Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 40
اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَاسْتَكْبَرُوْا : اور تکبر کیا انہوں نے عَنْهَا : ان سے لَا تُفَتَّحُ : نہ کھولے جائیں گے لَهُمْ : ان کے لیے اَبْوَابُ : دروازے السَّمَآءِ : آسمان وَ : اور لَا يَدْخُلُوْنَ : نہ داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت حَتّٰي : یہانتک (جب تک) يَلِجَ : داخل ہوجائے الْجَمَلُ : اونٹ فِيْ : میں سَمِّ : ناکا الْخِيَاطِ : سوئی وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیتے ہیں الْمُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
بیشک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کرتے رہے ان کے لئے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے اور ہم جرم کرنے والوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں
رکوع نمبر 5 ۔ آیات 40 تا 47 ۔ اسرار و معارف : دعا پر عدم اعتماد کی وجہ : جو لوگ ہمارے ارشدات کو قبول نہیں کرتے اور اکڑ دکھاتے ہیں ان کا سارا کروفر مھض دکھاوا ہی رہ جاتا ہے کہ ان کے سارے کمالات زیر آسمان ہی رہتے ہیں اور ان پر آسمانوں کے دروازے نہیں کھلتے۔ اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوسکیں حتی کہ اونٹ سوئی کے ن کے سے گزر جائے یعنی جس طرح یہ امر محال ہے کفار کے لیے دخول جنت بھی محال ہے۔ مفسرین کرام نے آسمانوں کے دروازے نہ کھلنے سے متعدد امور مراد لیے ہیں اول دعا کہ ان کی دعا کو بارگاہ الوہیت تک رسائی کی اجازت نہیں ملتی اور یہ بھی بہت بڑی محرومی ہے غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ دعا پر بہت کم لوگ اعتماد رکھتے ہیں یعنی صرف ایسے لوگ اعتماد کرتے ہیں جن کے لیے آسمانوں کے دروازے کھلتے ہیں لوگوں کی اکثریت مادی اسباب ہی پہ پورا بھروسہ رکھتی ہے حالانکہ دعا بھی ایک سبب ہے اور دوسرے تمام اسباب سے زیادہ موثر ہے دوسری بات جو متعدد احادیث کے مضامین سے اخذ کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ موت کے فوراً بعد روح کو آسمانوں سے اوپر لے جا کر بارگاہ الوہیت میں پیش کیا جاتا ہے۔ قبض کرنے والے فرشتے بڑی عزت سے لے کر جاتے ہیں اور ہر آسمان پر اسے عزت دی جاتی ہے تا آنکہ پیش ہو کر بھی مزید عزت سے نوازی جاتی ہے اور اس کے بعد قبر میں حساب و کتاب کا مرحلہ آتا ہے جس کے ک نتیجے میں اس کا رابطہ جنت سے کردیا ہے روشنی خوشبوئیں اور نظارے یہ سب اسے نصیب ہوتا ہے آگے چل کر اپنے مقام پر اس کی تفصیل بھی آئے گی انشاء اللہ مگر کافر ایسا بدبخت ہے کہ موت کے فرشتے بھی ہیبت ناک صورت میں آتے ہیں روح بھی تکلیف دے کر قبض کرتے ہیں اور جب لے کر اوپر جاتے ہیں تو آسمانوں کا دروازہ ہی نہیں کھولا جاتا وہیں رد کردیا جاتا ہے لہذا فرشتے پھینک کر اسے واپس مارتے ہیں اور سوال و جواب کے بعد قبر کا رابطہ جہنم سے کردیا جاتا ہے اور اس کا نامہ اعمال بھی سجین میں رکھا جاتا ہے علیین اور سجین برزخ کے دو حصے ہیں ایک اوپر کو جاتا ہے اور دوسرا زمین سے نیچے کو اوپر والا علیین کہلاتا ہے جو مومنین کا مسکن ہے اور نیچے والا سجین جو کفار یا مبتلائے عذاب لوگوں کا ٹھکانہ ہے اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق نیچے دھنستے چلے جاتے ہیں جہاں نامہ اعمال بھی رکھے جاتے ہیں اور ارواح بھی۔ عدم اطمینان : تیسری حیثیت یہ ہے کہ روح عالم امر سے متعلق ہے جہاں عرش و کرسی اور ہر طرح کی مخلوق کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے عالم امر شروع ہوتا ہے ایمان دل اور روح میں حیات پیدا کرتا ہے پھر عمل صالح اور صحبت صالح اسے عروج بخشتی ہے حتی کہ روح آسمانوں سے اوپر عرش پھر عرش کی منازل سے گذر کر عالم امر سے تعلق قائم کرتی ہے اسی راستے پر چلنے کو سلوک کہا جاتا ہے اور اسی راستے کی منازل سلوک کی منازل کہلاتی ہیں ایمان اور عمل صالح کے ساتھ صحبت صالح کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ از خود روح یہ راستہ طے نہیں کرسکتی صحانہ نے صحبت نبوی سے یہ دولت حاصل کی تابعین نے ان کی صحبت سے اور اسی طرح بعد میں آنے والے پہلوں کی صحبت سے یہ نعمت پاتے رہے مجاہدہ تو طالب خود کرتا ہے مگر راستہ شیخ کے بغیر نہیں پا سکتا اور کفر ایسی مصیبت ہے کہ کافر کی روح پر آسمان کا دروازہ ہی نہیں کھلتا اس لیے عالم بالا کے حقائق پہ کبھی اطلاع پاتا ہے نہ ان سے فیض یاب ہوسکتا ہے اور جب تک روح کو یہ نسبت نصیب نہ ہو نہ دوام ذکر نصیب ہوتا ہے نہ اطمینان قلب اور یہ سب سے بڑی محرومی ہے یہ اتنی سخت سزا انہیں کیوں دی گئی ہے فرمایا یہ ان کے جرم کفر پر مرتب ہونے والا فطری نتیجہ ہے اگر وہ بھی کفر سے توبہ کرلیتے تو تمام مدار ج کو پانے کی استعداد ان میں بھی تھی مگر انہوں نے زیادتی کی اور فطری استعداد کو کھودیا جہنم کا راستہ اختیار کیا جہاں نہ صرف سخت اور دردناک عذاب ہوں گے بلکہ اوڑھنا بچھونا دوزخ ہی دوزخ ہوگا انہیں دوزخ ہی سے ڈھانپ بھی دیا جائے گا کہ یہی ان کے ظلم کا ماحصل ہے اور یہی اس کا بدلہ۔ جنت کا راستہ آسان ترین راستہ ہے : اس کے مقابلے میں ایمان قبول کرکے اللہ کے پسندیدہ اعمال اور طرز حیات کو اختیار کرنے والے لوگ کس قدر آسان زندگی پاتے ہیں کہ انہیں کوئی ایسا کام کرنے کا حکم ہی نہیں دیا جاتا جو ان کے بس نہ ہو اور وہ کر نہ سکتے ہوں اس سے زیادہ آسانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جو نہیں کرسکتے چھوڑ دو مگر جو کرسکتے ہو وہ اس طریقے سے کرو جس طرقے سے کرنے کا اللہ کریم اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے ایسے لوگ تو جنت کے باسی ہیں جہاں ہمیشہ رہیں گے کوئی دکھ کوئی رنج کبھی ان کے پاس بھی نہ بھٹکے گا بلکہ بحیثیت انسان دنیا میں دو اچھے انسانوں میں بھی شکر رنجی ہوسکتی ہے اختلاف رائے کا ہونا بھی پایا جاتا ہے ایک دوسرے سے خفا بھی ہوسکتے ہیں مگر جنت ایسی جگہ ہے جہاں داخلے پر دلوں سے تلخیاں ہٹا دی جائیں گی۔ اور صرف محبت ہی ہوگی وہاں کی شادابیاں بھی ان کی پسند کے تابع ہوگی اور وہ وہاں بھی اللہ کا شکر کریں گے اور کہہ اٹھیں گے کہ اے اللہ یہ تیرے ہی احسانات ہیں کہ ہمیں اس مقام رفیع تک پہنچا دیا اگر تو دستگیری نہ فرماتا تو ہم ان عظمتوں تک پہنچ ہی نہ سکتے تھے واقعی تیرے رسول اور انبیاء حق کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے یہ سب تیری رحمت کے کرشمے تھے کہ انبیاء مبعوث فرمائے اور ہمیں توفیق اطاعت بخشی در اصل ہدایت بھی اللہ کی طرف سے ہے اور ایمان لانے سے لے کر عملی زدگی اور پھر ابدی زندگی ہیں۔ ہدایت کے مدارج : ہدایت کے مختلف مدارج ہیں چونکہ قرب الہی میں ترقی پانے کا نام ہدایت ہے اس کی کوئی انتہا نہیں اسی لیے ایک عام مسلمان سے لے کر رسول اللہ ﷺ یہی دعا کرتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم یہاں تک کہ جنت کا داخہ بھی ہدایت ہی کا مظہر ہے اور وہاں بھی ہر گھڑ ترقی نصیب ہوتی رہے گی لہذا ہدایت یا مقامات سلوک اور کیفیات قرب الہی کی کوئی انتہا نہیں ہاں انہیں یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ جنت تمہاری ہے اس لیے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے وفا کی اور عملی زندگی میں اطاعت اختیار کی۔ اہل جنت اور اہل نار میں مکالمہ : جب جنتی اپنے مقام پر پہنچیں گے تو دوزخ والوں سے جو اپنے کفر کے سبب ہمیشہ کے لیے دوزخی ٹھہرے بات کریں گے ۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو بدن مکلف بالذات ہوتا ہے اور روح اس کے تابع موت کے بعد برزخ میں روح مکلف بالذات ہوتی ہے اور بدن اس کے تابع میدان حشر میں اور اس کے بعد روح اور بدن برابر مکلف ہوں گے اور روحانی یا مادی آرام ہو یا رنج برابر برابر محسوس کریں گے رو جس طرح مومن جنت میں رہتے ہوئے مسافت بعید سے دوزخ اور اس کے رہنے والوں کو دیکھ سکے گا اسی طرح کافر بھی باوجود دوزخ میں رہنے کے جنت تک کو دیکھ لے گا بات سن سکے گا کر بھی سکے گا یہ دیکھنا مومن میں جذبہ تشکر پیدا کرے گا اور کافر کے لیے مزید حسرت کا سبب ہوگا۔ دنیا میں بصیرت ایمانی : نور ایمان کا کمال یہ ہے کہ مومن یہ نعمت دار دنیا میں حاصل کرسکتا ہے اور یہی انعام کیفیات قلبی سے نصیب ہوتا ہے جو محض دل سے دل کو منتقل ہوتی ہیں سب سے زیادہ قوت انبیاء علیہم الصلوہ والسلام کے قلوب کو نصیب ہوتی ہے جس کے باعث مکالمہ باری سے سرفرازہوتے ہیں برزخ کا دیکھنا فرشتوں سے کلام اور عالم بالا سے اطلاع پانا ہی دین ہی کی اساس ہے اور سارا دین انہی ذرائع سے انبیاء کو موصول ہوتا ہے ایسے ہی مومن نبی کا اتباع کرکے اور کیفیات قلبی حاصل کرکے قوت مشاہدہ اور کشف سے سرفراز ہوتا ہے اسی کو ولایت خاصہ یا بصیرت ایمانی کہا جاتا ہے۔ نبی کو براہ راست نصیب ہوتی ہے ولی اس کی اطاعت سے پاتا ہے نبی غلطی سے پاک ہوتا ہے اور ولی کا مشاہدہ نبی کے ارشاد کے اندر درست ورنہ اسے سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے اور یہی مومن کو امتیاز ہے کہ وہ اس کمال کو دنیا میں بھی پا سکتا کافر ہرگز نہیں پا سکتا اور آخرت میں تو چونکہ روح بھی برابر محسوسات رکھتی ہوگی وہاں کافر بھی دیکھ سکے گا دنیا میں یہ صرف نور ایمان مجاہد اور صحبت شیخ سے ممکن ہے۔ اعراف : تو اہل جنت اہل نار سے کہیں گے میاں ہم نے تو اللہ کریم کے وعدوں کو کھرا پایا اگرچہ دنیا میں تم لوگ ہمیں مذاق کرتے تھے اور بیوقوف اور جاہل تک کہنے سے نہ چوکتے تھے مگر ہمیں جس بات کا یقین تھا وہ بات ہو کے رہی تم سناؤ تم پہ کیا گزری کیا وہ باتیں جن سے تمہیں دنیا میں خبردار کیا گیا تھا اور انبیاء نے اطلاع دی تھی سچ ثابت ہوئیں کہیں گے۔ بیشک وہی ہوا جو ہمیں بتایا گیا تھا اور انبیاء نے اطلاع دی تھی سچ ثابت ہوئیں۔ کہ ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو جو زندگی بھر دوسروں کو بھی اللہ کی راہ سے روکنے کی سعی کرتے رہے اور اپنی پسند کے غلط راستے تلاش کرتے رہے اور آخرت کا انکار کرتے تھے یعنی گمراہی کا سبب آخرت پہ یقین میں کمی یا اس کا انکار ہے ان کے درمیان جو دیوار یا حد فاصل ہوگی کچھ لوگ ابھی وہاں رکے ہوئے ہوں گے اس جگہ کو اعراف کہا گیا ہے یعنی حد فاصل یا حصار کا وہ حصہ جو اوپر ہے یہ رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہے مگر حدیث شریف کے مطابق کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ نور ایمان کے ساتھ گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا اور نیکی اور بدی برابر ہوں گی نہ جنت کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ نور ایمان کے ساتھ گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا اور نیکی اور بدی برابر ہوں گی نہ جنت میں داخل ہوسکیں اور نہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے وہ پل صراط سے گزر کر اس جگہ ٹھہرجائیں گے جو جنت اور دوزخ کے درمیان حد فاسل ہے نہ اس پر جنت کی نعمت میسر ہے نہ دوزخ کے عذاب کا اثر۔ حدیث شریف کے مطابق آخر کار اللہ کریم انہیں جنت میں داخل فرما دیں گے۔ یہ لوگ دونوں طرف کے لوگوں کو ان کے چہروں سے ہی پہچان رہے ہوں گے اور اہل جنت کو دیکھ کر خوش ہوں گے اور جنت میں داخلے کی دعاوں میں شدت آجائے گی امیدیں باندھ رہے ہوں گے اور اہل جنت کو سلامتی کا پیغام اور مسنون سلام کہیں گے لیکن آنکھ دوسری طرف اٹھے گی اور دوزخ والوں کو دیکھیں گے تو فوراً پکار اٹھیں گے اے اللہ ہمیں ان ظالموں کے ساتھ شامل نہ فرمانا اگرچہ انہیں بھی خوب پہچان رہے ہوں گے مگر غضب الہی سے لرزاں و ترساں پناہ کے طالب ہوں گے۔ انسان کو چاہئے کہ دنیا میں نیک لوگوں کا ساتھ اختیار کرے ۔
Top