Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس انہوں نے فرمایا اے میری قوم ! صرف اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارے لئے کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بیشک مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے
رکوع نمبر 8 ۔ آیات 59 ۔ تا۔ 64 ۔ اسرار و معارف : اس تمام بحثت کی علمی صورت جو انسانی زندگی میں پیدا ہوگی ہے وہ بھی انسان کے سامنے ہے جیسے نوح (علیہ السلام) کا قصہ کہ ان کی قوم اللہ کی نافرمانی پہ کاربند ہوگئی مگر اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے محروم نہیں فرمایا بلکہ ان میں اپنا رسول مبعوث فرمایا جیسے مردہ زمین پہ ابر رحمت۔ تفسیر مظہری کے مطابق نوح (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی آٹھویں پشت میں تھے اور ان سے پہلے زیادہ تر احکام انسانی ضروریات کے متعلق ہی تھے ان کے زمانے تک کفر و شرک بھی پھیل گیا اسی طرح وہ پہلے رسول تھے جنہیں کفر و شرک سے بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ حدیث شریف میں واد ہے کہ انہیں چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور طوفان کے بعد ساٹھ برس دنیا میں رہے بعثت سے طوفان بپا ہونے تک ساڑھے نو سو سال تبلیغ فرمائی۔ بعض حضرات نے آپ کا اصلی نام سکن اور بعض نے عبدلاغفار بھی لکھا ہے۔ آپ ہی کے زمانہ میں طوفان نے ساری انسانیت کو غرق کردیا صرف وہ لوگ باقی رہے جو آپ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے لہذا بعد کی سب آبادی انہی کی اولاد ہے اس لیے آپ کو آدم ثانی یا آدم اصغر بھی کہا گیا ہے۔ مشرک کی ابتدا : لوگ مال و اولاد کی کثرت پہ نازاں اپنے اپنے خیال کے مطابق زندگی کے مزے لوٹنے لگے اور ساتھ ساتھ کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے اس لیے کہ مذہب انسانی مزاج میں ہے جب وہ اللہ کی عظمت سے آنکھیں بند کرلیتا ہے تو کوئی دوسرا کسی بھی نام سے اللہ کی جگہ مقرر کرلیتا ہے یہاں سے شرک کی ابتدا ہوتی ہے مشرک اللہ کے حکم سے تو محروم ہوتا ہے لہذا اپنی خواہشات کے مطابق رسومات کفریہ کو مذہب کا درجہ دے کر اختیار کرتا ہے یہی صورت حال تھی جب نوح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور فرمایا لوگو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جس کی عبادت کی جائے اور غیر اللہ کی عبادت تمہیں تباہی سے دو چار کرے گی تمہارے عقائد و اعمال کے نتیجے میں تو تباہی کا بہت بڑا خطرہ ہے۔ رسومات کا نفع اٹھانے والے : جس قدر رسومات دین کے نام پر قائم کی جاتی ہیں قوم کا ایک خاص طبقہ ان سے ذاتی نفع حاصل کرتا ہے سیادت و قیادت کی صورت میں بھی اور مال و دولت کی شکل میں بھی لہذا وہ طبقہ امیر یا چودھری یا پیشوا اور پیر وغیرہ بن جاتا ہے جب ان رسومات پہ زد پڑتی ہے تو سب سے پہلے ہی لوگ واویلا شروع کرتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ ان کا رد کرنے والا گمراہ ہوگیا ہے۔ یہی جواب روسائے قوم نے نوح (علیہ السلام) کو دیا کہ آپ گمراہ ہوگئے ہیں اور باپ دادا کی روش کا انکار کر رہے ہیں انہوں نے فرمایا ایسی بات نہیں میں ہرگز گمراہ نہیں ہوں بلکہ مجھے تو رب العلمین نے اپنا رسول اور فرستادہ بنایا ہے۔ رسالت و نبوت تقاضائے ربوبیت ہے : اللہ رب العلمین ہیں اور تمام جہانوں کی تخلیق اور حیات کا حاصل صرف وہ مخلوق ہے جو اللہ کی معرفت پائے اور نعمت عظمی پانے کے لیے نبوت کی ضرورت ہے لہذا اللہ رب العزت نے مجھے یہ بہت ہی اہم فریضہ سونپا ہے میں اپنی بات نہیں منوانا چاہتا اس فکر میں نہ پرو کہ ہماری یا ہمارے باپ دادا کی بات کو رد کرکے اپنی بات کو ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے ہرگز نہیں میں تو بات پہنچانے والا ہوں اور تم تک تمہارے رب کی باتیں پہنچانا میرا فرض منصبی ہے اس لیے کہ جو علم نبی کو براہ راست عطا ہوتا ہے امت اس کو صرف نبی سے حاصل کرسکتی ہے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں یہ ایسے حقائق اور معرفت کے خزینے ہیں جو مجھے عطا ہوئے ہیں تم کو ان کی ضرورت ہے لہذا میں تمہیں پہنچانا چاہتا ہوں اس میں حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ تم ہی میں سے ایک شخص کو اللہ نے نبی بنا دیا یہ تو اس کی اپنی عطا ہے مگر یہ بھی یاد رکھو کہ جب مبعوث انسانوں کی طرف فرمائے جاتے ہیں تو نبی بنائے بھی انسانوں ہی میں سے جاتے ہیں تاکہ انسان استفادہ کرسکیں اور یہ نبی کا کام ہے کہ خطرات سے ہر وقت مطلع کردے یعنی عقاید و اعمال کے وہ اثرات جو تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور وہ بھی جو آخرت کو ظاہر ہوں گے اور یہ سب صرف اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ اللہ کی رحمت کو پا لیں اپنے عقائد و اعمال میں ایسا طریقہ اختیار کریں جو اللہ کو پسند ہو اور اللہ کی طرف سے ہو کہ یہی تقوی ہے اور یہی راستہ دائمی مسرتوں سے ہمکنار کرتا ہے ۔ جس طرح مردہ زمین تک آب حیات سے بھرے بادل پہنچاتا ہے ویسے ہی مردہ دلوں تک نور نبوت کی کرنیں بکھیرتا ہے مگر جو زمین فاسد اور شور ہوچکی ہو اسے بارش سے فائدہ نہیں ہوتا ایسے ہی اعمال کی غلاظت بھی ایک حد پر پہنچ کر دل کی زمین کو شور بنا دیتی ہے پھر نور نبوت سے اس میں اجالے نہیں ہوتے لہذا ان لوگوں نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی ساڑھے نو سو سال اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے مگر صرف اسی مرد و زن ایمان لائے بالآخر اعمال کی جزا میں گرفتار ہوئے اور غرق کے عذاب نے آ پکڑ صرف ایمان لانے والے بچ سکے جو نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ان کے علاوہ سب غرق ہو کر تباہ ہوگئے اور وہ لوگ واقعی اندھے ہو رہے تھے آنکھیں تھیں مگر حقائق کو دیکھنا نصیب نہ تھا اپنی خواہشات اور نفس کی لذات نے اندھا کردیا تھا یعنی یہ لوگ دل کے اندھے تھے۔
Top