Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 189
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جو۔ جس خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : جان وَّاحِدَةٍ : ایک وَّجَعَلَ : اور بنایا مِنْهَا : اس سے زَوْجَهَا : اس کا جوڑا لِيَسْكُنَ : تاکہ وہ سکون حاصل کرے اِلَيْهَا : اس کی طرف (پاس) فَلَمَّا : پھر جب تَغَشّٰىهَا : مرد نے اس کو ڈھانپ لیا حَمَلَتْ : اسے حمل رہا حَمْلًا : ہلکا سا خَفِيْفًا : ہلکا سا فَمَرَّتْ : پھر وہ لیے پھری بِهٖ : اس کے ساتھ (اسکو) فَلَمَّآ : پھر جب اَثْقَلَتْ : بوجھل ہوگئی دَّعَوَا اللّٰهَ : دونوں نے پکارا رَبَّهُمَا : دونوں کا (اپنا) رب لَئِنْ : اگر اٰتَيْتَنَا : تونے ہمیں دیا صَالِحًا : صالح لَّنَكُوْنَنَّ : ہم ضرور ہوں گے مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
وہ (اللہ) ہی ہے جس نے تم کو فرد واحد سے پیدا فرمایا اور اس سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ اس سے انس (راحت) حاصل کرے پھر جب اس (میاں) نے اس سے قربت کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا پس وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں (میاں بیوی) اللہ سے جو ان کے پروردگار ہیں دعا کرنے لگے کہ اگر آپ نے ہمیں تندرست اولاد عطا فرمائی تو ہم ضرور آپ کے شکر گزار ہوں گے
رکوع نمبر 24 ۔ آیات 189 ۔ تا۔ 206 جہاں تک علوم غیبیہ اور نفع و نقصان کا تعلق ہے تو یہ اوصاف تو اس ذات حمید کے ہیں جس نے تمہیں ایک وجود یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا فرمایا اور ایسا کریم ہے کہ انسان کی نسل بقا کے لیے اسی وجود میں سے اس کا جوڑا یعنی حوا کو پیدا فرما کر ان میں باہمی محبت و الفت اور ایک لذت وصال رکھ دی کہ انسان نہ صرف بقائے نسل کا کام کرے بلکہ ایک دوسرے سے انس اور روحت بھی حاصل کریں۔ یہ اس کے احسانات ہیں۔ مگر انسانوں کا یہ حال ہے کہ مرد و عورت جمع ہوئے اور حمل قرار پا گیا اب خالق کو اس کا علم ہے جس کی پشت میں تھا وہ بیخبر رہا جس کے پیٹ میں پہنچا اسے پتہ نہیں بغیر کسی پرواہ کے روز مرہ کے امور میں لگی ہے ہاں جب حمل کا ثقل محسوس ہوا تو جانا اور میاں بیوی دونوں فکر مند ہوگئے اب وہ نہیں جانتے بچہ ہوگا یا بچی خوبصورت ہوگا یا بدشکل نیک ہوگا یا بدلمبی عمر پائے گا یا مختصر دنیا میں آرام سے بسر کرے گا یا غربت و افلاس سے دو چار ہوگا تو لگے اللہ کو پکارنے ان کے اندر یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اب کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا کہ اے اللہ ہمیں ہر طرح سے بہتر اولاد عطا کر عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب اللہ سالم تندرست و توانا اولاد عطا فرما دیتے ہیں تو ان کے اعتقادات بدلنے لگتے ہیں اور دوسروں کو اللہ کی عظمت اور صفات میں شریک بنانے لگتے ہیں جیسے کسی نے گمان کرلیا کہ بچہ ولی یا پیر نے عطا کیا ہے لہذا اسے کسی زندہ یا فوت شدہ بزرگ کی طرف منسوب کرتے ہیں یا کسی بت اور دیوی دیوتا کا دان سمجھ کر اس کے سامنے بچے کا ماتھا بھی زمین پہ رکھک دیتے ہیں حالانکہ اللہ کریم ایسے شرک وغیرہ سے بہت ہی بلند ہے اور مخلوق کے پیدا کرنے یا بچے کے بنانے سنوارنے میں کوئی اس کا شریک نہیں نہ اسے کسی کی احتیاج ہے۔ بت یا دنیا دار پیر کا حال : کیسے نادان ہیں کہ ان کا خالق کا شریک سمجھ لیتے ہیں جو خود مخلوق ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے بلکہ خود ان کی مدد کے محتاج رہتے ہیں یعنی اپنی مدد نہیں کرسکتے دوسرے کی کیا کریں گے اگر یہ بات بت کی طرف منسوب کی جائے تو واضح ہے کہ وہ خود انسانی تراش خراش کے محتاج بھی تھے اور پھر انسانی تحفظ کے طالب بھی ہیں لیکن اگر دنیا دار پیر مراد لیے جائیں جیسا کہ یہود و نصاری میں راہب وغیرہ تھے جو لوگوں کو گمراہ کرتے رہے یا مسلمانوں میں ایسے لوگ کہ ان کا اپنا عقیدہ تک درست نہیں عمل کیا کریں گے اور پیر بن کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور مرید سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ یہی عطا کر رہے ہیں تو ان کا حال بھی بتوں سے کچھ مختلف نہیں ایسے لوگ بلاشبہ مخلوق بھی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی معروف طریقے سے اپنی روزی حاصل کرنے کی سعی بھی نہیں کرتا بلکہ مریدوں کے عطایا پہ نظر رہتی ہے تو جو لوگ اپنی مدد نہیں کرسکتے اپنا بوجھ دوسروں پر ڈال کر زندہ ہیں بھلا دوسروں کو کیا عطا کریں گے ؟ بلکہ یہ تو ایسے گئے گزرے ہوتے ہیں کہ ان کی ہدایت کے لیے محنت کرتے رہو انہیں سیدھے راستے کی طرف بلاتے بھی رہو تو بات مان کر ہی نہیں دیتے بلکہ کسی کا پکارنا یا نہ پکارنا ان کے کے لیے ایک سا اثر رکھتا ہے اور بت کا حال تو واضح ہے کہ وہ کیا سنے گا انسان بھی جو اس طرح گمراہی پہ جم جاتے ہیں ان پر اثر نہیں ہوتا میری مراد نیک حضرات کی سوء ادبی ہرگز نہیں اور یہ قطعی بات ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت کے بغیر دین آتا ہی نہیں مگر جعلسازوں سے بچنا بھی اشد ضروری ہے۔ جو لوگ اللہ کا دروازہ چھوڑ کر کسی دوسرے سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور اسے پکارتے ہیں یا بتوں کو یاد کرتے ہیں تو وہ اتنی بات نہیں سمجھ سکتے کہ وہ بھی تو انہی کی طرح بندے اور مخلوق ہیں اور مخلوق کا خاصہ تو محتاجی ہے بھلا حاجت روا کیسے بن سکتی ہے اور اگر تمہارا یہ گمان ہے تو ذرا ان کو پکارو اور وہ تمہاری مرادیں پوری تو کردیں اور غائبانہ امداد کا سامان تو کریں کہ تمہارے عقیدے کی سچائی کا پتہ چل سکے ۔ تمہارا کیا کریں گے کیا ان بتوں کے پاؤں ہیں جو چل سکیں یا ہاتھ ہیں کہ کسی چیز کو تھام سکیں یا آنکھیں کہ کچھ دیکھ سکیں یا کان ہیں کہ سن ہی لیں جب ان کے پاس ظاہری اعضا بھی نہیں کہ عالم اسباب میں تو کچھ کریں تو کسی کو پیدا کرنا یا موت دینا رزق دینا یا صحت عطا کرنا تو بہت دور کی باتیں ہیں اور عموماً دنیا دار پیر بھی ایسے ہی عاجز ہیں کہ خود اپنا کام نہیں کرسکتے کسی کا غائبانہ کیا کریں گے۔ جنات و شیاطین سے حفاظت : فرمایا اے میرے حبیب ان سے کہیے کہ اگر بت ہی کچھ کرسکتے ہیں یا جن طاقتوں کو تم اللہ کریم کا شریک گمان کرتے ہو کچھ سنوارنے کی طاقت رکھتی ہیں تو پھر ان سے کہو کہ میں پوری شدت سے انکار کر رہا ہوں ذرا میرا کچھ بگاڑ کر دکھا دیں اور کوئی لحاظ نہ کریں مگر یہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اس لیے کہ میرا محافظ اور میرا ولی تو اللہ ہے جس قرآن نازل فرمایا اور وہ ایسا کریم ہے کہ ہر نیک اور صالح مسلمان کی مدد حفاظت اور حمایت کرتا ہے تو اس سے پتہ چلا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی حمایت حاصل نہ ہو تو شیاطین و جنات تکلیف دے سکتے ہیں اور اس ولایت و حمایت سے مراد وہ قلبی تعلق ہے جو صحبت شیخ میں نصیب ہوتا ہے اور جس سے لطیفہ قلب منور ہو کر قوت حاصل کرلیتا ہے ایسے وجود کو جنات ایذا نہیں دے سکتے کہ وہ انوارات ان کو جلاتے ہیں اور جنوں میں انہیں برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی اور اللہ کریم کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے یا جن بتوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں وہ خود اپنی مدد نہیں کرسکتے کہ خود اپنی حفاظت ہی کرلیں تو پکارنے والوں کی مدد کیا خاک کریں گے بلکہ انہیں تو کسی بھلے کام کا مشورہ بھی دو اور ہدایت کی طرف دعوت بھی دی جائے تو وہ نہیں سنتے اور یوں نظر آتا ہے جیسے دیکھ رہے ہوں مگر دیکھ بھی نہیں سکتے یہی حال کفار کے ان رہنماؤں کا تھا کہ نہ ہدایت کی بات ان کی سمجھ میں آتی اور نہ ان کی نگاہ میں قوت باقی تھی کہ آپ ﷺ کے جمال سے سیراب ہوتی وہ دیکھتے تو محمد بن عبداللہ نظر آتے مگر محمد رسول اللہ انہیں دکھائی نہ دیتے گناہ سے نگاہ میں فساد آجاتا ہے اور انسان آپ کے جمال سے محروم ہو کر مسلسل گناہ میں مبتلا رہتا ہے اگر کبھی نگاہوں کو جلا نصیب ہو اور آپ کا جمال جہاں تاب نظر آئے تو بھلا کیسے نافرمانی کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے۔ معیار عبادت : حق تو یہ ہے کہ انسان آپ کی غلامی میں جان لڑا دے مگر اے میرے حبیب آپ لوگوں پہ اتنے اعلی معیار کی کڑی شرط نہ رکھیں بلکہ جس قدر ذوق سے کوئی اطاعت کرسکے اسی کو قبول فرما لیں نہ ہر آدمی کو وہ دقت نظر نصیب ہے اور نہ جذب دروں کی ایسی حالت تو جس قدر بھی کوئی خواہ سرسری طور پر اطاعت کرے قبول فرما لیں کہ لوگوں کی بخشش کا بہانہ بنتا چلا جائے اور دوسری مراد یہ ہے کہ اطاعت نہ کرنے اور ایذا دینے والوں سے بھی ممکن حد تک درگزر فرمائیں اور خفا نہ ہوا کریں بلکہ نیکی کا حکم فرماتے رہیں یعنی سب کے لیے بھلائی کی دعوت و تربیت جاری رکھیں پھر بھی اگر کوئی جہالت کی وجہ سے درپئے آزار ہو تو اس سے کنارہ کرلیں۔ یہ اصول تبلیغ ہیں کہ لوگ جس طرح آسانی سے عبادات ادا کرتے ہوں انہیں قبول کیا جائے اور ہر آدمی پر عبادات کو دشوار اور تنگ نہ کردیا جائے اور زیادہ کرید اور تجسس نہ کیا جائے کہ اس کے دل کا کیا حال ہے وغیرہ ذلک نیز اللہ کریم کی رضا کیلئے پیار اور محبت سے تربیت کا کام ہمیشہ جاری رکھا جائے اور نیکی اور بھلائی کی دعوت میں کمی نہ آئے نیز اگر کوئی خواہ مخواہ الجھنا چاہے تو بےسود مناظروں میں نہ الجھا جائے بلکہ ان سے دامن بچانا چاہئے اور جہلا کے ساتھ وقت برباد نہ کرنا چاہئے ہاں اگر اسلام یا مسلمانوں کو خطرہ پیدا ہوجائے تو دفاع کرنا جہاد اور فرض ہوجائے گا۔ اگر کبھی غصہ آنے لگے تو فوراً اللہ سے پناہ مانگیں کہ غصہ شیطانی وساوس میں سے ہے اور شیطان سے بچنے ا سب سے آسان نسخہ اللہ کریم سے پناہ مانگنا ہے کہ وہ سنتا بھی ہے اور ہر آن ہر شے سے آگاہ بھی ہے۔ یہہاں بھی ایسا ہی غصہ مراد ہے جو اپنی ذات کے لیے آئے اگر دینی امور پر غصہ آئے اور انسان برائی کے مقابلہ کے لیے جوش و جذبے سے کوشاں ہو تو یہ اللہ کی دی ہوئی توفیق ہے لیکن بعض اوقات لوگوں کی طعن وتشنیع اور جاہلانہ الزامات سے بہت دکھ ہوتا ہے اور اپنی ذات کا دفاع کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو عموماً جھگڑے اور فساد کا باعث بنا کرتا ہے لہذا ایسا جوش وساوس ابلیس میں سے ہے فوراً تعوذ پڑھا جائے تو طبیعت سنبھل جاتی ہے جن لوگوں کو دل کا حال حاصل ہے یعنی تقوی اور بصریت قلبی ، اگر ان کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آئے کہ شیطان انہیں بہکانے لگے تو فوراً اللہ کریم کا ذکر شروع کردیتے ہیں یاد لاہی میں لگ جاتے ہیں۔ صاحب بصیرت لوگ : اور اس کی برکت سے ان کے دل روشن ہو کر حقیقت الامر کو پا لیتے ہیں اور شیطان کے فریب سے بچ جاتے ہیں اور دوسرے لوگ جنہوں نے شیاطین کی غلامی ہی اپنا رکھی ہے اور نہی کے بھائ یبن رہے ہیں تو شیاطین انہیں مزید گمراہی کی دلدل میں ہی کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ بہت بڑا معجزہ : بعض اوقات خاص خاص معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں اور وہ مطالبہ پورا نہ ہو تو نبوت و رسالت کا انکار کرتے ہیں جبکہ آپ کے معجزات تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے زیادہ تھے اور جب بیشمار معجزات سے آپ کی رسالت ثابت ہوچکی تو یہ محض ضد اور ہٹ دھرمی ہے کہ فلاں بات ظاہر ہو تو مانیں گے جیسے کوئی عدالت میں مطلوبہ شہادت پیش کردے گی مگر مدعی مطالبہ کرے کہ نہیں فلاں فلاں آدمی شہادت دیں تب بات ہوگی تو ظاہر ہے اس کی اجازت نہ دی جائے گی یہی بات یہاں ہے بلکہ ان سے کہئے کہ میں اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو اللہ کی طرف سے مجھ پر اتاری جاتی ہے اور یہ وحی کتاب بہت بڑا معجزہ ہے آپ کی ذات آپ کا جمال آپ کے کمالات کے ساتھ یہ کتاب جس میں زندگی گزارنے کا ہر قاعدہ اور ضرورت کے ہر کام کی صحیح انداز میں رہنمائی موجود ہے اور رحمت الہی کے ساتھ یعنی آسان ترین انداز میں۔ مگر یہ سب فائدے تو جب نصیب ہوں جب کوئی مانے بھی۔ یعنی یہ انعامات تو ایمان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جب قرآن حکیم پڑھا جا رہا ہو تو پوری توجہ سے سنا جائے اور نہایت خاموشی کے ساتھ تاکہ پوری توجہ اسی طرف رہے اور سننے میں متوجہ ہونے سے مراد ہے کہ سن کر اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش ہوتا کہ تمہیں اللہ کی رحمت نصیب ہو۔ تلاوت قرآن مجید کے آداب : نماز میں خاموش رہ کر سنا تو جاتا ہے ساتھ متوجہ بھی رہنا چاہئے۔ خطبہ جمعۃ المبارک میں بھی کلام جائز نہیں اور نہ سنت وغیرہ پڑھی جائے۔ ہاں علماء کے نزدیک یہ سننا اور کان لگانا اسی صورت میں واجب ہے جب سنانے ک ےلیے پڑھا جا رہ اہو اگر چند لوگ کسی جگہ بیٹھ کر تلاوت کر رہے ہوں تو ایک دوسرے کے لیے خاموشی کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی ممکن ہے اور عملاً سنانے کے لیے ایسے حال میں نہ پڑھا جائے کہ لوگوں کے لیے سننا ممکن ہی نہ ہو جیسے مساجد سے لاؤڈ سپیکر پہ ساری ساری رات تلاوت ہوتی ہے یا ایسے مجمع میں جہاں لوگ گپ ہانک رہے ہوں ریڈیوں وغیرہ سے قرآن کا درس اونچی آواز میں لگانا کہ اس طرح کرنے والا بےادبی کا مرتکب ہوگا نیز اس طرح تلاوت کرنا بھی جائز نہیں جو کسی دوسرے کی عبادت یا آرام میں مخل ہو اور جب کہیں سے بھی تلاوت کی آواز آئے تو بہتر طریق یہی ہے کہ خاموش رہا جائے اور توجہ سے سنا جائے۔ ذکر الہی کی تاکید اور طریقہ ذکر۔ اور آخر میں ذکر الہی کی تاکید اور طریقہ ارشاد ہوتا ہے کہ تمام مسلمانوں سے فرما دیجئے اللہ کریم کا ذکر کیا کریں قرآن کی تلاوت کریں تسبیحات پڑھیں یا ذکر قلبی حاصل کرلیں تو سب ہی اس میں داخل ہوں گے چونکہ تلاوت اور ذکر کے آداب ایک جیسے ہیں۔ نیز یہاں مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں کہ اس سے جمہور کے نزدیک مظلق ذکر اللہ مراد ہے۔ سب سے بہترین صورت یہ ارشاد ہوئی کہ اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کیا کر نہایت عجز سے اور اس کی عظمت کے پیش نظر اپنی بےبسی کو دیکھ کر ڈرتے لرزتے ہوئے۔ یا پھر اگر پکار کرنا چاہے تو نہایت دھیمی آواز سے یعنی چیخ چیخ کر یا لاؤڈ اسپیکر پہ نہ کرے۔ ذکر خفی : اس سے مراد قلبی ذکر ہے جس میں زبان شامل ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ اس تزکیہ کے طفیل نصیب ہوتا ہے جو آپ کے فرائض نبوت میں سے ہے کہ مھض آپ کی مجلس عالی میں حاضر ہونے والا مومن بیک نگاہ شرف صحابیت سے مشرف ہوجاتا ہے اور صحابہ کا یہ شان خود قرآن میں بیان ہوا ہے کہ ان کے وجود کھال سے لے کر دل تک ذاکر ہوگئے تھے اور یہی دولت صحابہ کی مجالس میں تابعین کو نصیب ہوئی پھر نسلاً بعد نسلً یہ کیفیات قلبی اہل اللہ سے سینہ بسینہ منتقل ہو کر خلق خدا کے دلوں کو سیراب کرتی رہیں جب دل ذاکر ہوجاتا ہے تو پھر کوئی لمحہ ذکر سے غافل نہیں رہتا آدمی کام کر رہا ہو یا آرام سفر ہو یا حضر دل کی ہر دھڑکن کئی کئی بار اللہ تعالیٰ کا نام پکارتی ہے اور اسی سے حقیقی تفکر نصیب ہوتا ہے جسے مراقبہ بھی کہا جاتا ہے کہ گردن نیچی کرکے کیفیات میں کھوجانے کو مراقبہ کا نام دیا گیا یہ بہت عظیم نعمت ہے اور جب یہ نصیب ہوا تو عبادات اور اعمال کی لذات کو یہاں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے نیز گناہ کی کراہت بھی متشکل نظر آسکتی ہے۔ ذکر جہر : دوسرا طریقہ ذکر جہر ہے جسے ذکر لسانی بھی کہتے ہیں اور جو زبان سے کیا جاتا ہے تلاوت ہو یا مختلف تسبیحات یا اسم ذات کا زکر اسے زبانی کرنا بھی درست ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دھیمی آواز سے دون الجہر یعنی شور کے بغیر کیا جائے جس سے خود کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ نصیب ہو اور کسی بھی دوسرے آدمی کی عبادات ، آرام یا نیند میں خلل نہ آئے اور لوگوں کو سنا کر ریا کا مرتکب نہ ہوا جائے یاد رہے مختلف سلاسل میں ذکر لسانی کرایا ضرور جاتا ہے مگر صرف مبتدی کو اور متوجہ کرنے کے لیے آخر کار اسے بھی ذکر قلبی اور خفی سکھایا جاتا ہے لہذا ذکر کے دونوں طریقے اپنے آداب کے ساتھ درست اور جائز ہیں۔ اور یہی حکم تلاوت کا بھی ہے نیز نماز میں بھی اسی حد تک جہر کی اجازت ہے اور یہی آداب تلاوت ضروری ہیں۔ ذکر کتنی دیر کیا جائے اور کس وقت کیا جائے : تو فرمایا۔ بالغدو والاصال۔ یعنی صبح اور شام۔ یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ صبح اور شام دو وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر ضرور کیا جائے اور اس کا اہتمام کیا جائے مگر حقیقی معنی یہ ہوگا کہ صبح شام بول کر رات دن۔ اور ہر وقت مرد لیا جائے جیسا کہ حضرت عائشۃ الصدیقۃ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر حال میں اور ہر آن ذکر کیا کرتے تھے نیز جب ذکر قلبی مراد ہوگا تو پھر اس میں وقفہ آنے کا سوال پیدا نہیں ہوت وہ تو رات دن سوتے جاگتے چلتے پھرتے ہر حال میں جاری رہے گا اسی لیے ذکر لسانی اور جہری سے حصول ذکر قلبی ہی مراد ہوتا ہے اور یہ یاد رہے کہ قلبی اور خفی ذکر صر فصحبت شیخ سے نصیب ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کے حصول کا کوئی راستہ نہیں اور قلبی ذکر کا ہر حال ذکر لسانی بھی بہت بہتر طور پر کرتا ہے مگر ہر ذکر لسانی کرنیوالا ضروری نہیں کہ ذکر قلبی کو پا لے کہ یہ نور دل کو منعکس ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جب تک کوئی حدود شرعیہ سے تجاوز نہ کرے جس طرح چاہے ذکر کرسکتا ہے اور اصل صورت حال یہ ہے کہ بندہ کبھی غافلوں میں شامل نہ ہو کوئی لمحہ ایسا نہ آئے کہ یاد الہی سے غفلت وارد ہو اس لیے کہ غفلت ہی موت ہے اور حضوری کا نام حیات ہے اور یہ دائمی یاد صرف ذکر قلبی ہی سے نصیب ہوسکتی ہے نہ کہ غفلت سے اس لیے ذکر ضروری ہے۔ اس کی بارگاہ کا خاصہ یہ ہے کہ جو جتنا قریب ہوتا ہے اتنا زیادہ عبادت میں کمر بستہ ہوجاتا ہے اور اس کے مقرب بندے ہوں یا فرشتے انبیاء ہوں یا اولیا اس کی عبادت کرنے سے تکبر نہیں کرتے۔ نہ عقاید کی اصلاح قبول کرنے میں انہیں کوئی چیز رکاوٹ بنتی ہے اور نہ عبادات کی ادائیگی میں ہمیشہ اس کی پاکیزگی اور عظمت بیان کرتے اور اسے یاد کرتے رہتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں سر بسجود رہتے ہیں۔ یہاں سدہ کہہ کر عبادات نافلہ مراد لی گئی ہیں اور سجدہ چونکہ عبادات میں ایک خاص حیثیت کا حامل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ بندہ کو سجدہ میں سب سے زیادہ قریب ہونا نصیب ہوتا ہے لہذا سجدہ میں دعا کیا کرو امام صاحب کے نزدیک تو کثرت سجود سے مراد کثرت نوافل ہے اس کے باوجود اگر صرف سجدہ کرکے دعا کی جائے تو بھی جائز ہے بہرحال مقربین بارگاہ عبادت سے مستغنی نہیں ہوجاتے جیسا کہ جاہلوں کا گمان ہوا ہے اور بےنمازوں کو بہت پہنچا ہوا سمجھ لیتے ہیں بلکہ مقربین تو کثرت سے عبادت کرتے اور سجدے کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں جنت میں جانے اور بلندی درجات کو پانے کے لیے کثرت سجود کا حکم موجود ہے یعنی نوافل کثرت سے پڑھا کرے اور ظاہر ہے نوافل پڑھنے والا فرائض و سنن تو اور حسن و خوبی سے ادا کرے گا۔ وفقنا اللہ تعالی۔ و صلی اللہ علی حبیبہ محمد والہ وصحبہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین
Top