بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے
آیات 1 تا 10۔ اسرار ومعارف۔ زمینوں اور آسمانوں میں جو کچھ بھی ہے اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے زبان حال سے بھی اور ہر شے کی اپنی زبان سے جس سے وہ اپنے رب سے مخاطب ہوسکے لہذا اپنے انداز میں زبان قال سے بھی کہ یہی اس کے وجود کا سبب ہے جس شے سے بھی ذکر الٰہی چھوٹ جائے وہ باقی نہیں رہتی سوائے مکلف مخلوق کے کہ اسے اطاعت وعدم اطاعت میں ایک وقت تک کے لیے اختیار بخشا گیا ہے اور اللہ زبردست ہے ہر شے پہ ہر حال میں غالب ہے اور یہ اس کی حکمت بالغہ ہے کہ ہر ایک کو جداگانہ اوصاف عطا فرما کر کائنات کو بسانے کا سامان فرمایا ہے ارض وسماء میں اس کی ریاست و حکومت ہے وہی حیات بانٹنتا ہے اور وہی موت دیتا ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے وہی ایک ذات ہے جو سب سے اول ہے کہ اسی نے سب مخلوقات کو پیدا فرمای اور نہ اس کی ذات تھی اور کچھ نہ تھ اور سب مخلوق فنا کی زد میں ہے جیسے قیامت کو ہر شے فنا ہوگی یا اس کی فنا واقع نہ ہو جیسے جنت دوزخ کہ وہ اپنے باسیوں سمیت ہمیشہ رہیں گی مگر ان کے فنا کا امکان تو بہرحال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے باقی رکھنے سے رہیں گی ورنہ اپنی ذات میں تودائمی نہیں ہیں جبکہ ذات باری تعالیٰ اس سے بہت وراء ہے کہ اس پر کبھی عدم وفنا کا گمان بھی کیا جاسکے لہذا وہی سب سے آخر بھی اور اپنے ظہور میں بھی سب سے بڑھ کر ہے کہ اس کی حکمت وقدرت ہر ذرہ سے عیاں ہے اور اپنی ذات اور کنہ کے اعتبار سے باطن ہے کہ اس کی حقیقت تک کسی عقل و خیال کی رسائی ممکن نہیں مگر ہر شے اور ساری مخلوق کو ہر اعتبار سے خوب جانتا ہے اس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ۔ آیہ مبارکہ کی فضیلت۔ ان پانچ سورتوں کو جو مسبحات کہا گیا گیا ہے روایت ہے کہ نبی کریم سونے سے قبل پڑھا کرتے تھے وہ یہی سورة حدید ، حشر ، صف ، جمعہ اور تغابن اور فرمایا کہ ان میں میں یہ مذکورہ آیت سب پر بھاری ہیں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ وساوس شیطانی کا علاج ہے کہ یہ آیت آہستہ سے پڑھ لی جائے جن خوش نصیبوں کو اس کامراقبہ نصیب ہے ان پر اللہ کا بہت احسان ہے انہیں اس کے ذریعہ وساوس کا مقابلہ کرنا چاہیے یہ حفاظت الٰہی کا حصار ہے ۔ وہ ایسا قادر ہے کہ اپنی حکمت بالغہ سے اور قدرت کاملہ سے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدافرما کر ہر ہرشے ان میں درست فرمادی اور پھر عرش جو مانند تخت ہے اس شان سے جو اس کو سزاوار ہے جلوہ افروز ہوا ہراس شے کو جانتا ہے جو زمین کے اندر داخل ہوتی ہے قطرہ آب وبارش ہو یا کوئی بیج یا گرمی سردی کا اثر اور ہر اس شے سے واقف ہے جو زمین سے نکلتی ہے ہر ذرہ ہرایٹم اور اس سے بھی کمتر وجود اس کی نگاہ اور علم میں ہے جو کچھ آسمانوں سے نازل ہوتا ہے فرشے یا احکام سب کچھ جانتا ہے یا جو آسمانوں پر چڑھتا ہے جیسے بندوں کے اعمال وغیرہ اسے بھی جانتا ہے اور تمہارے تمام احوال سے واقف ہے غرض تم جہاں کہین اور جس حال میں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے معیت باری کی حقیقت کیا ہے یہ مخلوق کے احاطہ علم سے بالاتر ہے مگر اس کا وجود یقینی ہے لہذا تمہارے ہر عمل کو دیکھتا ہے آسمانوں اور زمینوں یعنی کائنات میں حکومت اور سلطنت حقیقتا اسی کی ہے اور تمام امور جو ہریہ اور عرضیہ سب اسی کی بارگاہ میں پیش ہوں گے وہ رات کو دن میں داخل فرمادیتا ہے اور کبھی دن کو رات میں یعنی یہ شب وروز کا بڑھنا گھٹنا موسموں کی تبدیلی اور اس کا جہاں کی آبادی کا باعث بننا سب اسی کی قدرت کے کرشمے ہیں اور وہ دل میں گزرنے والے خیالات تک کو جانتا ہے لوگو اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول برحق کی رسالت کا اقرار کہ ایمان لانے کے اسباب اور داعی تو موجود ہے نیز اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو کہ یہ مال کل تمہیں وراثت میں ملا تھا پھر تم نہ رہو گے تو اسی طرح دوسروں کے پاس چلاجائے گا پھر بھلامال کی محبت میں اللہ کی نافرمانی یاناجائز ذرائعے سے مال کا حصول یا مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ لہذا تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کرلیا اور اپنی محنت و کوشش نیز اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔ بھلاتم ایمان کیوں نہیں لاتے کہ دوہی تو سبب ہوسکتے ہیں اول تاریکی ہو کوئی راستہ بتانے والا نہ ہو اور ایسا نہیں کہ بلکہ اللہ کا رسول تمہیں اس بات کی طرف بلارہا ہے کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ اور رسول اللہ کی صداقت و دلائل انسانی نے اقرار عبدیت کیا اس کا اثر بھی فطرتا ہر انسان کے اندر موجود نیز اگر تمہارا دعوی ہے کہ تم خود ایماندار ہوتوہر پہلی کتاب میں بھی یہ وعدہ لیا گیا ہے کہ آپ کی بعثت پر آپ پر ایمان لاؤ گے تو تمہارے پاس ایمان نہ لانے کی کوئی بھی وجہ نہیں اللہ ہی وہ کریم ہے جو اپنے محبوب بندے اور رسول اللہ پر روشن اور واضح آیات نازل فرماتا ہے کہ وہ تمہیں ظلمت اور تاریکی سے روشنی میں لائے۔ منصب نبوت اور فیض وبرکات شیخ۔ قرآن حکیم کو سمجھانا اور اس سے ہدایت کا نصیب ہونا یہ منصب نبوت و رسالت ہے کہ محض لغت اور زبان دانی کا سہارا لے کر کوئی سمجھ نہیں سکتا نبی (علیہ السلام) کے سمجھانے سے بات بنتی ہے اور نبی پر ایمان کی برکت یہ ہیے کہ انسان کے عقیدہ وعمل کا سفر ظلمت سے نور کی طرف اور غلطی سے اصلاح کی طرف شروع ہوجاتا ہے یہی برکات نبوی شیخ کی وساطت سے نصیب ہوتی ہیں اور پیری مریدی کا حاصل یہی ہے کہ عملا گناہ کی زندگی سے واپسی نصیب ہوجائے۔ یہ سب اللہ کا کرم و احسان ہے اور اس کا عفو درگزر کہ گمراہوں کو ہادی عطا کردیا کہ وہ بہت رحم کرنے والا ہے اگر تم مال کی محبت میں دیوانے ہو اور جانتے ہو کہ ایمان لانے سے مال خرچ کرنا پڑے گایاسود وغیرہ ناجائز ذرائع سے جمع نہ کرسکیں گے تو بھلایہ مال تمہارے پاس بچے گا کب یہ تو تم سے چھن جائے گا تم مرجاؤ گے اور یہ اوروں کا ہوجائے گا اور درحقیقت تو اس ارض وسما میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا ہے کہ بالا آخر سب کو عارضی ملکیت بھی چھوڑ کر چلے جانا ہے ۔ عظمت صحابہ۔ اوریاد رکھو وقت طریق اور خلوص وجاں نثاری اعمال کے درجات میں فرق پیدا کردیتی ہے جیسے فتح مکہ سے پہلے جن کو آپ کی رفاقت نصیب ہوئی اور انہوں نے اپنے سارے وسائل اللہ کی راہ میں صرف کیے ان کا درجہ ان لوگوں سے بہت بلند ہے جنہوں نے فتح کے بعد یہ سعادت حاصل کی تھی کہ فتح مکہ سے قبل تو دعوی ایمان جان دینے کے برابر تھا اور بظاہر اسلام کی کامیابی کے اسباب نہ ہونے کے برابر تھے انسان مزاج ہے کہ وہ اسباب پر نظر رکھتا ہے اور اگر کسی تحریک کی کامیابی کے آثار نہ ہوں تو قریب نہیں جاتا مگر جو محض حق کا طالب ہو اور اسے حق نظر آئے تو وہ اسباب کی پرواہ نہیں کرتا یہ حال مکی عہد کا تھا اور فتح مکہ کے بعد تو اسلام کی ریاست وجود میں آگئی تب بھی جو لوگ آپ کی غلامی میں آگئے اور ان کے درجات بہت عالی وبلند ہیں مگر ان لوگوں کے مقامات ان سے بلند تر ہیں جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے مال خرچ کیے اور اپنی جانیں نذرانہ دیں اور جہاد کیے ہاں آپ پر ایمان لانے والے اور آپ کے لائے ہوئے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے والے تمام لوگوں سے اللہ کے کرم و احسان کا وعدہ ہے یعنی سب کے سب نجات یافتہ ہیں جس کے مثالی مسلمان صحابہ کرام ہیں اسی بنیاد پر اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ، الصحابہ کلھم عدول۔ کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں اور رضی اللہ عنھم ورضوعنہ ، اللہ کی رضامندی کا اعلان ہے کہ باقی سب کو میدان حشر میں پتہ چلے گا کہ جبکہ ان کے حق میں قرآن نے دنیا میں اعلان کردیالہذا اگر کسی سے بتقاضائے بشریت خطا ہوئی تو اسے توبہ نصیب ہوگئی ڈیڑھ لاکھ میں سے بمشکل چند مثالیں ملتی ہیں ان کی بھی توبہ مثالی ہے کہ کسی نے خود کو ستون سے باندھ لیا جب تک توبہ کی قبولیت کا بذریعہ وحی پتہ نہ چلا اور کسی نے خود کو سنگسار کرالیا یہ بھی تعلیم امت کا ایک انداز جہاں کہیں احادیث مبارکہ میں برزخ میں کسی کے ساتھ سختی یا عذاب کا ذکر ہے تو اگر کوئی کمی رہ گئی تو وہ اسے دور کرنے کی تدبیر ہے کہ انہیں اس طرح پاک کردیا گیا جو بہت ہی کم ہے ان کے آپس کے معاملات میں لب کشائی درست نہیں اور کسی کو الزام دیناجائز نہیں نیز ان کی عظمت کا معیار قرآن وحدیث ہے تاریخ سے حوالے سے لے کر صحابہ کرام پر اعتراض کرنے والوں کو ٹھوکر لگی کہ تاریخ کا مصدر تو لوگوں کی زبانیں ہوتی ہیں جس کے باعث اس میں رب ویابس جمع ہوسکتا ہے جبکہ ان کی عظمت کا بیان اللہ کا کلام اور نبی (علیہ السلام) کی حدیث میں ہے جو سب وحی ہے اور یاد رکھو اللہ تمہارے تمام اعمال کو ملاحظہ فرمارہا ہے۔
Top