کے اندر تو اللہ کی رحمتیں ہوں گی اور باہر رہ جانے والے منافقین کے لیے عذاب ہوگاتب وہ پکار کر کہیں گے ہم بھی تو تمہارے ساتھ نماز روزہ کرتے تھے پھر ہمیں اس طرح عذاب میں کیوں ڈالا گیا جبکہ تم لوگ راحت میں پہنچ گئے تو جواب ملے گا ہاں بظاہر مگر اندر ہی اندر تم میں ایمان نہ تھا بلکہ مسلمانوں کی تباہی کے خواب دیکھا کرتے تھے اور تم دھوکے میں پڑے تھے تمہیں تمہارے نفس کی خواہشات نے بہکا دیا تھا تاآنکہ تمہیں موت نے آلیا اور تمہیں شیطان نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا اب آج کے روز اس کا کوئی مداوا نہیں ہوسکتا نہ تم سے اور نہ کفار سے کہ کوئی بھی معاوضۃ دے کرچھوٹ سکو یا کوئی عذر چل جائے بلکہ تمہاری منزل تو دوزخ ہے جو بہت ہی بری اور تکلیف دہ جگہ ہے ان منافقین میں وہ لوگ بھی شامل سمجھے گئے ہیں جو مطلب برآری کے لیے قرآن کے معانی اور دینی مسائل میں تبدیلی کرتے ہیں ۔ ذکرقلبی اور اس کے نتائج۔ یہ سب حقائق کتاب اللہ اور رسول خدا سے سن لینے کے بعد بھی بھلا مسلمانوں میں سستی کیوں آئے ابھی ان کے لیے یہ صورت پیدا نہیں ہوئی کہ ان کے دلوں میں خشوع اور عجز پیدا ہو اور وہ اللہ کا ذکر کرنے لگیں ان میں اللہ کی یاد بس جائے اور ذکر قلبی کے نتیجے میں احکام الٰہی جو نازل ہوئے ہیں ان پر عمل کرنے کی خلوص کی توفیق نصیب ہو اور اس بارہ میں سستی ہرگز نہ کرو اور یہود نصاری کی طرح عمل ہرگز نہ کرو کہ انہوں نے دین کو ثانوی حیثیت دی۔ اور اپنی دنیاداری کو ال درجہ میں ضروری سمجھا تو وقت گزرنے کے ساتھ ان کے دلوں پر قساوت اور سختی آگئی کہ قلوب مردہ ہوگئے اور قبول حق کو توفیق سلب ہوگئی ، لہذا ان کی اکثریت نافرمان ہوگئی کہ اب انہیں ایمان قبول کرنے کی توفیق بھی نہیں ہورہی یاد رکھو اللہ زمین کو اس کے مردہ ہوگئے اور قبول حق کی توفیق سلب ہوگئی یاد رکھو اللہ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ فرماتا ہے کہ ہر ذرے سے سبزہ پھوٹنے لگتا ہے اسی طرح تمہیں بھی مرکر زندہ ہونا ہے اور اس مضمون سے بیشمار دلائل بیان ہوئے ہیں کہ تم دانش سے کام لو اور عقل مندی کا ثبوت دو کہ عقل مندی صرف اطاعت اور اتباع میں ہے بیشک جن مردوں اور خواتین کی کوشش اور مال اللہ کی راہ میں خرچ ہوتا ہے ان کا اللہ کے ہاں ایسے جمع ہورہا ہے جیسے رب کریم قرض ہو اور اسے کئی گنا بڑھا کر انہیں لوٹائے گا۔ کہ یہی اس کی شان ہے لہذا ان کے لیے بہت زیادہ اجر بھی ہے اور عنداللہ ان کی عزت ومقام بھی ہے کہ جن لوگوں کو بھی اللہ اور رسول اللہ پر ایمان نصیب ہو ایسا کامل کہ اس میں سستی نہ پائی گئی ہو تو وہ سب اللہ کے نزدیک شہید اور صدیق ہیں۔ صدیق اور شہید۔ اس معاملے میں تفاسیر میں بہت تفصیل ہے کہ کیا سب مسلمان صدیق اور شہید ہیں تو نتیجہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ہر وہ مسلمان جو ایثار وعمل میں کوئی سستی قریب نہ آنے دے ایک درجے میں شہید بھی ہے اور صدیق بھی اور ہر ایک کا درجہ اپنے خلوص اور اللہ کی عطا سے الگ ہے سیدنا عمر فاروق ؓ سے کچھ لوگوں سے فرمایا تمہارے سامنے کوئی غلط کام کرے تو منع کیوں نہیں کرتے ۔ عرض کیا لوگوں کی ایذا سے بچنے کے لیے ۔ فرمایا پھر تم صدیق وشہید نہیں ہو۔ غرض مصلحت اندیش اس میں داخل نہ ہوں گے یہ آیت بھی عظمت صحابہ پر دال ہے کسی کو ایمان کے ساتھ ایک لمحہ زیارت کا نصیب ہوا توسرتاپا کمالات نبوی میں مستغرق ہوگیا سو ایسے لوگوں کے لیے اللہ کریم کے ہاں بہترین اجر ہے اور ان کے لیے نور ہے مگر کفار اور آیات الٰہی سے منکرین کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں انہیں رہنا ہوگا۔
Top