Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ١ۚ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
اَوَلَمْ : کیا نہ يَهْدِ : ہدایت ملی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَرِثُوْنَ : وارث ہوئے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد اَهْلِهَآ : وہاں کے رہنے والے اَنْ : کہ لَّوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہتے اَصَبْنٰهُمْ : تو ہم ان پر مصیبت ڈالتے بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَنَطْبَعُ : اور ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے ہیں
کیا ان لوگوں کو جو اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوئے (ان واقعات نے) راہنمائی نہیں کی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیں اور ان کے دلوں پر مہر کردیں سو وہ سن ہی نہ سکیں
رکوع نمبر 13 ۔ آیات 100 تا 108 ۔ اسرار و معارف : ہلاک ہونے والے اپنے انجام کو پہنچے مگر بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا بہت بڑا نشان بن کے کیسی کیسی خوشحال اور مضبوط قومیں جن کے پاس ہر طرح کے وسائل اور ذرائع موجود تھے دولت کی ریل پیل تھی عالیشان محل تھے اور طاقتور فوج تھی مگر مسلسل گناہ کے باعث عذاب الہی کی گرفت میں آئے اور ایسے تباہ ہوئے کہ سوائے عبرت کے کچھ باقی نہ بچا تو جو لوگ ان کے بعد آ کر پھر سے آباد ہوئے ہیں اور جو اس کتاب اور موجودہ پیغام کے مخاطب ہیں انہیں یہ ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ قادر ہے جب چاہے گناہ پر سزا دے سکتا ہے اور پہلی قوموں کی طرح انسان اپنے اعمال کی شامت میں گرفتار ہو کر مختلف تباہیوں کا شکار ہوسکتے ہیں یا پھر دوسری سزا دے سکتا ہے اور پہلی قوموں کی طرح انسان اپنے اعمال کی شامت میں گرفتار ہو کر مختلف تباہیوں کا شکار ہوسکتے ہیں یا پھر دوسری سزا جو گناہ پر مرتب ہوتی ہے کہ دل پر مہر کردی جاتی ہے۔ قلوب پر اعمال کا اثر : یعنی دل کا دروازہ حق بات لیے بند ہوجاتا ہے حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو دل پر سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے پھر کرتا ہے تو سیاہی اور بڑھتی ہے حتی کہ مسلسل گناہ سے دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے یہی وہ حال ہے جسے کبھی مہر سے اور کبھی ران یعنی زنگ سے تعبیر فرمایا گیا ہے فرمایا پھر انہیں کچھ سنائی نہیں دیتا حالانکہ وہ بہرے تو نہیں ہوجاتے اور سب کچھ سن رہے ہوتے ہیں مگر یہ بھی تجربہ شدہ بات ہے کہ بہترین ذرائع کے باوجود لوگ ہدایت سے مھروم رہے مثلاً خود نبی اکرم ﷺ کی زبان حق ترجمان سے اللہ کا کلام سنا اور ایمان نہ لائے بلکہ انہیں وہ تکلیف دہ محسوس ہوا اس لیے کہ برے اعمال کے باعث دل سیاہ اور تباہ ہوچکے تھے اور نیکی کو قبول کرنے کی استعداد سے محروم تھے اگر دل میں سے یہ قوت ختم ہوجائے تو کان آنکھ یا جملہ حسیات صرف بدن کی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کے لیے کام کرتی ہیں جو ہر جاندار کو حاصل ہے لہذا صرف بدنی ضرورت کے کام آنا اور روح کی ضروریات سے بیخبر ہوجانا اتنا بڑا جرم اور ایسی محرومی ہے کہ ارشاد فرمایا یہ سنتے ہیں ہی نہیں اصل انسان تو روح تھی بدن تو اس کا آلہ تھا جب روح کے فائدے کی بات یا اس کی ضرورت کی بات نہیں سنتے تو ایسا ہی ہے کہ یہ سنتے ہیں ہی نہیں۔ اور اے حبیب اسی غرض سے ان تباہ شدہ بستیوں اور عذاب الہی میں گرفتار شدہ اقوام کے حالات کا بعض حصہ یا بعض واقعات ہم آپ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کی قوم اور امت دوسروں کے حالات سے عبرت حاصل کرے ان کے پاس بھی اللہ کے رسول واضح دلائل اور معجزات لے کر آئے مگر وہ اپنی انا میں گرفتار رہے کہ جو جھوٹ انہوں نے ایجاد کر رکھے تھے انہیں پر اصرار کرتے رہے اور حق کو قبول نہ کیا یہ صورت حال آج بھی کسی نہ کسی صورت دیکھی جاسکتی ہے کہ لوگ اور اچھے پڑھے لکھے لوگ یا علما بھی جب ایک بات کہہ دیتے ہیں تو اس پر ضد کرتے ہیں اور دلائل کی ناروا تاویل کرنے میں لگے رہتے ہیں یہ درست نہیں بلکہ اگر غلطی ہوجائے تو پتہ چلنے پر توبہ کرنا اور حق کو قبول کرنا چاہیے کفار میں تو یہ بات اس لیے پیدا ہوجاتی ہے کہ ان کے دلوں پر مہر کردی جاتی ہے۔ سب کے نہیں مگر اکثر کے ضرور کردی جاتی ہے اور یہ اکثر وہی ہوتے ہیں جو مسلسل گناہ کرتے رہتے ہیں ایسے ہی اگر مومن بھی نافرمانی کا راستہ اختیار کرلے تو بعض اوقات دل تباہ ہوجاتا ہے اور ایسا آدمی ایمان چھوڑ کر کفر کی دلدل میں جا گرتا ہے۔ فرمایا جن میں اکثر کے دلوں پر مہر کردی جاتی ہے وہ سب بدعہد ہوتے ہیں یعنی نافرمان ہوتے ہیں کہ یوم الست جو عہد کیا اسے بھی پورا نہیں کرتے اور زندگی میں کتنے مواقع مشکلات وغیرہ کے آتے ہیں جب کہہ اٹھتے ہیں اگر یہ مصیبت ٹل گئی تو پھر جرم نہ کروں گا مگر جب مصیبت ختم ہوجائے تو پھر گناہ کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں اور اکثر گناہ اور برائی میں مشغول رہتے ہیں۔ صرف نبی ہی اللہ کی ذات وصفات اور پسند و ناپسند سے مطلع فرما سکتا ہے : پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا بادشاہ مصر جس کا لقب فرعون ہوتا تھا یعنی تمام بادشاہ فرعون کہلاتے تھے۔ کی طرف اور اس کے امراء اور مذہبی پیشواؤں کی طرف اپنے احکام اپنی باتیں اور بہت سے واضح معجزات عطا فرما کر مبعوث فرمایا گیا مگر انہوں نے زیادتی کی نبی کے ساتھ بھی اور اللہ کے دین اور آیات کے ساتھ بھی تو پھر دیکھئے ایسے فساد پرور لوگوں کا کیا انجام ہوا۔ موسی (علیہ السلام) نے فرعون کو دعوت دی اور فرمایا میں تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں۔ یعنی بعثت نبوت اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے ، اور میں کبھی اللہ کی طرف غلط بات منسوب نہیں کرسکتا۔ یعنی تمام نبی معصوم بھی ہوتے ہیں امانت دار بھی اور اللہ کی ذات وصفات یا پسند و ناپسد کا علم خود اللہ کی ذات سے پاتے ہیں لہذا غیر نبی اگر اپنی طرف سے کسی بات پر ثواب یا عذاب کا وعدہ کرے تو یہ اللہ کریم پر جھوٹ باندھنے والی بات ہوگی مگر اللہ کے نبی کبھی اللہ پر ایسی بات نہیں کہتے جس کے کہنے کا خود اللہ کی طرف سے حکم نہ دیا گیا ہو۔ پھر میں تمہارے رب کی طرف سے معجزات بھی لایا ہوں یعنی اللہ نے مجھے ایسے امور عطا فرمائے ہیں جو انسانی بس سے باہر ہیں اس لیے کہ وہ تمہارا بھی رب ہے اور تمہاری تربیت کرنا چاہتا ہے لہذا کفر و شرک اور ظلم و جور سے باز آجاؤ اور بنی اسرائیل کو جو ظلماً غلامی میں جکڑ رکھا ہے اس سے توبہ کرو اور انہیں میرے ساتھ جانے اور رہنے کی آزادی دو تو فرعون نے کہا اگر آپ کے پاس کوئی ایسی نشانی ہے تو پیش کریں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بہت سے معجزات کا تزکرہ ملتا ہے جن میں سے دو بہت واضح تھے ایک ہاتھ کی لاٹھی کو پھینکتے تو وہ بہت بڑا اژدھا بن جاتی اور دوسرا یہ تھا کہ ہاتھ کو بغل میں دے کر نکالتے تو وہ روشن ہوجاتا تھا۔ یہ سنت الہی ہے کہ لوگوں کے پاس جیسے علوم اور کمالات ہوں ویسے ہی معجزات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو دئیے جاتے ہیں فرعون کا دور جادو کے کمالات کا دور تھا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا ہوئے کہ جادوگروں پر ان کی عظمت ثابت ہوگئی چناچہ انہوں نے لاٹھی پھینکی تو بہت بڑا اژدھا بن گئی اور ہاتھ کو بغل میں دبا کر نکالا تو وہ روشن اور سفید ہوگیا کہ پورا ماحول روشن کردیا۔
Top