Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 189
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ
: وہ
الَّذِيْ
: جو۔ جس
خَلَقَكُمْ
: پیدا کیا تمہیں
مِّنْ
: سے
نَّفْسٍ
: جان
وَّاحِدَةٍ
: ایک
وَّجَعَلَ
: اور بنایا
مِنْهَا
: اس سے
زَوْجَهَا
: اس کا جوڑا
لِيَسْكُنَ
: تاکہ وہ سکون حاصل کرے
اِلَيْهَا
: اس کی طرف (پاس)
فَلَمَّا
: پھر جب
تَغَشّٰىهَا
: مرد نے اس کو ڈھانپ لیا
حَمَلَتْ
: اسے حمل رہا
حَمْلًا
: ہلکا سا
خَفِيْفًا
: ہلکا سا
فَمَرَّتْ
: پھر وہ لیے پھری
بِهٖ
: اس کے ساتھ (اسکو)
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَثْقَلَتْ
: بوجھل ہوگئی
دَّعَوَا اللّٰهَ
: دونوں نے پکارا
رَبَّهُمَا
: دونوں کا (اپنا) رب
لَئِنْ
: اگر
اٰتَيْتَنَا
: تونے ہمیں دیا
صَالِحًا
: صالح
لَّنَكُوْنَنَّ
: ہم ضرور ہوں گے
مِنَ
: سے
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر کرنے والے
وہ (اللہ) ہی ہے جس نے تم کو فرد واحد سے پیدا فرمایا اور اس سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ اس سے انس (راحت) حاصل کرے پھر جب اس (میاں) نے اس سے قربت کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا پس وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں (میاں بیوی) اللہ سے جو ان کے پروردگار ہیں دعا کرنے لگے کہ اگر آپ نے ہمیں تندرست اولاد عطا فرمائی تو ہم ضرور آپ کے شکر گزار ہوں گے
رکوع نمبر 24 ۔ آیات 189 ۔ تا۔ 206 جہاں تک علوم غیبیہ اور نفع و نقصان کا تعلق ہے تو یہ اوصاف تو اس ذات حمید کے ہیں جس نے تمہیں ایک وجود یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا فرمایا اور ایسا کریم ہے کہ انسان کی نسل بقا کے لیے اسی وجود میں سے اس کا جوڑا یعنی حوا کو پیدا فرما کر ان میں باہمی محبت و الفت اور ایک لذت وصال رکھ دی کہ انسان نہ صرف بقائے نسل کا کام کرے بلکہ ایک دوسرے سے انس اور روحت بھی حاصل کریں۔ یہ اس کے احسانات ہیں۔ مگر انسانوں کا یہ حال ہے کہ مرد و عورت جمع ہوئے اور حمل قرار پا گیا اب خالق کو اس کا علم ہے جس کی پشت میں تھا وہ بیخبر رہا جس کے پیٹ میں پہنچا اسے پتہ نہیں بغیر کسی پرواہ کے روز مرہ کے امور میں لگی ہے ہاں جب حمل کا ثقل محسوس ہوا تو جانا اور میاں بیوی دونوں فکر مند ہوگئے اب وہ نہیں جانتے بچہ ہوگا یا بچی خوبصورت ہوگا یا بدشکل نیک ہوگا یا بدلمبی عمر پائے گا یا مختصر دنیا میں آرام سے بسر کرے گا یا غربت و افلاس سے دو چار ہوگا تو لگے اللہ کو پکارنے ان کے اندر یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اب کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا کہ اے اللہ ہمیں ہر طرح سے بہتر اولاد عطا کر عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب اللہ سالم تندرست و توانا اولاد عطا فرما دیتے ہیں تو ان کے اعتقادات بدلنے لگتے ہیں اور دوسروں کو اللہ کی عظمت اور صفات میں شریک بنانے لگتے ہیں جیسے کسی نے گمان کرلیا کہ بچہ ولی یا پیر نے عطا کیا ہے لہذا اسے کسی زندہ یا فوت شدہ بزرگ کی طرف منسوب کرتے ہیں یا کسی بت اور دیوی دیوتا کا دان سمجھ کر اس کے سامنے بچے کا ماتھا بھی زمین پہ رکھک دیتے ہیں حالانکہ اللہ کریم ایسے شرک وغیرہ سے بہت ہی بلند ہے اور مخلوق کے پیدا کرنے یا بچے کے بنانے سنوارنے میں کوئی اس کا شریک نہیں نہ اسے کسی کی احتیاج ہے۔ بت یا دنیا دار پیر کا حال : کیسے نادان ہیں کہ ان کا خالق کا شریک سمجھ لیتے ہیں جو خود مخلوق ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے بلکہ خود ان کی مدد کے محتاج رہتے ہیں یعنی اپنی مدد نہیں کرسکتے دوسرے کی کیا کریں گے اگر یہ بات بت کی طرف منسوب کی جائے تو واضح ہے کہ وہ خود انسانی تراش خراش کے محتاج بھی تھے اور پھر انسانی تحفظ کے طالب بھی ہیں لیکن اگر دنیا دار پیر مراد لیے جائیں جیسا کہ یہود و نصاری میں راہب وغیرہ تھے جو لوگوں کو گمراہ کرتے رہے یا مسلمانوں میں ایسے لوگ کہ ان کا اپنا عقیدہ تک درست نہیں عمل کیا کریں گے اور پیر بن کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور مرید سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ یہی عطا کر رہے ہیں تو ان کا حال بھی بتوں سے کچھ مختلف نہیں ایسے لوگ بلاشبہ مخلوق بھی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی معروف طریقے سے اپنی روزی حاصل کرنے کی سعی بھی نہیں کرتا بلکہ مریدوں کے عطایا پہ نظر رہتی ہے تو جو لوگ اپنی مدد نہیں کرسکتے اپنا بوجھ دوسروں پر ڈال کر زندہ ہیں بھلا دوسروں کو کیا عطا کریں گے ؟ بلکہ یہ تو ایسے گئے گزرے ہوتے ہیں کہ ان کی ہدایت کے لیے محنت کرتے رہو انہیں سیدھے راستے کی طرف بلاتے بھی رہو تو بات مان کر ہی نہیں دیتے بلکہ کسی کا پکارنا یا نہ پکارنا ان کے کے لیے ایک سا اثر رکھتا ہے اور بت کا حال تو واضح ہے کہ وہ کیا سنے گا انسان بھی جو اس طرح گمراہی پہ جم جاتے ہیں ان پر اثر نہیں ہوتا میری مراد نیک حضرات کی سوء ادبی ہرگز نہیں اور یہ قطعی بات ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت کے بغیر دین آتا ہی نہیں مگر جعلسازوں سے بچنا بھی اشد ضروری ہے۔ جو لوگ اللہ کا دروازہ چھوڑ کر کسی دوسرے سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور اسے پکارتے ہیں یا بتوں کو یاد کرتے ہیں تو وہ اتنی بات نہیں سمجھ سکتے کہ وہ بھی تو انہی کی طرح بندے اور مخلوق ہیں اور مخلوق کا خاصہ تو محتاجی ہے بھلا حاجت روا کیسے بن سکتی ہے اور اگر تمہارا یہ گمان ہے تو ذرا ان کو پکارو اور وہ تمہاری مرادیں پوری تو کردیں اور غائبانہ امداد کا سامان تو کریں کہ تمہارے عقیدے کی سچائی کا پتہ چل سکے ۔ تمہارا کیا کریں گے کیا ان بتوں کے پاؤں ہیں جو چل سکیں یا ہاتھ ہیں کہ کسی چیز کو تھام سکیں یا آنکھیں کہ کچھ دیکھ سکیں یا کان ہیں کہ سن ہی لیں جب ان کے پاس ظاہری اعضا بھی نہیں کہ عالم اسباب میں تو کچھ کریں تو کسی کو پیدا کرنا یا موت دینا رزق دینا یا صحت عطا کرنا تو بہت دور کی باتیں ہیں اور عموماً دنیا دار پیر بھی ایسے ہی عاجز ہیں کہ خود اپنا کام نہیں کرسکتے کسی کا غائبانہ کیا کریں گے۔ جنات و شیاطین سے حفاظت : فرمایا اے میرے حبیب ان سے کہیے کہ اگر بت ہی کچھ کرسکتے ہیں یا جن طاقتوں کو تم اللہ کریم کا شریک گمان کرتے ہو کچھ سنوارنے کی طاقت رکھتی ہیں تو پھر ان سے کہو کہ میں پوری شدت سے انکار کر رہا ہوں ذرا میرا کچھ بگاڑ کر دکھا دیں اور کوئی لحاظ نہ کریں مگر یہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اس لیے کہ میرا محافظ اور میرا ولی تو اللہ ہے جس قرآن نازل فرمایا اور وہ ایسا کریم ہے کہ ہر نیک اور صالح مسلمان کی مدد حفاظت اور حمایت کرتا ہے تو اس سے پتہ چلا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی حمایت حاصل نہ ہو تو شیاطین و جنات تکلیف دے سکتے ہیں اور اس ولایت و حمایت سے مراد وہ قلبی تعلق ہے جو صحبت شیخ میں نصیب ہوتا ہے اور جس سے لطیفہ قلب منور ہو کر قوت حاصل کرلیتا ہے ایسے وجود کو جنات ایذا نہیں دے سکتے کہ وہ انوارات ان کو جلاتے ہیں اور جنوں میں انہیں برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی اور اللہ کریم کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے یا جن بتوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں وہ خود اپنی مدد نہیں کرسکتے کہ خود اپنی حفاظت ہی کرلیں تو پکارنے والوں کی مدد کیا خاک کریں گے بلکہ انہیں تو کسی بھلے کام کا مشورہ بھی دو اور ہدایت کی طرف دعوت بھی دی جائے تو وہ نہیں سنتے اور یوں نظر آتا ہے جیسے دیکھ رہے ہوں مگر دیکھ بھی نہیں سکتے یہی حال کفار کے ان رہنماؤں کا تھا کہ نہ ہدایت کی بات ان کی سمجھ میں آتی اور نہ ان کی نگاہ میں قوت باقی تھی کہ آپ ﷺ کے جمال سے سیراب ہوتی وہ دیکھتے تو محمد بن عبداللہ نظر آتے مگر محمد رسول اللہ انہیں دکھائی نہ دیتے گناہ سے نگاہ میں فساد آجاتا ہے اور انسان آپ کے جمال سے محروم ہو کر مسلسل گناہ میں مبتلا رہتا ہے اگر کبھی نگاہوں کو جلا نصیب ہو اور آپ کا جمال جہاں تاب نظر آئے تو بھلا کیسے نافرمانی کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے۔ معیار عبادت : حق تو یہ ہے کہ انسان آپ کی غلامی میں جان لڑا دے مگر اے میرے حبیب آپ لوگوں پہ اتنے اعلی معیار کی کڑی شرط نہ رکھیں بلکہ جس قدر ذوق سے کوئی اطاعت کرسکے اسی کو قبول فرما لیں نہ ہر آدمی کو وہ دقت نظر نصیب ہے اور نہ جذب دروں کی ایسی حالت تو جس قدر بھی کوئی خواہ سرسری طور پر اطاعت کرے قبول فرما لیں کہ لوگوں کی بخشش کا بہانہ بنتا چلا جائے اور دوسری مراد یہ ہے کہ اطاعت نہ کرنے اور ایذا دینے والوں سے بھی ممکن حد تک درگزر فرمائیں اور خفا نہ ہوا کریں بلکہ نیکی کا حکم فرماتے رہیں یعنی سب کے لیے بھلائی کی دعوت و تربیت جاری رکھیں پھر بھی اگر کوئی جہالت کی وجہ سے درپئے آزار ہو تو اس سے کنارہ کرلیں۔ یہ اصول تبلیغ ہیں کہ لوگ جس طرح آسانی سے عبادات ادا کرتے ہوں انہیں قبول کیا جائے اور ہر آدمی پر عبادات کو دشوار اور تنگ نہ کردیا جائے اور زیادہ کرید اور تجسس نہ کیا جائے کہ اس کے دل کا کیا حال ہے وغیرہ ذلک نیز اللہ کریم کی رضا کیلئے پیار اور محبت سے تربیت کا کام ہمیشہ جاری رکھا جائے اور نیکی اور بھلائی کی دعوت میں کمی نہ آئے نیز اگر کوئی خواہ مخواہ الجھنا چاہے تو بےسود مناظروں میں نہ الجھا جائے بلکہ ان سے دامن بچانا چاہئے اور جہلا کے ساتھ وقت برباد نہ کرنا چاہئے ہاں اگر اسلام یا مسلمانوں کو خطرہ پیدا ہوجائے تو دفاع کرنا جہاد اور فرض ہوجائے گا۔ اگر کبھی غصہ آنے لگے تو فوراً اللہ سے پناہ مانگیں کہ غصہ شیطانی وساوس میں سے ہے اور شیطان سے بچنے ا سب سے آسان نسخہ اللہ کریم سے پناہ مانگنا ہے کہ وہ سنتا بھی ہے اور ہر آن ہر شے سے آگاہ بھی ہے۔ یہہاں بھی ایسا ہی غصہ مراد ہے جو اپنی ذات کے لیے آئے اگر دینی امور پر غصہ آئے اور انسان برائی کے مقابلہ کے لیے جوش و جذبے سے کوشاں ہو تو یہ اللہ کی دی ہوئی توفیق ہے لیکن بعض اوقات لوگوں کی طعن وتشنیع اور جاہلانہ الزامات سے بہت دکھ ہوتا ہے اور اپنی ذات کا دفاع کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو عموماً جھگڑے اور فساد کا باعث بنا کرتا ہے لہذا ایسا جوش وساوس ابلیس میں سے ہے فوراً تعوذ پڑھا جائے تو طبیعت سنبھل جاتی ہے جن لوگوں کو دل کا حال حاصل ہے یعنی تقوی اور بصریت قلبی ، اگر ان کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آئے کہ شیطان انہیں بہکانے لگے تو فوراً اللہ کریم کا ذکر شروع کردیتے ہیں یاد لاہی میں لگ جاتے ہیں۔ صاحب بصیرت لوگ : اور اس کی برکت سے ان کے دل روشن ہو کر حقیقت الامر کو پا لیتے ہیں اور شیطان کے فریب سے بچ جاتے ہیں اور دوسرے لوگ جنہوں نے شیاطین کی غلامی ہی اپنا رکھی ہے اور نہی کے بھائ یبن رہے ہیں تو شیاطین انہیں مزید گمراہی کی دلدل میں ہی کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ بہت بڑا معجزہ : بعض اوقات خاص خاص معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں اور وہ مطالبہ پورا نہ ہو تو نبوت و رسالت کا انکار کرتے ہیں جبکہ آپ کے معجزات تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے زیادہ تھے اور جب بیشمار معجزات سے آپ کی رسالت ثابت ہوچکی تو یہ محض ضد اور ہٹ دھرمی ہے کہ فلاں بات ظاہر ہو تو مانیں گے جیسے کوئی عدالت میں مطلوبہ شہادت پیش کردے گی مگر مدعی مطالبہ کرے کہ نہیں فلاں فلاں آدمی شہادت دیں تب بات ہوگی تو ظاہر ہے اس کی اجازت نہ دی جائے گی یہی بات یہاں ہے بلکہ ان سے کہئے کہ میں اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو اللہ کی طرف سے مجھ پر اتاری جاتی ہے اور یہ وحی کتاب بہت بڑا معجزہ ہے آپ کی ذات آپ کا جمال آپ کے کمالات کے ساتھ یہ کتاب جس میں زندگی گزارنے کا ہر قاعدہ اور ضرورت کے ہر کام کی صحیح انداز میں رہنمائی موجود ہے اور رحمت الہی کے ساتھ یعنی آسان ترین انداز میں۔ مگر یہ سب فائدے تو جب نصیب ہوں جب کوئی مانے بھی۔ یعنی یہ انعامات تو ایمان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جب قرآن حکیم پڑھا جا رہا ہو تو پوری توجہ سے سنا جائے اور نہایت خاموشی کے ساتھ تاکہ پوری توجہ اسی طرف رہے اور سننے میں متوجہ ہونے سے مراد ہے کہ سن کر اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش ہوتا کہ تمہیں اللہ کی رحمت نصیب ہو۔ تلاوت قرآن مجید کے آداب : نماز میں خاموش رہ کر سنا تو جاتا ہے ساتھ متوجہ بھی رہنا چاہئے۔ خطبہ جمعۃ المبارک میں بھی کلام جائز نہیں اور نہ سنت وغیرہ پڑھی جائے۔ ہاں علماء کے نزدیک یہ سننا اور کان لگانا اسی صورت میں واجب ہے جب سنانے ک ےلیے پڑھا جا رہ اہو اگر چند لوگ کسی جگہ بیٹھ کر تلاوت کر رہے ہوں تو ایک دوسرے کے لیے خاموشی کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی ممکن ہے اور عملاً سنانے کے لیے ایسے حال میں نہ پڑھا جائے کہ لوگوں کے لیے سننا ممکن ہی نہ ہو جیسے مساجد سے لاؤڈ سپیکر پہ ساری ساری رات تلاوت ہوتی ہے یا ایسے مجمع میں جہاں لوگ گپ ہانک رہے ہوں ریڈیوں وغیرہ سے قرآن کا درس اونچی آواز میں لگانا کہ اس طرح کرنے والا بےادبی کا مرتکب ہوگا نیز اس طرح تلاوت کرنا بھی جائز نہیں جو کسی دوسرے کی عبادت یا آرام میں مخل ہو اور جب کہیں سے بھی تلاوت کی آواز آئے تو بہتر طریق یہی ہے کہ خاموش رہا جائے اور توجہ سے سنا جائے۔ ذکر الہی کی تاکید اور طریقہ ذکر۔ اور آخر میں ذکر الہی کی تاکید اور طریقہ ارشاد ہوتا ہے کہ تمام مسلمانوں سے فرما دیجئے اللہ کریم کا ذکر کیا کریں قرآن کی تلاوت کریں تسبیحات پڑھیں یا ذکر قلبی حاصل کرلیں تو سب ہی اس میں داخل ہوں گے چونکہ تلاوت اور ذکر کے آداب ایک جیسے ہیں۔ نیز یہاں مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں کہ اس سے جمہور کے نزدیک مظلق ذکر اللہ مراد ہے۔ سب سے بہترین صورت یہ ارشاد ہوئی کہ اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کیا کر نہایت عجز سے اور اس کی عظمت کے پیش نظر اپنی بےبسی کو دیکھ کر ڈرتے لرزتے ہوئے۔ یا پھر اگر پکار کرنا چاہے تو نہایت دھیمی آواز سے یعنی چیخ چیخ کر یا لاؤڈ اسپیکر پہ نہ کرے۔ ذکر خفی : اس سے مراد قلبی ذکر ہے جس میں زبان شامل ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ اس تزکیہ کے طفیل نصیب ہوتا ہے جو آپ کے فرائض نبوت میں سے ہے کہ مھض آپ کی مجلس عالی میں حاضر ہونے والا مومن بیک نگاہ شرف صحابیت سے مشرف ہوجاتا ہے اور صحابہ کا یہ شان خود قرآن میں بیان ہوا ہے کہ ان کے وجود کھال سے لے کر دل تک ذاکر ہوگئے تھے اور یہی دولت صحابہ کی مجالس میں تابعین کو نصیب ہوئی پھر نسلاً بعد نسلً یہ کیفیات قلبی اہل اللہ سے سینہ بسینہ منتقل ہو کر خلق خدا کے دلوں کو سیراب کرتی رہیں جب دل ذاکر ہوجاتا ہے تو پھر کوئی لمحہ ذکر سے غافل نہیں رہتا آدمی کام کر رہا ہو یا آرام سفر ہو یا حضر دل کی ہر دھڑکن کئی کئی بار اللہ تعالیٰ کا نام پکارتی ہے اور اسی سے حقیقی تفکر نصیب ہوتا ہے جسے مراقبہ بھی کہا جاتا ہے کہ گردن نیچی کرکے کیفیات میں کھوجانے کو مراقبہ کا نام دیا گیا یہ بہت عظیم نعمت ہے اور جب یہ نصیب ہوا تو عبادات اور اعمال کی لذات کو یہاں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے نیز گناہ کی کراہت بھی متشکل نظر آسکتی ہے۔ ذکر جہر : دوسرا طریقہ ذکر جہر ہے جسے ذکر لسانی بھی کہتے ہیں اور جو زبان سے کیا جاتا ہے تلاوت ہو یا مختلف تسبیحات یا اسم ذات کا زکر اسے زبانی کرنا بھی درست ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دھیمی آواز سے دون الجہر یعنی شور کے بغیر کیا جائے جس سے خود کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ نصیب ہو اور کسی بھی دوسرے آدمی کی عبادات ، آرام یا نیند میں خلل نہ آئے اور لوگوں کو سنا کر ریا کا مرتکب نہ ہوا جائے یاد رہے مختلف سلاسل میں ذکر لسانی کرایا ضرور جاتا ہے مگر صرف مبتدی کو اور متوجہ کرنے کے لیے آخر کار اسے بھی ذکر قلبی اور خفی سکھایا جاتا ہے لہذا ذکر کے دونوں طریقے اپنے آداب کے ساتھ درست اور جائز ہیں۔ اور یہی حکم تلاوت کا بھی ہے نیز نماز میں بھی اسی حد تک جہر کی اجازت ہے اور یہی آداب تلاوت ضروری ہیں۔ ذکر کتنی دیر کیا جائے اور کس وقت کیا جائے : تو فرمایا۔ بالغدو والاصال۔ یعنی صبح اور شام۔ یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ صبح اور شام دو وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر ضرور کیا جائے اور اس کا اہتمام کیا جائے مگر حقیقی معنی یہ ہوگا کہ صبح شام بول کر رات دن۔ اور ہر وقت مرد لیا جائے جیسا کہ حضرت عائشۃ الصدیقۃ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر حال میں اور ہر آن ذکر کیا کرتے تھے نیز جب ذکر قلبی مراد ہوگا تو پھر اس میں وقفہ آنے کا سوال پیدا نہیں ہوت وہ تو رات دن سوتے جاگتے چلتے پھرتے ہر حال میں جاری رہے گا اسی لیے ذکر لسانی اور جہری سے حصول ذکر قلبی ہی مراد ہوتا ہے اور یہ یاد رہے کہ قلبی اور خفی ذکر صر فصحبت شیخ سے نصیب ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کے حصول کا کوئی راستہ نہیں اور قلبی ذکر کا ہر حال ذکر لسانی بھی بہت بہتر طور پر کرتا ہے مگر ہر ذکر لسانی کرنیوالا ضروری نہیں کہ ذکر قلبی کو پا لے کہ یہ نور دل کو منعکس ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جب تک کوئی حدود شرعیہ سے تجاوز نہ کرے جس طرح چاہے ذکر کرسکتا ہے اور اصل صورت حال یہ ہے کہ بندہ کبھی غافلوں میں شامل نہ ہو کوئی لمحہ ایسا نہ آئے کہ یاد الہی سے غفلت وارد ہو اس لیے کہ غفلت ہی موت ہے اور حضوری کا نام حیات ہے اور یہ دائمی یاد صرف ذکر قلبی ہی سے نصیب ہوسکتی ہے نہ کہ غفلت سے اس لیے ذکر ضروری ہے۔ اس کی بارگاہ کا خاصہ یہ ہے کہ جو جتنا قریب ہوتا ہے اتنا زیادہ عبادت میں کمر بستہ ہوجاتا ہے اور اس کے مقرب بندے ہوں یا فرشتے انبیاء ہوں یا اولیا اس کی عبادت کرنے سے تکبر نہیں کرتے۔ نہ عقاید کی اصلاح قبول کرنے میں انہیں کوئی چیز رکاوٹ بنتی ہے اور نہ عبادات کی ادائیگی میں ہمیشہ اس کی پاکیزگی اور عظمت بیان کرتے اور اسے یاد کرتے رہتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں سر بسجود رہتے ہیں۔ یہاں سدہ کہہ کر عبادات نافلہ مراد لی گئی ہیں اور سجدہ چونکہ عبادات میں ایک خاص حیثیت کا حامل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ بندہ کو سجدہ میں سب سے زیادہ قریب ہونا نصیب ہوتا ہے لہذا سجدہ میں دعا کیا کرو امام صاحب کے نزدیک تو کثرت سجود سے مراد کثرت نوافل ہے اس کے باوجود اگر صرف سجدہ کرکے دعا کی جائے تو بھی جائز ہے بہرحال مقربین بارگاہ عبادت سے مستغنی نہیں ہوجاتے جیسا کہ جاہلوں کا گمان ہوا ہے اور بےنمازوں کو بہت پہنچا ہوا سمجھ لیتے ہیں بلکہ مقربین تو کثرت سے عبادت کرتے اور سجدے کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں جنت میں جانے اور بلندی درجات کو پانے کے لیے کثرت سجود کا حکم موجود ہے یعنی نوافل کثرت سے پڑھا کرے اور ظاہر ہے نوافل پڑھنے والا فرائض و سنن تو اور حسن و خوبی سے ادا کرے گا۔ وفقنا اللہ تعالی۔ و صلی اللہ علی حبیبہ محمد والہ وصحبہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین
Top