بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
نٓ ۔ قسم ہے قلم کی اور جو لکھتے ہیں (ان کی قسم)
آیات 1 تا 23۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے قلم کی اور جو کچھ قلم سے لکھاجاتا ہے یعنی آپ ﷺ نے امی ہونے کے باوجود علم کے وہ دریابہائے کہ خود قلم اور اس کی تحریر آپ کے کامل عقل مند اور بےمثال صاحب خرد ہونے پر دال ہے۔ مجنون۔ جب آپ ﷺ نے اعلان نبوت فرما کر ساری انسانیت کو دعوت حق دے دی اور تمام انسانوں کے لیے ایک عقیدہ اور ایک نظام حیات تو مشرکین نے اسے معاذ اللہ پاگل پن قرار دیا کہ دنیا کی عظیم الشان حکومتیں ساری دنیا پہ ایک نظام رائج نہ کرسکیں۔ پھر آپ ﷺ امی ہیں ، اکیلے ہیں یا چند مسلمان جن کی بظاہر کوئی حیثیت نہیں پھر اقوام عالم کے مزاج الگ ، فکر الگ ، رنگ ونسل اپنی اپنی ، غذا الگ زبانیں الگ موسم اور اوقات علیحدہ بھلاسب کے لیے ایک نظام جو دنیا میں مروج تمام نظاموں کو باطل قراردیتا ہے کیسے بنایا جاسکتا ہے اور بن جائے تو کیسے منوایا جاسکتا ہے یہ سب دیکھ کر انہوں نے کہا یہ محض جنون ہے کوئی صاحب عقل ایسی بات نہیں کہہ سکتا مگر خود کتاب اللہ اور پھر اسی کی تشریح سنت خیرالانام اس بات پر گواہ ہیں کہ آپ ہی کی دانش تمام جہانوں پر افضل ہے یہ آپ پر اللہ کا انعام ہے جس کا بدلہ یہ ہے کہ آپ کا اجر کبھی ختم نہ ہوگا۔ کہ روئے زمین پر جو بھی نیکی ہوگی اس کے بتانے والے آپ ہی ہیں لہذا آپ کا اجر ہمیشہ ارمسلسل اور بیشمار رہے گا۔ اور آپ ﷺ کے اخلاق عالی سب سے بلند ہیں کہ جو آپ کی مخالفت کرتے ہیں آپ ان کی بھی دوعالم کی بھلائی کے لیے فکرمند ہیں عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور یہ کفار بھی جان لیں گے کہ کون دھوکے میں ہے چناچہ تھوڑے ہی عرصے میں شرک کی شوکت ٹوٹ گئی حیات مبارکہ میں عرب پر عملا اسلام نافذ ہوگیا آپ کا پروردگار ہی خوب جانتا ہے کہ غلطی پہ کون ہے اور کون صحیح ہے لہذا جسے وہ درست فرمائے وہی درست ہے۔ مداہنت۔ آپ ﷺ کبھی ان جھوتی کی بات مت مانیے گا کہ یہ تو چاہتے ہیں کہ آپ نرمی کریں جس سے ان کی مراد ہے کہ آپ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور باطل کو باطل نہ کہیں تو یہ بھی نرمی کریں گے یعنی ایذادینے میں کمی کردیں گے مگر آپ ایسا ہرگز نہ کریں۔ مسئلہ۔ کفار کے ساتھ ایسا معاہدہ کہ تم ہمیں کچھ نہ کہو ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے دین میں مداہنت اور حرام ہے۔ (مظہری) ۔ اور کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قسمیں کھانے والا اور بےقدر ہو نیز طعنے باز اور چغل خور اور نیکی سے روکنے والا حد سے بڑھا ہوا بدکار ہو اور بالکل اجڈ ہو اور اس پر یہ کہ کسی باپ سے اس کا نسب ثابت نہ ہو۔ کفار کی طرف سے جو شخص یہ پیشکش لایاوہ ایسا ہی تھا۔ نبی ﷺ پر طعن کرنے والا۔ مگر پھر یہ اصول بن گیا کہ کافر بھی بات احترام سے کرتا ہے جو کوئی نبی (علیہ السلام) پر طعن کرتا ہے ذات عالی کے اعتبار سے ازواج مطہرات یا صحابہ کرام کے واسطے سے تو اور سب برائیاں تو اس میں ہوتی ہیں وہ صحیح النسب بھی نہیں ہوتا۔ اب ایسے آدمی کی کیا حیثیت خواہ وہ کتنا مالدا بھی ہو یا بہت بڑا کنبہ قبیلہ بھی رکھتا ہو ایسا بدنصیب کہ جب اللہ کی آیات سنائی جائیں تو کہنے کہ پرانی داستانیں ہیں اور گزرے وقت کی کہانیاں ہم حشر کو اس کی ناک داغ دیں گے کہ ایسوں کو رسوائی ظاہر ہو ہم نے انہیں بھی نعمتیں دے کر آزمایا جیسے ان لوگوں کو آزمایا تھا جن کے پاس باغات تھے اور ان میں خوب پھل آرہے تھے تو وہ عظمت الٰہی کو بھول کر اسے اپناکمال سمجھ بیٹھے اور فیصلہ کرلیا کہ علی الصبح اس کا پھل توڑیں گے مگر رات کو اللہ نے اس پر تباہی بھیج دی جبکہ وہ نیند کے مزے لیتے رہے اور وہ صبح تک ٹوٹ پھوٹ کر تباہ وبرباد ہوگیا۔ انہوں نے علی الصبح ایک دوسرے کو آواز دی کہ چلو سویرے سویرے پھل جمع کرنا شروع کردیں کہ پھر ایسانہ ہو کہ فقیر اور مانگنے والے بھی آجائیں اور وہ بھی پھل لے جائیں چناچہ بڑی تیزی سے بڑھے مگر جب دیکھا تو سٹپٹاگئے کہ شاید ہم کسی اور جگہ آگئے مگر نہیں جگہ تو ہی ہے ہماری ناشکری نے ہمیں تباہ کردیا اور ان میں سے کسی درمیانے نے کہا کہ تم نے کیوں اللہ کا شکرادانہ کیا تھا اور اسے ذاتی کمال سمجھ کر اللہ کے نام پر دینے سے بھی منکر ہو رہے تھے۔ برائی سے نہ روکنے والا بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ مگرچونکہ باوجود ایسی حرکت کو براسمجھنے کے اس نے نہ انہیں روکا اور نہ خود ان سے الگ ہواتو اس کا باغ بھی انہی کے ساتھ اجڑ گیا تو سب کہنے لگے کہ ہمارا رب پاک ہے جو کرتا ہے حق ہے ہم نے غلط سوچا اور اپنی ذات پر ظلم کیا پہلے تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ تیری خطا ہے یا تیری غلطی ہے مگر پھر تسلیم کرلیا اور توبہ کی ہم سے گناہ ہوا اللہ ہمیں معاف کردے ہم مانتے ہیں کہ پہلی نعمت بھی اسی کی تھی اور اب بھی اس سے بہتر عطا کرنے پر قادر ہے لہذا ہم اس کی طرف رجوع کرتے ہیں یہ تو اتنی عقل بھی نہیں رکھتے کہ شدائد اور مصیبتوں کو دیکھ کر توبہ ہی کرلیں تواگران میں عقل ہوتوجان لیں کہ دنیا کی نسبت آخرت کے عذاب سے تو بہت ہی بڑے ہیں۔
Top