Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور یقینا ہم نے فرعون والوں کو قحط اور پھلوں کی کمی میں مبتلا کردیا تاکہ وہ (حق بات کو) سمجھ جائیں
رکوع نمبر 16 ۔ آیات 130 تا 141 ۔ اسرار و معارف : چنانچہ فرعون کی قوم بھی گرفتار بلا ہوگئی یاد رہے اللہ اتنا کریم ہے کہ فورا تباہی ان پر بھی نہیں بھیجی بلکہ تھوڑی سی شدت بعض امور میں پیدا فرمائی کہ انہیں نصیحت ہو اور توبہ کریں لہذا ان پر قحط مسلط فرما دیا اور پھلوں میں کمی واقع ہوگئی تاکہ انہیں اپنی بےبسی کا احساس ہو مگر دل کی سیاہی ایسی باتوں کو سمجھنے میں رکاوٹ بنتی ہے جیسے آجکل بھی رزق کی تنگی سے بچنے کے مختلف حیلے ذاتی اور قومی رہ سطح پر اپنائے جاتے ہیں۔ یہ خیال نہیں آتا کہ توبہ کرلیں۔ ایسے ان کا حال تھا بلکہ اتفاقاً اگر کوئی اچھا واقعہ پیش آتا تو اپنی دانائی کا نتیجہ قرار دیتے اور مصیبت کو موسیٰ (علیہ السلام) اور ا ن کے پیروکاروں کی نحوست۔ لیکن یہ جان لینا چاہئیے کہ بدکار کے اعمال کی نحوست ہی اس کی تباہی کے لیے کافی ہوتی ہے اور یہی حال ان کا بھی تھا۔ اصلاح کیلئے سختی کی جاتی ہے : وہ آیات ایسی کتاب کی ہیں جو حقائق کو کھول کھول کر بیان کرتی ہے۔ اور یہاں آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعی اور اس کی حقیقت کا بیان سنایا جائے ا کہ مومنین کو اس سے مزید عبرت حاصل ہو۔ قرآن اگرچہ مخاطب تو ساری انسانیت کو کرتا ہے مگر اس سے فائدہ وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جنہیں ایمان نصیب ہوتا ہے۔ بے شک فرعون اپنی سرزمین میں بہت طاقتور شاہنشاہ تھا اور اس نے لوگوں کو گروہوں میں بانٹ رکھا تھا۔ لفظ شیعہ : یہ پہلے بھی گزر چکا کہ شیعہ کا لفظی تر جمہ گروہ ، پارٹی یا جماعت ہے مگر قرآن کریم نے ہمیشہ گمراہ لوگوں کے ٹولہ پر اس کا اطلاق کیا ہے۔ جیسے اس جگہ کہ فرعون نے لوگوں کے گروہ بنا رکھے تھے اور ایک گروہ یعنی قبطی تو بڑے معززین رہے تھے جبکہ دوسرے سبطی یا بنی اسرائیل کو بہت ذلیل و خوار کر رکھا تھا حتی کہ نہ صرف یہ کہ ان سے بیگار لی جاتی بلکہ ان کے بیٹوں تک کو ذبح کردیا جاتا اور بیٹیوں کو زندہ رکھا جاتا کہ فرعون کو نجومیوں نے اطلاع دی تھی کہ اس قوم میں ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیری حکومت ختم کردے گا تو اس نے بچے قتل کرنے کا حکم دے دیا وہ بہت بڑا فسادی تھا۔ جب اللہ چاہتا ہے تو کمزور طاقتور پہ غالب آتے ہیں : پھر اللہ نے چاہا کہ کمزوروں پر احسان کرے اور ان متکبروں سے اقتدار چھین کر کمزوروں کو سردار اور حاکم بنا دے اور انہیں ان کی حکومت ، شان و شوکت اور مال و دولت کا وارث بنا دے اور انہیں اقتدار عطا کر کے فرعون اس کے وزیر ہامان اور فرعون کے لاؤ لشکر کو وہی بات کر کے دکھا دیں جس سے بچنے کے کیے یہ بچوں کو قتل کر رہے ہیں اور بہت خوفزدہ ہیں ہر حال میں اسے روکنا چاہتے ہیں۔ کلام باری : چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر ان کی والدہ کو حکم دیا یہاں لفظ وحی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے کہ ان سے بات کی اور ثابت ہے کہ ولی اللہ کو کلام باری کا شرف نصیب ہوسکتا ہے اور وہ خود اس کے لیے دلیل بھی ہے ہاں نبی سے جو کلام ہوتا ہے وہ ساری امت کے لیے دلیل ہوتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے فرمایا کہ انہیں دودھ پلاؤ اور پاس رکھو جب تک کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا پھر اگر فرعون کے سپاہیوں سے خطرہ ہو تو اسے صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈال دینا اور یہ ڈر نہ رکھنا کہ کہیں دریا میں ہی ہلاک نہ ہوجائے یا بچھڑ تو بحرحال جائے گا ایسا کچھ نہ ہوگا بلکہ ہم اسے واپس تمہاری گود میں دیں گے اور یہ زندہ بھی رہے گا اور اسے اپنا رسول بنائیں گے۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ دریا میں بہتا ہوا وہ صندوق فرعون کے اہل خانہ نے پکڑ لیا کہ دریا سے نہر کاٹ ک محلات سے گزاری گئی تھی پانی بہا کر ادھر لے گیا فرعون کی اہلیہ کی نظر پڑی تو اٹھوا لیا وہ یہ نہ جان سکی کہ یہ تو فرعونی سلطنت کی تباہی کا سبب اور سب سے بڑا دشمن بنے گا بیشک فرعون ہامان اور ان کے لاؤ لشکر غلطی پر تھے بھلا قدرت باری سے مقابلہ کیسا فرعون نے دیکھا تو قتل کا ارادہ کرلیا کہ یقینا کسی اسرائیلی عورت نے قتل کے خوف سے پھینکا ہوگا مگر اس کی اہلیہ جو کہ بےاولاد تھی کہنے لگی کہ اللہ نے ہمیں یہ چاند سا بچہ عطا کیا ہے میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا اور بڑا ہو کر ہماری خدمت کریگا ہم اسی کو بیٹا بنا لیں گے۔ لیکن وہ اس بات کو نہ جان سکے کہ یہ بڑا ہو کر کیا بننے والا ہے۔ اور تم مجھ سے یہ توقع رکھو کہ تمہیں اللہ کے سوا کسی دروازے پہ لے جاؤن گا قطعاً غلط ہے تم نہیں دیکھتے اللہ کریم نے تمہیں ایک زمانے پر فضیلت بخشی ہے فرعون اور اس کی قوم کس طرح عذاب کی صورت میں تم پر مسلط تھے حتی کہ تمہارے بچوں کو ذبح کردیتے اور بچیاں اپنی غلامی کے لیے رکھ لیتے تھے مگر تم اس قدر کمزور تھے کہ شکایت بھی نہ کرسکتے تھے پھر اللہ کریم نے تمہاری مدد فرمائی فرعون اور اس کی قوم کو غرق دریا کردیا اور ملک کو تمہارے لیے خالی کرالیا اور تم معزز اور حکمران بنا دئیے گئے بھلا تمہیں زیب دیتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کے در پہ جھکنے کی سوچو۔
Top