Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 61
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : پر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيُرْسِلُ : اور بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر حَفَظَةً : نگہبان حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَ : آپ پہنچے اَحَدَكُمُ : تم میں سے ایک۔ کسی الْمَوْتُ : موت تَوَفَّتْهُ : قبضہ میں لیتے ہیں اس کو رُسُلُنَا وَهُمْ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور وہ لَا يُفَرِّطُوْنَ : نہیں کرتے کوتاہی
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے
رکوع نمبر 8 ۔ آیات 61 تا 70 ۔ اسرار و معارف : نگراں فرشتے : اسے اپنے بندوں پہ پورا اختیار اور غلبہ حاصل ہے بلکہ بندہ تو ہر حال میں کمزور اور محتاج ہے اللہ نے اس پر نگران فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو اس کی ہر طرح سے حفاظت کرتے ہیں بیماریوں سے بھی اور حادثات سے بھی نیز ایسے فرشتے بھی مقرر ہیں جو اس کے ہر عمل کو محفوظ کرتے رہتے ہیں اور اس طرح حفاظت الہیہ میں انسان اپنی عمر بسر کرتا ہے جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ محافظ بھی موت کے فرشتوں سے تعاون کرتے ہیں اور یوں کبھی کوتاہی نہیں کرتے مگر انسان کا معاملہ موت پہ بس نہیں ہوجاتا موت در اصل مالک حقیقی کی بارگاہ کی طرف واپسی کا عمل ہے جو قدم قدم پر انسان کی مدد اور ہر لمحہ اس پر مہربانی فرماتا رہا اب یہاں آ کر سب واضح ہوجائے گا کہ حکم دینے کا حق یعنی فیصلہ کرنا یہ اسی کا کام ہے اور کوئی اس کی بارگاہ میں دم نہیں مار سکتا۔ یہ بھی یاد رکھو کہ اسے حساب لینے میں کوئی دیر نہیں لگے گی ، کوئی دشواری پیش نہیں آئے بلکہ ساری مخلوق کا حساب جب چاہیں گے تو بڑے کم وقت میں نمٹا لیں گے۔ ان سے کہئے تم ہی کہو جب تم مصائب میں گھر جاتے ہو بعض اوقات سمندروں کی پھری موجوں پہ یا صحراؤں کی وسعتوں میں کھوجاتے ہو تو کون تمہیں اس مصیبت سے نجات بخشتا ہے کیا تم گڑگڑا گڑگڑا کر اور چپکے چپکے اللہ ہی کو نہیں پکارتے نہ صرف پکارتے ہو کہہ دیتے ہو کہ ہمیں اس مصیبت سے بچا لے ہم ساری زندگی تیری اطاعت میں بسر کردیں گے تیرے شکر گذار بندے بن جائیں گے۔ اللہ کا تصور : مشرکین عرب میں یہ بات عام تھی کہ سمندری طوفان میں گھر جاتے یا کسی ویرانے میں پھنس جاتے تو اللہ کو پکارا کرتے تھے اور اس لمحے بتوں وگیرہ سے بھروسہ اٹھ جاتا تھا کہہ دیتے کہ بتوں کی پوجا کسی کام نہ آئی اب اگر اللہ نے بچا لیا تو کبھی دوبارہ ایسا نہ کریں گے دوسری بات اور غالباً اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تصور ایک ایسی غیبی طاقت کا تصور جو انسان کے ہر حال سے ہر وقت واقف ہو اور ہر جگہ اس کی مدد کرسکتی ہو یہ انسانی مزاج کا حصہ ہے اگر کسی کا مزاج بالکل مسخ نہ ہوچکا ہو تو وہ ویسے نہ سہی مگر جب کبھی مصیبت آ لے ضرور اور بےساختہ اسے پکار اٹھتا ہے اور وہ طاقت اللہ ہی تو ہے لہذا یہ بھی خوب جانتا ہے کہ جب اس سے مدد چاہتا ہوں تو مجھے اس کی اطاعت کرنا ہوگی بھلا نافرمانی کرکے مدد مانگنا کب زیب دیتا ہے اور اطاعت کرنا ہی بہترین شکر گذاری ہے یہ سب سمجھتے ہوئے آدمی بےساختہ کہہ اٹھتا ہے اللہ میری مدد فرما میں تیرا شکر گذار بندہ بن کر رہوں گا۔ امراض کا علاج : یہ ہمارے عہد کی مصیبت ہے کہ لوگ اپنے دعوی اسلام کے باوجود اللہ کریم کو مصیبت میں پکارنا بھی بھول چکے ہیں اور زمانہ حال ایجادات کی چکاچوند نے انسانوں کو پاگل کردیا ہے ذرا سی تکلیف ہو تو ان کا ملجا و ماوی ڈاکٹر یا سیاستدان اور بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی سائنسدان یا صاحب اقتدار سے آگے انہیں کچھ نظر نہیں آتا حالانکہ ہر بیماری بھی تب اثر کرتی ہے جب محافظ فرشتے اسکے لیے راستہ چھورتے ہیں ورنہ کوئی حادثہ یا بیماری انسان کے قریب نہیں آسکتی اب اس کی دوا کرنے کے دو پہلو ہیں اول توبہ اور رجوع الی اللہ سب سے پہلے اللہ کو پکارے گناہ اور کوتاہیوں کی معافی طلب کرے آئندہ کے لیے نیکی کی توفیق طلب کرے تاکہ محافظوں کو پھر سے چوکس رہنے کا حکم ہو اور بیماری کو بھگا دیں دوسرے اسباب ظاہری اختیار کرے دو لے علاج کرے اچھے طبیب بہتر ڈاکٹر کو دکھائے مگر اللہ کا حکم جان کر اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ شفا دینا اس کا کام ہے ورنہ داؤں کی تاچیر الٹ جاتی ہے مگر ہماری حالت قابل رحم حد تک بگڑ چکی ہے کہ جس چیز کو اولیت دینی چاہئے تھی ہم فراموش کرچکے ہیں اور جو دوسرے درجے میں تھی صرف وہ ہمارا مقصد بن چکی ہے حالانکہ ہر دکھ ہر بیماری اول تو کسی نہ کسی گناہ کا اثر ہوتا ہے اور بہت کم لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے گناہ سرزد نہیں ہوتا محض درجات بلند کرنے کے لیے کوئی مصیبت بھیج دی جاتی ہے لہذا سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اللہ کریم کی بارگاہ میں عاجزی کی جائے ورنہ یہ بات تو سامنے ہے جب یہ مادی ترقی نہ تھی یہ اسباب نہ تھے یہ مشینیں نہ تھیں تو لوگ نسبتاً زیادہ صحت مند تھے اور آج سے پچاس برس پہلے کے لوگ آج کے انسان سے طاقت صحت عمر ہر لحاظ میں بہتر تھے جیسے جیسے جدید ٹیکنالوجی آ رہی ہے امراض بھی ایسے پیچیدہ تر پیش آ رہے ہیں کہ جن سے گلو خلاصی کی کوئی تدبیر انسان کو میسر نہیں آ رہی جہاں جسمانی امراض بڑھیں وہاں اخلاقیات میں بھی تباہی آئی اور ہر قسم کی برائی روز افزوں ترقی پر ہے ایمان تباہ ہوگئے یہ سب اللہ کریم سے بیگانگی اور اس کی یاد کو پس پشت ڈالنے کا وہ معمولی نتیجہ اور اثر ہے جو اس مادی دنیا میں محسوس ہورہا ہے ابدی اور دائمی زندگی میں کیا ہوگا اس اللہ ہی کی پناہ مانگنا چاہئے لہذا انہیں بتائیے کہ مصائب سے نکلنے کا راستہ اللہ کی اطاعت ہے اور وہی ایک ذات ہے جو تمہیں ہر بیماری سے صحت اور سختی سے پناہ دیتا ہے مگر انسان ایسا ناشکر گذار اور ناسپاس ہے کہ جب اپنے ماحول میں پلٹ کر آتا ہے تو وہ سب کچھ بھول کر پھر سے شرک وکفر اور نافرمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور یہ بات اگر تنہائی میں بیٹھ کر سوچے تو دنیا کا ہر آدمی اپنی زندگی میں محسوس کرسکے گا اس پر ضرور ایسے لمحات آئے ہوں گے جب اس نے اپنی تنہائیوں میں اللہ کو پکارا ہوگا اطاعت کے وعدے کئے ہوں گے مگر پریشانی دور ہوگئی تو سب کچھ بھول گیا۔ گناہ کا اثر : انہیں بتا دیجئے کہ اللہ ہر چیز پہ قادر ہے اگر تم کفر و معصیت پر مصر رہے مسلسل برائی کرتے رہے تو تم پر اوپر سے عذاب مسلط کردے گا یا پاؤں کے نیچے سے مصیبت پیدا کردے گا یا پھر تمہیں ایسے گروہوں میں بانٹ دے گا جو ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے عذاب بن جائیں گے۔ لفظ شیعہ : اوپر کے عذاب کی مثالیں بھی قوموں کی تاریخ میں موجود ہیں جیسے بارش یا پانی کا بےحساب برس کر غرق کا سبب بن جانا ، بعض قوموں پر آگ برسی اور بعض پر آسمان سے پتھر برسائے گئے یا ابرہہ کے لشکر پر ابابیل مسلط کردئیے کوئی بھی ایسا طوفان جو تباہ کردے نیچے کے عذاب کے حالات بھی تاریخ کا حصہ ہیں قوم نوح (علیہ السلام) پر آسمان سے پانی برسا اور زمین نے بھی پانی چھوڑ دیا یا فرعون کا لشکر کہ غرق ہو کر تباہ ہوا یا لوط (علیہ السلام) کی قوم کہ بستیاں الٹ کر غرق ہوگئیں یا قارون کی مثال مفسرین کرام نے نقل فرمائی ہے جو زمین میں دھنس گیا اس کے ساتھ ائمہ تفسیر نے ایک اور تفسیر بھی ارشاد فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طرح بیج اگتا ہے درخت بنتا ہے پھر پھل دیتا ہے اسی طرح ہر عمل بھی جلد یا بدیر اپنا پھل دیتا ہے کفر یا گناہ اور نافرمانی بھی اگر مسلسل کی جائے تو اس پر یقیناً پھل آتا ہے جو ان متذکرہ صورتوں میں سے کوئی ایک یا سب صورتیں بھی ممکن ہوسکتی ہیں اور اس کی یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ اوپر سے عذاب مسلط کرنے کے لیے ظالم اور بےرحم حاکم مسلط کردئیے جائیں جن کے پاس فریاد لے کر جاؤ تو بجائے انصاف کے ٹھوکریں کھانے کو ملیں نیز پاؤں تلے سے عذاب یا نیچے سے عذاب کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ اپنے ملازم اور نوکر ہوں یا حکومت یا ملازم طبقہ ، کام چور خائن اور بد دیانت ہوجائیں اس طرح عذاب جمع ہوگئے اور تیسری صورت فرمایا اللہ تمہیں گروہوں میں بانٹ دے ایسے گروہ جو ایک دوسرے کے گلے کاٹتے پھریں ایک دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہیں اور ایک دوسرے کو ایذا دیتے رہیں شیعہ کے معنی بھی مطلق گروہ کے ہیں اور قرآن حکیم نے اسے آٹھ مقامات پر ان گروہوں کے حق میں استعمال فرمایا جو فسادی اور اہل نار ہیں نویں جگہ اسی سے تشیع الفاحشۃ برائی پھیلانے کے معنوں میں لیا ایک جگہ ان میں ، ان من شیعتہ لابراھیم ، ارشاد فرمایا یہاں بھی اگر وہ قوم مراد لی جائے جس میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ہی معنی درست ہوسکتے ہیں کہ کتاب اللہ نے اس لفظ کو ہر جگہ بدکردار گروہ پر ہی استعمال فرمایا جیسے یہاں بطور عذاب شیعہ یعنی گروہوں میں بانٹ دینے کی سزا ارشاد فرمائی اور پھر وہ گروہ ایک دوسرے کو مبتلائے عذاب رکھیں۔ اگر آج ہم اپنی حالت پہ غور کریں تو شاید ہمارے گناہوں اور اللہ کریم سے دوری کی وجہ سے یہ تینوں سزائیں ہم پر بیک وقت مسلط ہیں یو تو دنیا میں کوئی قوم اور کوئی ملک ایسا نہیں جو آج مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا نہ ہو ابھی کینسر کا علاج دریافت نہ کرسکے تھے کہ پوری کافر دنیا کو ایڈز کے عذاب میں مبتلا کردیا یہ ایسا دہشتناک عذاب ہے کہ صرف امریکہ میں ان لوگوں کی تعداد پانچ لاکھ سے بڑھ چکی ہے جو اس مرض میں مبتلا ہو کر ہسپتالوں میں موت کا انتظار کر رہے ہیں پوری جدید تحقیق کے پاس ان کا کوئی علاج نہیں آپ اندازہ کرسکتے ہیں ایسے شخص کے لمحات کس قدر اذیت ناک ہوں گے اب انہیں ان لوگوں کی فکر ہے جن کو یہ مرض لاحق ہوچکا ہے مگر پتہ نہیں چل رہا اس کا پتہ ہی تب چلتا ہے جب مریض بےبس ہوجاتا ہے یہ تو ایک پہلو ہے اخلاقی تباہی ذہنی اذیت اور آسمانی آفتیں آئے دن ان پہ نازل ہوتیہی رہتی ہیں یہ سب ان کے کفر کے منطقی نتیجے ہیں مر ہم جو اسلام کے مدعی ہیں کیا اللہ کے ساتھ ہمارا معاملہ بھی اتنا ہی بگڑ چکا ہے کہ حکومت کی طرف سے آج کوئی تحفظ نہیں ماتحت رشوت طلب کرتے ہیں اور لے کر بھی کام نہیں کرتے اس کے ساتھ پوری قوم متعدد قومی ، لسانی صوبائی ، اور مذہبی گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے مساجد میں جاؤ تو میدان جنگ کا منظر ہے سیاسی پلیٹ فارم پر کرسیاں برسائی جا رہی ہیں ہر طرف فساد بپا ہے کہ بجز اللہ کوئی جائے پناہ نہیں اور ہمارے دانشور جلتی پر سوشلزم کا تیل چھڑک رہے ہیں مگر یاد رکھئے اللہ کے عذابوں سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ توبہ کا راستہ ہے خلوص دل کے ساتھ خلوص نیت کے ساتھ اللہ کریم کی بارگاہ میں واپسی رسول اللہ ﷺ سے غلامی کو تازہ کیا جائے گذشتہ پر اظہار ندامت کے ساتھ آئندہ کمر ہمت اطاعت و غلامی پہ باندھ لی جائے تو آج بھی حالات بدل سکتے ہیں۔ فرمایا ہم تو اسی طرح باتوں کی وضاحت کردیتے ہیں کوئی بات کسی سے ڈھکے چھپے انداز میں بیان نہیں کی جاتی اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ لوگ سمجھ سکیں اور بات کی اصلیت کو پالیں۔ اصولی باتوں میں اختلاف پیدا کرنے سے روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے اختلافات کی بات چلی تو تھوڑا سا اشارہ اس طرف بھی ہوجائے کہ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے۔ اختلاف امتی رحمۃ۔ میری امت کا اختلاف رحمت ہے یہ وہ اختلاف ہے جو اصطلاحاً تو ایسا کہلاتا ہے مگر درحقیقت اختلاف نہیں ہوتا بلکہ کتاب اللہ کو سنت رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں خلوص نیت سے سمجھنے کی کوشش ہے ظاہر ہے ایسے میں اصولی باتوں میں جن کا فیصلہ کردیا گیا کبھی اختلاف نہیں ہوسکتا صرف ان تشریحات میں جن میں اجتہاد کی گنجائش ہوگی وہاں بھی محض رائے کا اختلاف اور اس درجہ کا ہوگا کہ غلط دوسرے کو بھی نہیں کہا جائے گا ہاں اپنی رائے کو اس کی نسبت راجح یعنی معنی کے زیادہ قریب جانتے ہیں فقہا اور علماء میں اسی قسم کا اختلاف ہوتا ہے اس میں کسی لڑائی بھڑائی کی ضرورت نہیں کہ سرے سے ایک دوسرے کو غلط سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اس سے تو بات کے تمام پہلو نکھر کر سامنے آجاتے ہیں اسی لیے اسے رحمت قرار دیا گیا ہے رہ گیا اکتلاف جس نے فرقہ بندی کردی تو علیحدہ فرقہ کہلانے کے لیے اصول میں اختلاف پیدا ہوگا ظاہر ہے دونوں فریق کبھی حق پر نہیں ہوسکتے جیسے شیعہ اور مسلمان کہ توحید ، رسالت ، آخرت ، حشر نشر۔ جنت و دوزخ سے لے کر حرام و حلال اور کتاب و سنت تک حتی کہ کلمہ اور نماز تک الگ الگ ہے اسی طرح قادیانی کہ عقیدہ نبوت میں امت سے علیحدہ ہوگئے اب اس کام سے حکماً روکنا یا خلاف اسلام عقیدے اور عمل کو اسلام کہنے سے منع کرنا ارباب اختیار کے ذمہ ہے ہر شخص کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ قانون کو ہاتھ میں لے لے ہاں یہ ضروری ہے کہ مسلمان ایسے لوگوں سے الگ ہوجائیں ان امور کی وجہ سے انہیں قتل کرنا یا ان کا مال لوٹنا یا آبرو لوٹنا جائز نہ ہوگا مگر یہ ازحد ضروری ہوگا کہ ان سے علیحدگی اختیار کی جائے حکومت پر فرض ہے کہ ہر ایسے آدمی یا ادارے کا احتساب کرے جو اسلام کے نام پر غیر اسلامی چیزوں یا امور کو رواج دینا چاہتا ہے علاوہ ازیں دیوبندی ، بریلوی یا مقلد غیر مقلد کا اختلاف محض آراء کا اختلاف ہے اسے کفر و اسلام کا معرکہ بنانا جائز نہیں۔ ہماری بد نصیبی ہے کہ ایک بہت بڑا ایسا طبقہ وجود میں آ چکا ہے جن کا رزق مساجد سے وابستہ ہے اور ضروریات زندگی مدارس کی محتاج یا آباؤ اجداد کی گدیوں سے حاصل ہونے والے رزق پہ بسر کرنا ان کی زندگی ہے لہذا جب سے مذہب ذریعہ معاش کے طور پر اپنایا گیا ہے اس میں رقابت ایک دوسرے پر الزام تراشی اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اپنی ضرورت کا احساس زندہ رکھنے پہ پوری کوشش صرف ہو رہی ہے برصغیر میں انگریز کی سو سالہ غلامی میں دیگر مصائب کے ساتھ یہ بیماری بھی امت مسلمہ کے گلے پڑی ہے ورنہ قبل ازیں علما جرنیل اور سیاستدان امرا وزراء نظر آتے ہیں انگریز نے عمداً حکومت کے دروازے علما پر بند کردئیے اس کے دو نتیجے سامنے آئے قابل لوگ دینی تعلیم سے بےبہرہ رہ گئے وار ان علوم کی طرف چل پڑے جن سے دنیا میں کوئی مقام مل سکے ک دین کی طرف ایک محدودے چند اچھے لوگ آئے تو عہ علمی گھرانوں کے چشم و چراغ تھے اکثریت رطب و یابس ہی بھر گئی اور دوسرے حکمران طبقہ دینی معلومات سے بےبہرہ ہوگیا صد افسوس کہ آزادی کے بعد بھی نصاب تعلیم درست نہ کیا گیا مگر کون کرتا ارباب اختیار تو دین کو اہمیت دینے ہی سے بیزار بیٹھے تھے لہذا ساری قوم اس کے نتائج بھگت رہی ہے اللہ ہمیں معاف فرمائے اور پھر سے دل زندہ عطا کرے آمین۔ فرمایا اگر آپ کی قوم نے اسلام کا کتاب اللہ اور ان حقائق کا انکار بھی کردیا تو کیا کسی کا انکار حقیقت الامر کو بدل سکتا ہے ہرگز نہیں انہیں انکار کرکے دیکھ لینے دیں اس کی حقانیت کا تجربہ بھی انہیں ہوتا چلا جائے گا۔ ہاں آپ یہ واضح فرم ادیجئے کہ میں تم لوگوں کا ٹھیکے دار نہیں ہوں تم پر بطور وکیل مقرر نہیں ہوں کہ تم جو چاہو کرو میں بچا لوں گا یا تمہاری اصلاح مجھ پر فرض ہے ہرگز نہیں ہاں تم اللہ کریم کے دروازے پر آنا چاہو تو تمہاری راہنمائی میرا کام ہے تمہاری سفارش میں کروں گا لیکن اگر تم اللہ کا در چھوڑ دوگے تو میں تمہاری ذمہ داری سے آزاد ہوں یہ خوب سمجھ لو۔ رہی یہ بات کہ یہ سب کچھ کب واقع ہوگا انسان کا مزاج ایسا ہے کہ جب دل تاریک ہوجائے تو مکمل تباہی تک جو کچھ اس پہ گزرتی ہے وہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی اور اسے عذاب نہیں جانتا جیسے آج ہم پر بحیثیت قوم تینوں طرح کا عذاب مسلط ہے مگر ہم اس کے مختلف دنیوی علاج دریافت کرتے پھر رہے ہیں توبہ کرکے اور اپنی اصلاح کرکے اس سے جان بچانے کا سوچ بھی نہیں رہے ایسے ہی کفار مکہ اگرچہ مختلف شداید میں مبتلا تھے مگر آخری تباہی کا انتظار کرتے اور سوال کرتے کہ اگر آپ کی بات سچ ہے تو پھر وہ تباہی کب آئے گی عذاب کہاں ہے۔ فرمایا انہیں بتا دیجئے کہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ایک حد معین ہوتی ہے جیسے ہر پھل اپنا عرصہ پورا کرکے پکتا ہے اسی طرح ہر کام کا نتیجہ بھی اپنے وقت پہ ضرور سامنے آتا ہے اگر تم باز نہ آئے تو وہ وقت بھی آجائے گا اور تم کھلی آنکھوں دیکھ لوگے۔ بے دین لوگوں سے الگ رہنا چاہئے : ان آیات مبارکہ میں ایک بہت اچھا اصول ارشاد فرما دیا گیا ہے یوں تو دین کا تمسخر اڑانا بہت بڑا ظلم ہے اور مسلمانوں کو اس سے روکنے کے لیے ہی جہاد جیسی نعمت عطا ہوئی ہے مگر یہ حکومت اور حکومتی اداروں کا کام ہے ہر فرد قانون کو نافذ کرنے کے اختیارات نہیں رکھتا لہذا انفرادی حیثیت سے قاعدہ یہ ہوگا کہ اے مکاطب اگر ایسے لوگوں کو پاؤ جو امور دینیہ میں نکتہ چینی کرتے ہیں یا خواہ مخواہ کی بحثیں کرکے دین کے احکام بگاڑتے ہیں یا ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو ان سے کنارہ کشی اور علیحدگی اختیار کرو۔ اس کی دو صورتیں پہلی صورت مشرکین مکہ اور یہودو نصاری کی طرف سے پیش آتی کہ احکام الہی کا مذاق اڑاتے اور انہیں غلط بتاتے تھے اس لیے کہ انہوں نے آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار نہیں کیا تھا۔ دوسری صورت غالباً سب سے پہلے مسیلمہ کذاب کی طرف سے پیش آئی جس نے آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار بھی کیا اور ساتھ اپنی نبوت کا دعوی بھی۔ اس نے اعلان تو عہد نبوی میں کیا کذاب آپ ﷺ ہی نے اسے فرمایا تھا مگر اس کا فیصلہ عہد صدیقی میں ہوا کہ آپ ﷺ کا بہت جلد وصال ہوگیا۔ پہلا طریقہ بھی سخت گستاخی ہے حکومت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں سے جہاد کرے حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ۔ کہ اس قسم کی خرافات مٹ جائیں اور خالص اللہ کے لیے دین رہ جائے مگر انفرادی طور پر افراد کا کام یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے اور ایسی جگہوں سے اجتناب کریں رہی دوسری قسم کہ کفریہ عقائد و اعمال گھڑ کر انہیں اسلام کہا جائے یہ بہت بڑا ظلم ہے اور خلافت صدیقی کے بعد دوسرا اجماع صحابہ کرام کا اسی بات پر ہوا تھا کہ کوئی دین میں بہت بڑی تبدیلی کرتا ہے جیسے مسیلمہ کذاب کا دعوی نبوت یا نسبتاً چھوٹی جیسے زکوۃ ادا کرنے سے بعض قبائل کا انکار سب کے خلاف ریاست اسلامی کو جہاد کرنا ہوگا چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور ان کا قلع قمع کردیا گیا نہ صرف مسیلمہ بلکہ سات کے قریب اشخاص نے جن میں دو عورتیں بھی تھیں عہد صحابہ میں نبوت کے دعاوی کیے سب کا ایک فیصلہ کیا گیا جہاد۔ چناچہ ایک آدھ مرد اور ایک خاتون کو توبہ نصیب ہوئی باقی اپنے انجام کو پہنچے یہ کام یہ کام تو ریاست کا تھا۔ افراد دوسرے درجے کے لوگوں سے بھی لڑ تو نہیں سکتے مگر ان سے الگ ضرور ہوجائیں اور کبھی ان کا ساتھ نہ دیں خصوصاً اس وقت جب وہ دین سے مذاق یا غیر دین کو دین بتا رہے ہوں تو الگ رہنا اور بھی زیادہ ضروری ہے جیسے ہمارے یہاں اہل تشیع یا روافض نے دین کے نام پر بیشمار رسومات ایجاد کرلی ہیں ہر سال اس پر فساد ہوتے ہیں مگر اس کا صحیح حل یہ ہے کہ تمام اہل اسلام اس سے الگ ہوجائیں خصوصاً ان کی عبادات وغیرہ میں اصلاً کوئی دلچسپی نہ لیں ایسے ہی قادیانی کہ مسیلمہ کذاب کی طرح الگ نبوت کے قائل ہوگئے تو ان دونوں میں سے اگر کوئی دین میں کج بحثی شروع کردیتا ہے یا رسومات کو دین بتانے پہ مصر ہے تو انفرادی طور پر ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان سے الگ رہے خصوصاً جب وہ اس امر میں مشغول ہوں تو قطعا ان کی مجالس میں نہ جائے اگر کوئی دنیا کا کام یا مجبوری بھی ہو تو اس وقت بات کرے جب وہ یہ کام نہ کر رہے ہوں اور دوسرے امور میں مشغول ہوں یہ ایسا حکیمانہ علاج ہے کہ اگر مسلمان اس پر عمل پیرا ہوں تو رفض کی ساری تحریک کی قوت ختم ہوجائے اور اس میں کوئی دم خم نہ رہے کہ اس کی رونق صرف دیکھنے والوں کے دم سے ہے۔ اگر کوئی غلطی سے چلا بھی جائے اور شیطان اسے یہ نصیحت فراموش کرا دے تو جیسے یاد آجائے فوراً الگ ہوجائے اور بدکاروں کے پاس بیٹھنا حرام ہے لہذا اسے چھوڑ ہی دینا ضروری ہے محض مجلس کے لیے یا وقت کاٹنے کے لیے کسی بدکار کی محفل میں نہ بیٹھے ہاں اگر مجبوراً جانو ہو جیسے کسی کے ہاں ملازم ہے تو کام کرنے جائے گا یا کسی سے لین دین ہے تو حساب چکانے جائے گا تو صرف بقدر ضرورت جائے اس میں اگر جانے والا کود نیک ہے تو کوئی حرج نہیں یا پھر ایسے لوگ جاسکتے ہیں جو انہیں بھی تبلیغ کرسکیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات پہنچا سکیں تاکہ وہ بھی سنبھل سکیں ان سے بھی کوشش تو کی جائے کہ ان کی اصلاح ہو ورنہ ایسے لوگوں کو جنہوں نے مذہب کو کھیل سمجھا ہے چھوڑ دیا جائے انہیں مطلق کوئی اہمیت نہ دی جائے کہ ایسے نالائق ہیں کہ چند روزہ دنیا کی لذت نے انہیں اپنا بنا لیا اور یہ اس کا دھوکا کھا گئے یہ اسی پر خوش ہیں انہیں یہ بات ضرور یاد دلاتے رہئے کہ جو کوئی بھی جیسا عمل کرے گا نتیجہ بھی اسی کو بھگتنا ہوگا اور یہ جان لو کہ اللہ کے مقابلے میں کسی کو نہ کوئی دوست مل سکے گا نہ سفارشی کہ سفارش تو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوگی ان لوگوں کے لیے ہوگی جو اطاعت کے لیے کوشاں رہے مگر بتقاضائے بشریت غلطیاں بھی سرزد ہوئیں یا اعمال اس درجہ کے نہ کرسکے جو مطلوب تھا جن لوگوں نے انکار کی راہ اپنائی بھلا ان کی مدد یاسفارش کون کرسکتا ہے ان کو تو اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی جو پینے کے لیے کھولتے ہوئے پانی اور رہنے کے لیے دردناک عذابوں کی صورت کے ٹھکانے ہوں گے اور یہ سب اس کفر کا پھل اور نتیجہ ہے جو زندگی میں ان لوگوں نے اختیار کیا ۔
Top