Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 31
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا١ۙ وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ
قَدْ : تحقیق خَسِرَ : گھاٹے میں پڑے الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا : وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا بِلِقَآءِ : ملنا اللّٰهِ : اللہ حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَتْهُمُ : آپ پہنچی ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک قَالُوْا : وہ کہنے لگے يٰحَسْرَتَنَا : ہائے ہم پر افسوس عَلٰي : پر مَا فَرَّطْنَا : جو ہم نے کو تا ہی کی فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ يَحْمِلُوْنَ : اٹھائے ہوں گے اَوْزَارَهُمْ : اپنے بوجھ عَلٰي : پر ظُهُوْرِهِمْ : اپنی پیٹھ (جمع) اَلَا : آگاہ رہو سَآءَ : برا مَا يَزِرُوْنَ : جو وہ اٹھائیں گے
یقینا وہ لوگ خسارے میں رہے جنہوں نے اللہ سے ملنے کو جھوٹا کہا یہاں تک کہ جب ان پر اچانک قیامت آجائے گی تو کہیں گے اے افسوس ! ہماری اس کوتاہی پر جو ہم نے اس بارے میں کی اور وہ اپنے (اعمال کا) بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوں گے جان لو بہت برا (بوجھ) ہے جو انہوں نے اٹھا رکھا ہے
رکوع نمبر 4 ۔ آیات نمبر 31 تا 41 ۔ اسرار و معارف : اور یہی سب سے بڑا نقصان تھا جو ہر اس آدمی کو برداشت کرنا پڑا جس نے اللہ کی بارگاہ کی حاضری سے انکار کیا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کے منوانے کے لیے اللہ کریم نے مسلسل انبیاء و رسل بھیجے کتابیں نازل فرمائیں۔ اور دلائل عقلی و نقلی کے انبار لگا دئیے انسان کو سمجھانے کے مختلف انداز اپنائے تاریخ انسانی میں اگر بلحاظ عظمت و شرافت دیانت و امانت اور سچائی و راست بازی کے کبھی چناؤ ہو تو سب سے اوپر صرف انبیاء رہ جائیں گے جو سب کے سب اس بات کو ثابت کرنے کے دلائل لائے معجزات لائے اور انسانوں کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی اس کے باوجود بھی اگر کسی کو یقین نہیں آیا تو اس کے نہ ماننے سے حقیقت تو بدلنے سے رہی یہ تو واقع ہو کر رہے گی ہاں ماننے والے اس کا انتظار کریں گے زندگی کے ہر عمل میں یوم حساب کو سامنے رکھیں گے جبکہ نہ ماننے والوں پہ اچانک قیامت ٹوٹ پڑے گی کہ ان کا خیال تو یہ تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ تب انہیں احساس ہوگا کہ یہ تو بہت عظیم امر تھا جس میں ہم سے بہت زیادہ کوتاہی ہوئی اور ہم نے اپنا ہی بڑا نقصان کرلیا بلکہ بحالت کفر تو نیکی ہو نہیں سکتی اور میدان حشر میں ہر عمل بھی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کریگا جیسے آجکل کے سائنسی دور میں تو ہر آواز کی بھی شکل ہے جو ایک فیتے میں مرتسم ہوجاتی ہے پھر اسے وی۔ سی ۔ آر مشین میں چلائیں تو دوبارہ صورت اور حرکات کے ساتھ آواز بھی صاف سنائی دینے لگتی ہے یہی حال اس سے بہت اعلی صورت میں وہاں ہوگا اور ہر گناہ کسی نہ کسی ڈراؤنی شکل میں متشکل ہو کر موجود ہوگا جنہیں اٹھا کر انہیں حساب کے لیے جانا ہوگا جبکہ نیک اعمال حسین صورتوں میں اور خوبصورت سواریوں کی شکل میں حاضر ہوں گے اور عمل کرنے والے کو سوار کرا کے لے جائیں گے تب انہیں احساس ہوگا کہ انہوں نے اپنے اوپر بوجھ لاد کر کس قدر غلطی کی۔ اور واقعی بہت بڑا بوجھ ہے جو انہیں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دنیا : دنیا کی زندگی سوائے کھیل اور وقت لذات کے کچھ بھی تو نہیں ہاں جو لوگ اللہ کریم سے تعلق استوار کرلیتے ہیں اور اس کی اطاعت کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے اخروی زندگی ہی بہترین زندگی ہے جسے نافرمانوں نے وقتی لذات پہ قربان کردیا۔ یہاں دنیا کی زندگی سے زندگی کا وہ اسلوب یا وطیرہ مراد ہے جو اللہ سے غافل کردے ورنہ آخرت کی اعلی اور بہترین زندگی حاصل کرنے کا موقع بھی تو دنیا میں ہی ہے کہ نہ دنیا سے پہلے عالم امر میں کچھ کرسکتا ہے نہ دنیا سے جانے کے بعد یہی زندگی اگر یاد الہی سے روشن ہوجائے اور اسے بسر کرنے کے لیے وہ انداز اختیار کیا جائے جو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے تو یہ ذکر الہی شمار ہوتی ہے اور جب انسان دنیا میں رہ کر اور آخرت کو سامنے رکھ کر عمل کرتا ہے تو اس کی زندگی لہو لعب نہیں رہتی بلکہ دنیا میں بسنے کے باوجود وہ آخرت کے لیے جی رہا ہوتا ہے اور یہ عمل آسان نہیں ہے جب تک دل اس کو قبول نہ کرے محض باتوں سے کچھ نہیں بنتا اسی لیے انبیاء جہاں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں وہاں دعوت سے آغاز فرماتے ہیں اور جو قبول کرے اسکا تزکیہ کرتے ہیں یعنی دل میں ایسی کیفیات سمو دیتے ہیں کہ دنیا کی لذت پر آخرت کی محبت یا دنیا کی لذت پر اللہ کی محبت غالب آجاتی ہے اور پھر اسے اللہ کی کتاب اور اس کے معانی یعنی حکمت سکھاتے ہیں جو دنیا میں زندگی گذارنے کا ایک لائحہ عمل ہوتا ہے اور جس کی تلاش اس کے دل میں پیدا ہوچکی ہے یہ زندگی تو ایسی ہے کہ اگر نصیب ہو تو اس کے دراز تر ہونے کی دعا کی جائے اور اگر اس سے محروم ہے تو بہت بڑی نعمت کھو دی جس کا کوئی بدل نہیں اتنی سی بات تو معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ عارضی اور ناپائیدار لذت پر دائمی اور ابدی راحتوں کو قربان کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ آیات مذکورہ میں نبی رحمت ﷺ کی عظمت شان ایک خاص انداز میں بیان فرمائی گئی ہے یوں تو اللہ کریم ہر بات سے ہر آن آگاہ ہیں مگر کسی بھی بات کا تذکرہ اس انداز میں فرمانا کہ ہمیں اس کی خبر ہے یا ہم اس سے آگاہ ہیں واقعہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے کہ اے میرے حبیب ﷺ ان کی یادہ گوئی سے جو آپ کے دل پر گزرتی ہے وہ ہم خوب جانتے ہیں مگر آپ یہ بھی دیکھ لیجیے کہ یہ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ یہ ظالم تو میری باتوں کو جھٹلاتے ہیں اور محض ضد میں آ کر ایسا کرتے ہیں ورنہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ حق یہی ہے محض دنیا کے فائدے کے لیے یا انا کی تسکین کے لیے ایسا کرتے ہیں جحود کا معنی ہی ایسا انکار ہے جس کو دل تو درست جانتا ہو مگر بظاہر اسے قبول نہ کیا جائے۔ اس پر مفسرین نے اخنس بن شریف اور ابوجہل کا واقعہ لکھا ہے کہ اس نے تنہائی میں پوچھا کہ اب کوئی تیسرا ہماری بات نہیں سن رہا کیا تم مجھے وہ بات بتاؤ گے جو محمد ﷺ کے بارے تمہارے دل میں ہے آیا سچے ہیں یا جھوٹے تو اس نے قسم کھا کر کہا کہ بلاشبہ سچے ہیں تم نہیں دیکھتے کہ جس نے عمر بھر کبھی کسی انسان پر جھوٹ نہیں بولا وہ اللہ پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہے مگر بات یہ ہے کہ مان لینے سے بنو قصی کے پاس ہی سب کچھ چلا جائے گا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ بات کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے تو آپ کی تکذیب بھی اللہ کی تکذیب ہوگی اور یہ پہلی بار نہیں ہورہا بلکہ آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ یہ سلوک ہوتا رہا ہے جس پر سوائے صبر کے چارہ نہیں جو انہوں نے بھی کیا آپ بھی ان کی ہر طرح کی ایذا پر صبر کریں پھر ان انبیاء کو اللہ کریم کی طرف سے مدد پہنچی جو یقیناً آپ کو بھی پہنچے گی کہ اللہ کے فیصلوں کو کوئی بدل نہیں سکتا اور نہ نافذ ہونے سے کوئی روک سکتا ہے آپ کو پہلے گزرنے والے انبیاء میں سے بعض کے حالات بتائے بھی گئے ہیں اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ ہر انسان کو اپنے لیے انجام منتخب کرنے کا موقع بخشا ہے جو انکار کرنے والوں کے پاس بھی ہے اور ہر آدمی امتحان سے گزرتا ہے جس طرح آپ کے متبعین گزر رہے ہیں مگر انجام کار منکرین کے حصے میں تباہی اور مومنین کے حصے میں کامیابی یقینی ہے۔ نبی رحمت ﷺ کو کفار کے انجام پر بھی دکھ ہوتا تھا اور آپ کا جی چاہتا تھا کہ کاش یہ اس تباہی سے بچ جائیں کمال شفقت دیکھئے وہ ایذا دیتے تھے اور آپ ان کے لیے متفکر ہوتے تھے۔ ارشاد ہوا انسان خود مکلف ہے اللہ کریم نے شور سے نوازا ہے آپ جیسی عظیم و شفیق ہستی کو مبعوث فرمایا اپنا ذاتی کلام نازل فرمایا اب بھی اگر کوئی بربادی کی راہ اپناتا ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے آپ اس کے لیے متفکر نہ ہوا کریں ہاں اگر آپ کرسکتے ہیں یعنی اگر اللہ کی تائید کے بغیر کچھ ممکن ہے تو پھر آپ زمین میں سرنگ لگا کر یا آسمان پہ سیڑھی لگا کر ان کے مطالبات کو پورا کرنے کا اہتمام کیجیے کہ مشرکین کہتے تھے اگر یہ سچے رسول ہیں تو مکہ میں نہر لے آئیں یا آسمان پہ سیڑھی بن جائے ہم فرشتوں کو اترتا ہوا دیکھیں وغیرہ ذالک آپ ﷺ کے دل میں آتی کہ اگر ایسا ہونے پر یہ دوزخ سے بچ سکتے تھے تو کاش اللہ کریم ایسا ہی کردیتے جواباً ارشاد ہے کہ آپ اسے اپنے دل کا روگ نہ بنائیں کہ معجزات رسول در اصل واللہ کا کام ہے جو نبی کے ہاتھ پہ ظاہر ہوتا ہے اور معجزہ بھی اسی لیے کہلاتا ہے کہ وہ کام عقلاً محال ہوتا ہے پھر اس کا اظہار بھی اثبات نبوت ہی کے لیے ہوتا ہے یہی حال کرامت کا ہے کہ صادر ولی کے ہاتھ پر ہوتی ہے مگر نبی کے کامل اتباع کی وجہ سے اسی لیے نبی کا معجزہ ہی شمار ہوگی نیز فعل یہ بھی ذات باری کا ہے اور اس کا اظہار بھی حق کو ثابت کرنے کے لیے ہوتا ہے مگر یہ بات بھی اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کن لوگوں کے لیے اس کے اظہار کی ضرورت ہے نتائج تو ہمیشہ اس فیصلے پہ مرتب ہوتے ہیں جو ہر انسان شعوری طور پر کرتا ہے اگر اس کا فیصلہ منفی ہے تو وہ معجزے کا بھی انکار کردے گا اور یہ قانون ہے کہ جو قوم معجزہ طلب کرتی ہے اس پر وہی معجزہ ظاہر کردیا جائے تو نہ ماننے پہ فوراً تباہ کردی جاتی ہے اس لیے یہاں معجزہ ظاہر نہ کرنا بھی آپ کے طفیل ان پر ایک طرح کی رحمت ہے کہ انہیں مزید مہلت دی جا رہی ہے لہذا آپ نادانوں جیسی بات کو سوچیں بھی نہیں لفظ جہالت اردو میں تو کبھی اچھے معنوں میں نہیں آتا مگر عربی میں نادانی کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ اور یہاں آپ ﷺ کی قلبی فکر پہ ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے اس کے لیے کچھ نہیں کیا تھا دعا تک نہیں فرمائی ہاں جی چاہتا تھا کہ یہ بچ سکیں تو کیا ہی اچھا ہو تو ارشاد ہوا کہ اگر اللہ نے تکوینی طور پر یا اپنے حکم سے سب کو راہ راست پہ لانا ہوتا تو کچھ مشکل نہ تھا مگر ایسی بات نہیں ہے یہ فیصلہ ہر انسان اپنے لیے خود کرتا ہے اور حق بات قبول کرنے کے لیے پہلے تو سننا ضروری ہے مگر دل کی سیاہی سننے تک سے محروم کردیتی ہے انسان جسم کے ساتھ زندہ رہتا ہے مگر روحانی طور پر یا قلبی طور پر مر چکا ہوتا ہے اور مردے تو اللہ کریم ہی ایک خاص وقت تک پہ دوبارہ اٹھائیں گے اور پھر سب کو اسی کی بارگاہ میں تو جانا ہے۔ آج تو یہ کہتے ہیں کہ جو معجزات ہم نے طلب کیے وہ ان پر کیوں نازل نہیں ہوتے یا ان کا اظہار کیوں نہیں ہوا فرما دیجیے اللہ تو قادر ہے جو چاہے اور جب چاہے کرسکتا ہے تمہارے منہ مانگے معجزات ظاہر نہ کرکے بھی تم پہ مہربانی فرما رہا ہے تم ہی ان باتوں کو نہیں جانتے۔ کیا یہ سب اس کی قدرت کے مظاہر نہیں ہیں کہ بیشمار زمینی مخلوق یا ہوا میں اڑنے والے پرندے کیا کسی طرح تم سے کم ہیں کیا ان سب کی قسمیں اور جنسیں نہیں ہیں کھانا پینا بچے نسل گھر سب کچھ ہی تو ہے اور جان لو کہ تمہیں بےحساب نظر آتے ہیں مگر ایک متنفس کا ذرہ ذرہ حساب اللہ کی کتاب تک میں لکھا ہوا ہے اگرچہ اس کا علم ذاتی اس سے بھی وسیع تر ہے اگر تم ان کو دیکھ کر اس کی عظمت وکبریائی سے آگاہ نہیں ہوسکتے تو پھر تم کیسے انسان ہو۔ حقوق کی اہمیت : یاد رکھو ان سب کو بھی یوم حشر اللہ کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ حیوان مکلف نہیں ہیں حلال حرام وغیرہ نہ پوچھا جائے گا مگر کسی جانور نے بھی دوسرے جانور کو مارا ہوگا تو اسے سزا دی جائے گی بدلہ دلوا کر سب کو فنا کردیا جائے گا تو اندازہ فرمائیے کہ انسانوں کے حقوق کیسے ضائع ہوسکتے ہیں جو لوگ ظلماً دوسروں کا مال کھاتے ہیں ، رشوت لیتے ہیں عزت لوٹتے ہیں یا وہ ملازم جو تنخواہ لیتے ہیں کام پورا نہیں کرتے کس طرح بچ سکیں گے جبکہ انسان ان سب چیزوں کے لیے مکلف بھی ہے۔ اللہ کی عظمت کیوں نظر نہیں آتی : جو لوگ اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے ہیں در اصل یہ بہرے اور گونگے ہوچکے ہیں کہ یہ اندھیروں کے باسی ہیں ظاہر کے کان یا زبان تو جانور کے پاس بھی ہیں انسان کے سینے میں بہت قیمتی دل ہے جو روشن ہو تو سنتا ہے بات کرتا ہے نور سے محروم ہوجائے تاریکی میں ڈوب جائے تو یہ سب قوتیں کھو بیٹھتا ہے اور جب دل کا یہ حال ہو تو اللہ کی طرف سے ہدایت نصیب نہیں ہوتی ہاں اگر اللہ چاہیں تو سیدھے راستے پہ چلانے کی قدرت بھی انہیں کے پاس ہے جبکہ دوسری جگہ ارشاد فرما دیا کہ اللہ کریم انہی لوگوں کے لیے ہدایت کا سامان بہم پہنچاتے جو ہدایت طلب کرتے ہیں زبردستی نہیں کی جاتی آپ انہیں سے فرمائیے کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا تمہیں قیامت آ لے تو کیا اللہ کے سوا کسی کو پکاروگے۔ اور یہ تو انسانی زندگی کا ترجبہ ہے کہ جب کوئی بھی انسان سخت مایوسی کے عالم میں گھر جائے تو صرف اللہ کو پکارتا ہے ایسے ہی عربوں کا تجربہ بھی تھا فرمایا آئندہ بھی اگر تم سچے ہوتے تو ایسے اوقات میں بھی ان کو پکارتے جن کی عبادت اللہ کے سوا کرتے ہو مگر تم ایسا کرتے نہیں ہو بلکہ انہیں یکسر بھول جاتے ہو حالانکہ تم نے انہیں اللہ کے برابر درجہ دے رکھا ہوتا ہے مگر ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اس لیے کہ اللہ ہی مصیبت اور پریشانی دور کرتا ہے کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ ہر انسان کے دل کی گہرائی میں پیوست ہوتی ہے اور اگر کوئی ناگہانی مصیبت آئے تو مشرک بھی اپنے فرض کردہ معبودوں کو فراموش کردیتا ہے اور بےاختیار اللہ کریم ہی کو پکارتا ہے۔
Top