Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 71
قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدٰىنَا اللّٰهُ كَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ١۪ لَهٗۤ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ائْتِنَا١ؕ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰى١ؕ وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قُلْ
: کہہ دیں
اَنَدْعُوْا
: کیا ہم پکاریں
مِنْ
: سے
دُوْنِ اللّٰهِ
: سوائے اللہ
مَا
: جو
لَا يَنْفَعُنَا
: نہ ہمیں نفع دے
وَلَا يَضُرُّنَا
: اور نہ نقصان کرے ہمیں
وَنُرَدُّ
: اور ہم پھرجائیں
عَلٰٓي
: پر
اَعْقَابِنَا
: اپنی ایڑیاں (الٹے پاؤں)
بَعْدَ
: بعد
اِذْ هَدٰىنَا
: جب ہدایت دی ہمیں
اللّٰهُ
: اللہ
كَالَّذِي
: اس کی طرح جو
اسْتَهْوَتْهُ
: بھلادیا اس کو
الشَّيٰطِيْنُ
: شیطان
فِي
: میں
الْاَرْضِ
: زمین (جنگل)
حَيْرَانَ
: حیران
لَهٗٓ
: اس کے
اَصْحٰبٌ
: ساتھی
يَّدْعُوْنَهٗٓ
: بلاتے ہوں اس کو
اِلَى
: طرف
الْهُدَى
: ہدایت
ائْتِنَا
: ہمارے پاس آ
قُلْ
: کہ دیں
اِنَّ
: بیشک
هُدَى
: ہدایت
اللّٰهِ
: اللہ
هُوَ
: وہ
الْهُدٰي
: ہدایت
وَاُمِرْنَا
: اور حکم دیا گیا ہمیں
لِنُسْلِمَ
: کہ فرمانبردار رہیں
لِرَبِّ
: پروردگار کے لیے
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
فرما دیجئے کہ کیا ہم اللہ کے سوا کسی کو پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کرسکے اور نہ برا اور جب ہم کو اللہ نے سیدھا راستہ دکھایا ہے تو کیا ہم الٹے پھرجائیں جیسے کسی کو شیطان (جنات) نے جنگل میں پریشان کردیا ہو (اور) اس کے کچھ دوست ہوں جو اس کو سیدھے راستے کی طرف بلائیں کہ یہاں ہمارے پاس آؤ۔ فرما دیجئے کہ یقینا اللہ کی ہدایت ہی ، ہدایت ہے اور ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ ہم جہانوں کے پروردگار کے فرماں بردار ہوں
رکوع نمبر 9 ۔ آیات 71 تا 83: اسرار و معارف : جن مسلط ہونا : امور دنیا میں ایک درمیانی راہ بھی ہوتی ہے جسے عرفا کچھ دو اور کچھ لو کہا جاتا ہے یعنی دونوں فریق اپنی باپ میں تھوڑی تھوڑی لچک پیدا کرلیتے ہیں اور یوں ایک درمیانی راستہ وجود میں آتا ہے جس پر سمجھوتہ ہوجاتا ہے مگر دین میں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ امور دنیا میں اگر دو فریق ہیں تو دونوں انسان ہیں دونوں کی رائے میں غلطی کا امکان بھی ہے اور دونوں کی رائے حرف آخر تو نہیں ہوسکتی مگر دین تو ارشادات باری کا نام ہے جو واحد ہے لا شریک ہے جس کا علم بھی بیمثال ہے اور اس کی ذاتی صفت ہے مخلوق کے نفع اور نقصان سے واقف بھی ہے اور خود ہی نفع و نقصان کا خالق بھی ہے لہذا اس بات میں کمی کی جائے اور کسی بھی دوسرے کی بات اس کے مقابلے میں قبول کی جائے تو یہ صریح گمراہی ہوگی جس کی امید ہی اے کفار تمہیں ہم سے یعنی مسلمانوں سے نہ رکھنی چاہئے یہاں تو ایک ہی بات ہے کہ اللہ بات بلا حیل و حجت قبول کرلی جائے کیونکہ کسی بھی دوسرے کی بات اللہ کے مقابلے میں ماننے کا کچھ حاصل نہیں کہ اللہ کے بغیر نہ تو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ کسی طرح کا نقصان کرسکتا ہے اگر ایسا کیا جائے تو اسلام کو پانے کے ک بعد پھر اوندھے منہ گمراہی میں گرنے کے مترادف ہے اور آدمی کی مثال ویسی ہی ہے جیسے کسی پر شیطان یا جن مسلط ہو کر اسے پاگل بنا دے اور وہ دیوانہ وار بھاگتا پھر رہا ہو پھر اسے کچھ لوگ راستے کی طرف بلاتے بھی رہیں تو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ آپ انہیں بتلا دیجئے کہ ہدایت تو وہی ہے جو اللہ کی طرف سے ہے اور اس کے سوا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بات کے بارے میں رائے قائم کرے یہ نیکی ہے یا بھلائی ہے بلکہ اس کا معیار صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ جس بات کو اللہ کریم نیکی فرماتے ہیں وہی نیکی ہے اور جسے وہ درست قرار دیں وہی درست ہے لہذا ہمارے لیے تو بڑا سادہ سا حکم ہے کہ اللہ کی بات جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے سب کی ضرورتوں سے نہ صرف واقف ہے سب کی ضرورتیں پوری فرما رہا ہے صدق دل سے قبول کرلیں۔ اور اپنی پوری قوت اس کی اطاعت پہ صرف کردیں۔ نیز اس کی عبادت کرتے رہیں کہ توفیق اطاعت بھی نصیب ہو اور تقوی اختیار کریں یعنی اس کے ساتھ قریبی تعلق استوار کریں کہ اس کی نافرمانی پہ حیا دامن گیر ہوجائے اس لیے کہ وہی عظیم ذات ہے جس کے روبرو سب کو پیش ہونا ہے وہ ایسا قادر ہے جس نے آسمان بنائے زمین کو پیدا فرمایا اور ان کی تخلیق میں کوئی کمی رہنے نہیں دی جب کچھ بھی نہ تھا اتنی بڑی کارگہ حیات تعمیر فرما دی وہ جب چاہے گا تو محض حکم دے گا سب کچھ پھر سے پیدا ہوجائے گا کہ اس کی بات ہی سچ ہے اور اس نے اس سب کی خبر دی ہے بلکہ جب صور پھونکا جائے گا اور قیامت قائم ہوگی تو کوئی حکومت کا دعوی کرنے والا بھی نہ رہے گا سب تسلیم کرلیں گے کہ حکومت اسی کو سزاوار ہے وہ جملہ حالات سے باخبر ہے پوشیدہ ہوں یا ظاہر اور وہ دانا تر ہے اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگ مہلت پاتے ہیں ورنہ کسی بات سے بیخبر نہیں۔ واذقال ابراہیم لابیہ۔۔۔ 74 تا 82: پہلاتاج پہننے ولا اشخص : اسی سلسلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بطور مثال ارشاد ہوا کہ جب وہ مبعوث ہوئے تھے لوگوں کا یہی حال تھا اللہ کو فراموش کرچکے تھے اور حکومت وقت یا بادشاہ کو ہی اپنا رب تسلیم کرلیا تھا جس کا نام مفسرین نے نمرود بن کنعان نقل فرمایا ہے تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ پہلا شخص تھا جس نے تاج پہنا اور اپنی خدائی کا دعوی کیا یہ لوگ بہت سے بتوں کے ساتھ ستاروں کی پرستش بھی کرتے تھے کہ بادشاہ نے دعوی خدائی کے ساتھ اسی طرح کی رسومات جاری کر رکھی تھیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے گھر سے کام شروع کیا اور آذر سے جو ان کے والد اور نمرود کے وزیر تھے ، ارشاد فرمایا کہ آپ نے بتوں کی عبادت کو شعار بنا رکھا ہے اور ساری قوم اس میں مبتلا ہے حالانکہ اس پر کوئی بھی دلیل نہیں آپ خود پتھر وغیرہ کو تراش کر بت بناتے ہیں اور پھر اس کی عبادت شروع کردیتے ہیں جو اپنے وجود کے بننے میں آپ کا محتاج ہے بھلا وہ آپ کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور آپ کا معبود کیسے بن گیا بلکہ میں تو صاف دیکھ رہا ہوں کہ آپ اور آپ کی ساری قوم ہی غلط راستہ اختیار کرچکی ہے۔ کشف : ابراہیم (علیہ السلام) کو تہم نے ارض و سما کے عجائبات کا مشاہدہ کرادیا مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک چٹان پر کھڑے تھے جب زمینوں اور آسمانوں کی سب کائنات اللہ کریم نے ان کے سامنے کھول دی کہ ایک ایک چیز ایک ایک ذرہ ایک ایک پتہ کس طرح سے قدرت باری کے تحت اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق عمل کر رہا ہے اشیاء میں اثر اور اعمال کے نتائج کیسے مرتب ہوتے ہیں فرشتے کیا کردار ادا کرتے ہیں سورج چاند ستارے اور ہوائیں کیا کر رہی ہیں اعمال کیسے لکھے جا رہے ہیں لوگ ان کے نتیجے میں کہاں کہاں اور کن کن ٹھکانوں پہ پہنچیں گے حتی کہ جنت میں اپنی منزل بھی انہوں نے ملاحظہ فرمائی اور اسی سارے مشاہدے اور علم کو اصطلاحاً کشف کہا جاتا ہے کشف والہام یا القاء و وجدان یہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم ھاصل کرنے کے ذرائع ہیں انبیاء علیہم الصلوہ والسلام کو ہمیشہ اسی ذریعہ سے تعلیم فرمایا جاتا ہے لہذا یہ حصول علم کے تمام دوسرے ذرائع سے اعلی و افضل ذریعہ ہے اور یہی نعمت ولی اللہ کو نبی کے اتباع کے طفیل نصیب ہوتی ہے مگر دو واضح اور بہت بڑے فرق ہیں اول نبی براہ راست اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے جب کہ ولی بھی اللہ ہی کی اطاعت کرتا ہے مگر نبی کے واسطے سے کرتا ہے دوسرے نبی کا کشف الہام القا وجدان حتی کہ خواب بھی وحی کہلاتا ہے یعنی یعنی ایسا قطعی اور یقینی جس پر عمل کرنا نبی اور اس کی امت کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے ولی کا کشف وحی الہی کا درجہ ہرگز نہیں رکھتا بلکہ ولی اللہ کو غلطی لگنے کا امکان ہوتا ہے لہذا وہ نبی کی خبر سے متصادم ہو تو باطل ٹھہرے گا اور دوسرے یہ کہ ولی کا کشف اس کی اپنی ذات کے لیے دلیل ہے دوسرے لوگ اس کے ماننے کے مکلف نہیں ہوتے فرمایا یہ نعمت ہم نے اس لیے دی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو عین الیقین یعنی یقین کا وہ درجہ بھی حاصل ہوجائے جو آنکھوں دیکھ لینے سے ہوتا ہے یقین تو انہیں پہلے بھی تھا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جان کر قطعی یقین تھا مگر اسی پر ایک قسم اور بڑھا دی گئی یہی حال ولی اللہ کے مشاہدات اور کشف کا ہے کہ انہیں یقین کامل میں مزید ترقی نصیب ہوتی ہے اور احکام الہی اور ارشادات نبوی کی مزید وضاحت حاصل ہوجاتی ہے۔ طریق تبلیغ : پھر انہوں نے ستارہ پرستی کو ایسے عام فہم دلائل سے رد فرمایا اور اس کا باطل ہونا ثابت فرمادیا جو عام عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے انبیاء (علیہ السلام) کا کمال یہی ہوتا ہے گہرے منطقی دلائل میں الجھنا پسند نہیں فرماتے بلکہ عام فہم اور دو ہی طرح کے دلائل پسند فرماتے ہیں اول نقلی جو پہلی کتب میں نقل ہوئے ہوں یا موجودہ کتاب میں نازل ہوئے ہوں دوم عقلی ایسے جنہیں ایک عام آدمی کی عقل بھی قبول کرسکے۔ بتوں کا باطل ہونا تو بڑی سادہ اور سیدھی بات تھی مگر ستارہ پرستی کے لیے آپ نے طریق کار تھوڑا سا تبدیل فرما لیا کہ جب رات ہوئی تو ایک روشن ستارہ ابھرا یوں تو آسمان ستاروں سے بھر جاتا ہے مگر بعض خاص ستارے بہت روشن ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ بقول تمہارے یہ میرا رب ہے۔ یعنی اگر ستارہ پرستی حق ہے تو پھر اس کی پجا کی جائے جو سب پر چھا رہا ہے مگر کچھ دیر بعد وہ تو غروب ہوگیا تو فرمایا یہ تو خود فانی ہے اپنی ذات کو ایک حال پہ قائم رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا میں اسے اپنی ضرورتیں پوری کرنے والا کیسے مان لوں میں کسی ایسی ہستی سے محبت نہیں کرسکتا پھر چان دطلوع ہوا تو فرمایا ستاروں کی نسبت تو یہ زیادہ مناسب ہے اسے رب تسلیم کرنا چاہئے مگر وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا اور فرمایا کہ یہ سب چلنے والے کام کرنے والے اور خدمت پر مامور نظر آتے ہیں یقیناً کوئی ہستی انہیں چلانے والی بھی ہوگی چونکہ یہ نظام ایسا مربوط ہے اور اس باقاعدگی سے چل رہا ہے کہ صاف اعلان کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ رب یعنی چلانے والا ، بنانے اور قائم رکھنے والا سب کا ایک ہی ہے یقیناً انسان کا آپ کا اور میر ا رب بھی وہی ہے اور اس وسیع کائنات میں درست راہ عمل کا بتانا بھی اسی کو سزاوار ہے اگر وہ ہدایت کا سامان نہ کرے یا انسان اس کی ہدایت کو قبول نہ کرے تو یقینا ایسے لوگوں میں شامل ہوجائے گا جو بھٹک چکے ہیں جو راستہ کھو چکے ہیں۔ پھر سورج کے طلوع کا منظر دیکھا فرمایا یہ بہت بڑا ہے اس کے سامنے سب ستارے ماند پڑگئے شاید یہ رب ہے مگر وہ بھی نہ رہا اور پھر سے تاریکی چھانے لگی تو فرمایا کہ لوگو تم اس عظیم ذات کے ساتھ ستاروں کو شریک گردانتے ہو جو ان سب کا خالق مالک اور قائم رکھنے والا ہے مگر میں ایسا ہرگز نہ کروں گا میں تمہارے اس عقیدے سے یکسر بیزاری و علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں اور پورے خلوص اور پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جو زمین اور آسمانوں کا بنانے والا ہے اور کبھی ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتا جو اس کی ذات یا اس کی صفات میں کسی بھی دوسرے کو شریک مانتے ہوں یہ سب کچھ آپ نے بہت پیارے اور عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچایا جس میں تین باتیں بطور خاص سمجھنے کی ہیں کہ اول تو خلوص اور یقین کامل ضروری ہے ان دونوں چیزوں کا حصول انبیا کو براہ راست اللہ سے نصیب ہوتا ہے اور دوسرے لوگ ان کی مجلس و صحبت سے حاصل کرتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جس طرح علوم نبوت نسلاً بعد نسلً منتقل ہوتے ہیں ایسے ہی برکات صحبت بھی اور یہی عظیم نعمت ہے جو اہل اللہ کی مجالس میں نصیب ہوتی ہے۔ دوسرے تبلیغ کے لیے اپنوں سے ابتدا کرے اور عوام تک پہنچے اسی محبت اور درد کے ساتھ اپنوں کو دعوت دی جاتی ہے نیز نہ ماننے والوں پہ یہ حقیقت بھی واضح کردے کہ مومن و کافر دو الگ طبقے انسانیت کے دو فریق اور دو قومیں ہیں جن کی دوستی و رشتہ داری آپس ہی میں ممکن ہے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں یعنی مومن کی مومنوں سے اور کافر کی کافروں سے تیسرے بات بہت آسان اور عام فہم انداز میں کی جائے اور خواہ مخواہ کا فلسفہ درمیان میں لا کر اسے مشکل نہ بنایا جائے ورنہ وہ بات اپنا اثر کھو دے گی۔ اہل اللہ کا کمال : قوم نے مخالفت کی راہ اپنائی نہ صرف انکار کیا بلکہ جھگڑا کرنے لگے اور اپنے مفروضہ خداؤں کے غضب کا حوالہ دینے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی وحی مجھ پہ نازل ہوتی ہے اس کی طرف سے ہدایت مجھے نصیب ہے تم چاہتے تو مجھ سے یہ دولت حاصل کرتے مگر تم بالکل غلط اور الٹ رویے کا اظہار کر رہے ہو کہ اللہ کی ذات اور صفات کے متعلق مجھے سمجھانا چاہتے ہو بجائے سیکھنے کے مجھے کچھ سکھانا چاہتے ہو آپ کا یہ ارشاد بھی بہت بڑی تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ دنیا کے عظیم ترین دانشور ادیب سائنسدان اور فلاسفر جس موضوع پر چاہیں بات کریں مگر ذات وصفات باری ، آخرت ، روح ، فرشتہ اور عذاب وثواب یا اخروی زندگی کے بارے میں بات نہیں کرسکتے اس موضوع پر ہر زمانے میں صرف ان ہستیوں نے بات کی ہے جو وحی الہی سے سرفراز ہوئے یعنی انبیا علیہم الصلوہ والسلام لہذا آج تم اس قاعدے کے خلاف کیوں چلنا چاہتے ہو رہی بات ڈرنے کی تو جس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہو وہ اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا پروردگار ہر حال میں اس سے باخبر بھی ہے اور نفع و نقصان کی قدرت بھی اسی کو ہے۔ فرمایا ذرا غور کرو کہ تم اللہ سے نہیں ڈرتے اور اس کی ذات وصفات میں دوسروں کو شریک مان رہے ہو جس پر کسی زمانے میں کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکی تو بھلا میں بتوں سے ڈرنے لگوں حالانکہ ان کے باطل ہونے کی علمی اور عقلی ہر طرح کی دلیل موجود ہے اب خود ہی دیکھ لو کہ ان حالات میں ہم دونوں فریقوں میں سے کسے تسلی ہونی چاہئے۔ اس کے بعد ایک قانون ارشاد فرما دی ا کہ جن لوگوں کو دولت ایمان نصیبہوئی اور پھر کسی طرح اسے شرک جیسے ظلم سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ سکون ان ہی کا حصہ ہے ایسے ہی لوگ اطمینان سے رہ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں۔ عمل اور عقیدے میں باعتبار اثر کے جو بہت بڑا فرق ہے وہ نہایت حسین انداز میں ارشاد فرما دی ا کہ عقیدہ راتہ ہے اور عمل اسے طے کرنا اگر عمل میں کوتاہی ہوگی تو سفر کم طے ہوگا مگر راستہ تو گم نہ ہوگا اگرچہ یہ اچھی بات نہیں اس سے بچنے کی کی کوشش بہت ضروری ہے مگر عقیدے کی خرابی کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ راستہ بدل گیا اب مسلسل عمل بھی اسے منزل پہ نہیں پہنچا سکے گا لہذا یہاں حدیث مبارک کی تشریح کے مطابق ظلم سے مراد عقیدے میں شرک کی آمیزش ہے اور جو اس سے مھفوظ رہا وہ اس لحاظ سے ضرور امن میں ہے کہ راستہ گم نہیں ہوا اللہ کریم توفیق عمل بھی دیں اور ایمان کامل بھی۔
Top