Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 182
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : آہستہ آہستہ ان کو پکڑیں گے مِّنْ حَيْثُ : اس طرح لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہ جانیں گے (خبر نہ ہوگی)
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ان کو ہم جلد ہی درجہ بدرجہ (گمراہی میں) لے جائیں گے ایسے طریقے سے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی
رکوع نمبر 23 ۔ آیات 182 ۔ تا۔ 188 اسرار و معارف : جو لوگ کفر یا انکار کی راہ اختیار کرتے ہیں برائی کا راستہ اپنا لیتے ہیں وہ آہستہ دست قدرت کی سخت گرفت میں آ رہے ہوتے ہیں مگر خود انہیں پتہ تک نہیں چلتا۔ استدرج : استدراج کا معنی تو آہستہ آہستہ کسی کام کرنے مگر اصطلاح شریعت میں ہر وہ کمال جو غفلت میں مبتلا کردے اور آہستہ آہستہ تباہی کی طرف لے جا رہا ہو جیسے بعض شعبدے کسی کو راہ حق میں مصیبت سے گھبرانا درست نہیں کیا لوگوں کا یہ گمان ہے کہ صرف یہ کہ دینے سے کہ ہم مومن ہیں وہ چھوٹ جائیں گے اور ان پر کوئی آزمائش نہ آئے گی یقینا آزمائش ضرور آئے گی بلکہ ان سے پہلی ساری امتوں کو آزمایا گیا اور اللہ نے کھرے اور کھوٹے سچے اور جھوٹے کو الگ الگ ثابت کردیا۔ آج کے مسلمان کا جو خیال ہے کہ کوئی ایسا راستہ ہو کہ اسلام پر بھی کاربند رہا جائے اور کافر بھی ناراض نہ ہوں اور کوئی مصیبت بھی کھڑی نہ کردیں یہ خیال خام ہے جو بھی حق پر عمل پیرا ہوگا اس کی آزمائش ضرور ہوگی ہاں کفار یہ نہ جان لیں کہ وہ برای کر کے اللہ کی گرفت سے بچ جائیں گے ان کی یہ سوچ بالکل غلط اور بری ہے یعنی وہ مغلوب ہوں گے اور دنیا میں بھی انجام کار مومن غالب ہوگا اور آخرت کا عذاب تو یقینی ہے۔ مومن کی زندگی : اور مومن جو وصال الہی کی امید پر زندگی گزارتا ہے کہ کافر کے کیے جو موت کہلاتی ہے اور بہت خوفناک نظر آتی ہے مومن کے لیے حضوری کی گھڑی اور نوید مسرت ہوتی ہے یعنی مومنانہ زندگی یہ ہے کہ اللہ سے ملاقات کے لیے زندہ رہا جائے تو ایسے لوگوں کو یقین کے ساتھ جان لینا چاہیے کہ اللہ کا وعدہ آرہا ہے اور اللہ سب کی بات سننے والا اور سارے حالات جاننے والا ہے۔ مجاہدہ انسان کی ضرورت ہے : اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ دین کے لیے بہت قربان کر رہا ہے اور بہت بڑے مجاہدے سے گزر رہا ہے تو اس کی اپنی ضرورت ہے اور خود اسی کو اس کا فائدہ ملے گا۔ اللہ تو تمام جہانوں سے بےنیاز ہے وہ کسی کی عبادت یا مجاہدے کا محتاج اور ضرورت مند نہیں۔ بلکہ جو لوگ صحیح عقیدہ اختیار کر کے نیک عمل میں بھی کوشاں رہتے ہیں ان سے اگر غلطی ہوگئی یاکمی رہ گئی تو اللہ اپنی رحمت عامہ سے اس کی تلافی فرما کر انہیں ان کے نیک اعمال کا اجر اعمال کی نسبت بہت اعلی عطا فرمائیں گے لہذا مجاہدے سے گھبرانا نہ چاہیے۔ عقیدہ کی اہمیت : اور جہاں تک عقیدے کا تعلق ہے تو اس کی اہمیت اتنی ہے کہ خود اللہ نے والدین سے حسن سلوک کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اگر وہ بھی یہ کہ دیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو یا کفریہ بات جس کا حق ہونا ثابت نہ ہو ماننے کا حکم دیں تو ان کا حکم ماننے سے بھی انکار کردیا جائے اور اے مخاطب ان کی یہ بات ہرگز مت ماننا اس لیے کہ تجھے واپس میری بارگاہ میں لوٹ کر آنا ہے جہاں اللہ کسی سے پوچھنے کا محتاج نہ ہوگا بلکہ آنے والے کو اس کے اعمال کی خبر دی جائے گی۔ اور یقینا جو لوگ نیکی پر کاربند رہے ان کا شمار نیک اور صالح لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ اور کچھ لوگوں کا تو حال ایسا ہے کہ اپنے مسلمان ہونے کا تو اقرار کرتے ہیں مگر اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف پیش آئے تو یا کفار کوئی دباؤ ڈالیں تو گھبرا جاتے ہیں جیسے اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے کہ اس کا نہ تو جواب ہوسکتا ہے اور نہ برداشت کیا جاسکتا ہے مگر یہ کفار سے ڈر کر ان کی بات مان لیتے ہیں۔ اور جب اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے یا کوئی فائدہ نظر آتا ہے تو کہ اٹھتے ہیں کہ ہم بھی تو آپ کے ساتھ ہیں۔ کیا انہیں احساس نہیں کہ اللہ تو سب جہانوں کی مخلوق کے دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے اور یہ بھی کہ مشیت باری اسی جہان میں ایمانداروں اور منافقین کو الگ الگ کر دے گی۔ کفار اسلام کی راہ سے ہٹانے کے کئی حیلے کرتے ہیں جو ان کی طاقت اور رعب میں نہ آئے اسے کہتے ہیں بھئی تم ہماری راہ اختیار کرلو قیامت کو تمہارے گناہوں کا ذمہ ہم لے لیتے ہیں لہکن یہ بہت بڑا جھوٹ ہے وہ ہرگز کسی کا بوجھ نہ بانٹیں گے بلکہ ان کے اپنے کفر کا بوجھ ہی بہت بھاری ہوگا جبکہ دوسروں کو کفر کی دعوت دینے کا بوجھ بھی ان پر لادا جائے گا اور اس جھوٹ کی پرسش ان کے لیے بہت بڑی مصیبت بن جائے گی ۔ کفر کی دعوت کا بوجھ : جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بولتے ہیں یہاں ثابت ہے کہ کفر کی دعوت دینا بھی بہت بڑا کفر ہے اور اگر کوئی عملا کفار کی غلامی پر لوگوں کو آمادہ کرے کہ دنی ا میں نقصان اٹھاؤ گے تو وہ بھی بہت بڑا گناہگار ہے اور کافروں کی غلامی میں انسان نقصان سے بچ نہیں سکتا بلکہ نقصان کے ساتھ ذلت میں بھی پھنس جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو عملا کفر کی غلامی کا مشورہ دیں اور جو سیاستدان یہ کہتے ہیں کہ سود کے بغیر زندہ رہنا محال ہے یا اسلامی سزائیں وحشیانہ ہیں ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آپ ﷺ کی دعوت پر کفار مسلمانوں کا راستہ روکنے کے حربے استعمال کرنے لگے یا انہیں ایذا دینے کے درپے ہیں یا آج کے زمانے میں ایسا ہورہا ہے بلکہ یہ سب کچھ زمانہ قدیم سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے لیکن کفار کی سب تدبیروں کے باوجود فتح ہمیشہ دین دار لوگوں کو نصیب ہوئی جیسے نوح (علیہ السلام) کا واقعہ کہ ہم نے انہیں ان کی قوم میں مبعوث فرمایا کہ ان کی قوم ان کے حسب نسب اور عالی کردار سے خوب واقف تھی۔ انہوں نے نو سو پچاس برس مسلسل تبلیغ کی اور نیکی کی دعوت دی اور اتنا طویل عرصی کفار کے ایذا اور ان کے طعنے برداشت کیے مگر انہوں نے مان کر جواب نہ دیا تو اللہ کا عذاب آیا اور تمام کفار کو طوفان نے گھیر کر غرق کردیا کہ وہ بہت بڑے ظالم تھے اپنی ساری طاقت دولت اور تدبیریں لے کر غرق ہوگئے ان کے کام نہ آسکیں اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان سے بھی اور طوفان سے بھی محفوظ کردیا بلکہ جتنے لوگ بھی ایمان لاکر ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے سب سلامت رہے اور سب عالم کے لیے ایک معجزہ قرار پائے۔ ایسے ہی ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھ لیجیے کہ جب وہ مبعوث ہوئے اور قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور کاروبار حیات میں اللہ کی اطاعت اختیار کرو تمہاری دنیا کی اور آخرت کی بہتری اسی میں ہے خوب سمجھ لو۔ بھلا تم اللہ کی عبادت سے محروم ہو کر بت خانے سجائے بیٹھے ہو اور بتوں کے بارے جھوٹے قصے اور باطل عقیدے تراش رکھے ہیں۔ ان بتوں کو دیکھو جن کی تم عبادت کرتے ہو یہ تو تمہیں ایک دانہ گندم بھی نہیں دے سکتے۔ تمہیں دنیا ہی کی بھلائی مطلوب ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے پاس نصیب ہوسکتی ہے۔ تم اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرنے کا راستہ اپناؤ تاکہ دنیا میں بھی فائدہ حاصل کرو اور پھر آخرت میں تو اسی کی بارگاہ میں جانا ہی ہے۔ علم غیب : دوسرے یہ بات قابل توجہ ہے کہ انبیاء کا موضوع ہی غیب سے متعلق ہے کہ فرشتے برزخ آخرت اور خود ذات باری جو سب سے بڑا غیب ہے تو تمام غیوب سے ساری مخلوق کو مطلع فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ علم غیب نہیں رکھت تو یہ سب باتیں اللہ کی طرف سے انبیاء کو بتائی جاتی ہیں اور جتنی بھی کسی کو بتائی گئیں سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کو بتائی گئیں آپ کا علم اولین و آخرین کے علوم سے بھی زیادہ ہے مگر اس کو غیب پر اطلاع دینا کہا گیا یعنی اطلاع علی الغیب اور علم غیب وہ ہے جس کے حصول میں کوئی واسطہ نہ ہو یہ صرف اللہ کریم کو سزاوار ہے ہاں شان نبوت یہ ہے کہ نیک و بد بھلائی اور برائی کا نہ صرف پتہ چلا جائے بدی سے بچنا نصیب ہوجائے ہاں یہ نعمت یقینا انہی کو نصیب ہوسکے گی جو ایمان لائیں گے کہ نبی سے اخذ فیض کی بنیاد ایمان ہے۔
Top