بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا
سورة الدھر۔ آیات 1 تا 22۔ اسرار ومعارف۔ انسان پر ایسا زمانہ بھی گزرا ہے کہ اس کا کوئی ذکر تک نہ تھا تخلیق آدم (علیہ السلام) سے قبل بھی اور ہر انسان پر اس کی پیدائش سے قبل بھی ایسا دور ہوتا ہے کہ کوئی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا حتی کہ کوئی اس کی بات تک نہیں کرتا۔ تخلیق انسانی۔ پھرہم نے اسے ایسے نطفے سے بنایا جو کئی طرح کا آمیزہ ہے کفار کا خیال کہ انسان مر کے بکھر جاتا ہے یہاں اس طرح رد فرمایا کہ پیدا ہونے سے پہلے وہ بہت زیادہ بکھرا ہوا ہوتا ہے اور کہاں کہاں سے ذرات کو چیزوں اور اجناس کا روپ دے کر ایک آدمی تک پہنچاتا ہے پھر اس سے وہ ذرات جو آنے والے کے لیے ہیں الگ کرکے نطفہ بنادیتا ہے۔ پھر اس کو مختلف حالتوں سے گزار کر عقل وخرد کا مالک اور شعور انسانی عطا کردیتا ہے پھر اس کی ہدایت کا سامان کیا جاتا ہے اور اسے اختیار مل جاتا ہے کہ اطاعت کا راستہ اختیار کرے یانافرمانی کا اگر کفر کی راہ اپنائے گا تو انجام کار زنجیروں میں جکڑا جائے گا اور طوق پہنا کر دوزخ میں ڈالاجائے گا جبکہ اطاعت گزاروں پہ انعامات ہوں گے اور ایسے لذیذ مشروب کہ ان میں کافور کی ملاوٹ ہوگی ان کی تواضع کے لیے ہوں گے اور ایسے مشروبات کے چشمے ہوں گے جنہیں اہل جنت اپنی مرضی سے چلائیں گے جہاں حکم دیں وہ ادھر جاری ہوجائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں نذر تک پوری کرتے تھے۔ نذر یامنت۔ نذر اس کام کی مانی جاسکتی ہے جو شرعا درست ہو اور وہ مانی جاسکتی ہے جو ازقسم فرائض پر ہو فرض نہ ہو جیسے نماز ، روزہ ، زکوۃ وغیرہ فرض ہے توفرائض کے علاوہ نوافل یانفلی روزے یاصدقہ کی منت مانی جاسکتی ہے پھر اسے ضرور پورا کیا جائے۔ یہاں مراد ہے جو اپنی طرف سے اپنے اوپر مقرر کرتے وہ بھی پورا کرتے تھے جو اللہ نے کردیا وہ تو بہرحال ضرور کرتے ہوں گے اور قیامت کے دن سے جس کا عذاب پھیل پڑے گا اور کفار کو سیلاب کی طرح نگلے گا ، ڈرتے تھے ان کا مالی نظام اور معاشی سلسلہ ایسا تھا کہ اللہ کے حکم کے تابع تھا یعنی اس کی محبت میں مساکین اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے تھے کہ کافر بھی اگر قیدی ہوتوریاست اسلامی اس کے کھانے کا اہتمام کرے گی اور ان سے اس کا بدلہ نہیں چاہتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ یہ سب اللہ کی رضا کے لیے ہے تم سے کسی بدلے کی ضرورت نہیں۔ تم سے احسان منوانا بھی نہیں چاہتے بلکہ ہم تو اللہ سے ڈرتے ہیں کہ قیامت بہت اداس کردینے والا اور سختی والا دن ہوگاتو اللہ ایسے لوگوں کو اس روز کی شدت اور عذاب سے بچائے گا اور انہیں تازگی اور مسرت و خوشی نصیب ہوگی یعنی روز قیامت بیک وقت وذاب سے بھر پور ہوگا اور لذت سے بھی اور انہوں نے خود کو اللہ کی اطاعت پہ قائم رکھا لہذا یہاں انہیں اس کا انعام بخشا جائے گا جو خوبصورت باغوں اور ریشمی لباسوں کی شکل میں عطا ہوگاجہاں وہ گاؤ تکیے لگاکربیٹھے ہوں گے وہاں موسموں کی شدت نہ ہوگی نہ گرمی نہ سردی یعنی کسی طرح سے کوئی شے ان کی لذات میں مخل نہ ہوگی ۔ حسین درختوں کی خوبصورت چھاؤں اور پھلوں سے جھکی ہوئی شاخیں جو ان کی خدمت کو حاضر ہوں یعنی جیسے اور جب چاہیں گے پھل حاصل کریں گے اور خدام ان کے لیے چاندی کے آبخوروں میں مشروب لیے پھرتے ہوں گے جو شیشے کی طرح شفاف ہوں گے اور خوبصورت انداز میں بھرے ہوئے ہوں گے۔ دوسری طرح کا مشروب بھی ہوگا جس میں سونٹھ کا ذائقہ ہوگایہ اس چشمے کا ہوگا جس کا نام سلسبیل ہے ان کی خدمت کے لیے نوعمر لڑکے ہوں گے کہ اگر انہیں دیکھاجائے تو لگے موتی بکھرے پڑتے ہیں۔ جنت کے خدام میں نوعمر بچے بھی ہوں گے۔ جنت میں جنتیوں کے خادم نوعمر خوبصورت حسین لڑکے بھی ہوں گے جو ہمیشہ اسی عمر میں رہیں گے کہ ان کے گھروں کے اندر بھی خدمت کرسکیں گے یہ مخلوق جنت میں اللہ پیدا فرمادیں گے اور علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کفار کے نابالغ بچے جنت میں خادم بنادیے جائیں گے۔ اور جس جنتی کو دیکھیں وہی سلطان نظر آئے گا کہ اس کی رہائش کی وسعت کسی سلطنت سے کم نہ ہوگی ان کے لباس بہت خوبصورت ہوں گے کہ سبز گاڑھے اور اوپر ایک باریک ریشمی لباس اور جنت کی چاندی کے کنگن پہنے ہوئے ہوں گے اور اللہ انہیں مشروب پلائیں گے اور ارشاد ہوگایہ تمہارا انعام ہے کہ تمہاری محنت ٹھکانے لگی۔
Top