بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
وہ کس بات کے بارے سوال کرتے ہیں
سورة النبا۔ آیات 1 تا 30۔ اسرار ومعارف۔ کفار اس بات کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اور کہتے ہیں کہ بھلاقیامت کب ہوگی جس کے بارے میں اس قدر ڈرایا جارہا ہے پھر اس میں مختلف رائے رکھتے ہیں کہ کوئی کہتا ہے جواب تک مرچکے ہیں ان کی ہو کیوں نہیں جاتی اور دوسرا کہتا ہے کہ کچھ ہونے والا نہیں لیکن یاد رکھو سب لوگ خوب جان لیں گے کہ جب واقع ہوگی تو سب کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی جس قادرمطلق نے زمین میں بیشمار نعمتیں رکھ کر اسے تمہارے لیے آرام دہ اور زندگی کی تمام سہولیات مہیا کرنے والی بنادیا جیسے بچھونا آرام فراہم کرتا ہے پھر اس پہاڑوں کو گاڑ دیا کہ مع دنیات سے بھرپورا اور وادیاں پھلوں سے لدی کھڑی ہیں جنگل اور جانور چوٹیوں پر برف کتنی نعمتیں اس حوالے سے بنادیں اور پھر جوڑے جوڑے بنائے کہ مرد اور خاتون مل کر زندگی کو خوبصورت رنگ دیں اور یوں بقائے نسل کا سبب بھی بنیں۔ نیند۔ پھرنیند کو تمہارے دن بھر کی تھکان دور کرنے کا سبب بنادیا کہ بجائے خود ایک عجیب و غریب نعمت ہے جس کے بعد آدمی تروتازہ اٹھ کر پھر دن بھر کے کاموں کے لیے خود کو تیار پاتا ہے۔ اس نعمت کو اس فراوانی سے تقسیم کردیا کہ شاہ وگدا کو نواز دیا۔ مگر جن سے یہ نعمت سلب ہوجاتی ہے اور خواب آور گولیوں سے بھی نیند نہیں آتی وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے پھر اس قادر مطلق نے رات بنادی جوہر شے کو چھپا کر نیند کے لیے ماحول فراہم کرتی ہے کہ تاریکی وخاموشی انسان وحیوان سب کے لیے سکون مہیا کرتی ہے اور پھر ہر رات کے معقول اور انتہائی مناسب وقفے کے بعد دن بنادیا کہ نیند بیشک نعمت ہے مگر حد سے بڑھ جائے تو زندگی معطل کردے لہذا نیند کا وقت مناسب اور معقول ہوناچاہیے کہ پھر دن نکال دیا جو کاروبار حیات کے لیے ضروری اور مناسب ماحول فراہم کرتا ہے۔ سورج کی مثال۔ یہ سارا نظام اس خوش اسلوبی سے چلتا ہے کہ خدانخواستہ اگر زمین اور سورج کے رشتے میں ذرہ برابر روزانہ فرق آتا جائے تو نظام حیات تباہ ہوجائے اسی طرح نبی کریم کو شمس منیرا فرمایا کہ جس طرح زمین کا تعلق سورج سے ہے دل کی زمین کا تعلق نبی سے ہو پھر وہ اتنا مضبوط ہوا اتنی حدت وحرات پائے کہ بادل بنیں اور برس کر دل کی کھیتی کو ثمرات سے بھردیں ۔ یہی حال شیخ کا ہے پھر اگر اس میں تھوری تھوڑی بھی خرابی آنے لگی تو فوری توبہ اور علاج ضروری ہے ورنہ جہاں دل اجڑجانے کا اندیشہ ہے یہ سب نظام خود اس بات کا شاہد ہے کہ یوم حساب اور یقینا یوم حسا ب کا وقت طے شدہ ہے جب صور پھونکاجائے گا تولوگ فوج درفوج جمع ہونا شروع ہوجائیں گے اپنے اپنے حال میں آسمان کھول دیے جائیں گے اور بہت دروازے بن جائیں گے اور پہاڑ اڑا کر ذروں میں تبدیل کردیے جائیں گے تو یقینا جہنم اور اس کے فرشتے تو حد سے گزرنے والوں کی تاک میں ہیں یعنی ان کا انتظار ہی کر رہے ہیں کہ انہوں نے نبی کی بتائی ہوئی حقوق وفرائض کی حدود سے تجاوز کیا اور ان پر عمل نہ کیا اب وہ دوزخ میں کئی حقبوں تک رہیں گے۔ حقبہ۔ حقبہ ایک ایسی دراز مدت ہے جو لاکھوں صدیوں پر محیط ہوگی بعض حضرات کے نزدیک دوزخ میں رہنے کے بعد کبھی انہیں چھٹکارا مل جائے گا ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے تم میں سے جو گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ڈالا گیا وہ کئی حق بے اس میں رہنے کے بعد ہی نکالا جائے گا اس لیے کہ اٹھاسی لاکھ سال کا بنتا ہے تو بھی یہ مدت ختم تو ہوگی جبکہ کافر کے لیے خلود یعنی ہمیشہ کا رہنا ہے اور بعض حضرات کا ارشاد ہے کہ کفار ہی کے ہی کے لیے ہے اور یہ بھی میعاد ختم نہ ہوگی بلکہ ایک حق بے کے بعد دوسرا شروع ہوجائے گا جہنم میں نہ تو ٹھنڈک کایا آرام دہ موسم کا کوئی تصور ہوگا اور نہ کوئی شے پینے کو ملے گی کہ آگ کی ٹھنڈک کا سامان کرے بلکہ پینے کو بھی انہیں ایسا کھولتا ہوا پانی ملے گاجوچہرے کی کھال اتار دے گا اور اندرجائے گا تو انتڑیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اور جہنمیوں کے زخموں سے بہنے والی پیپ دی جائے گی یعنی ان کے جرائم کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا۔ جزاء اعمال کی قسم سے ہوتی ہے۔ کہ جزا ازقسم اعمال ہوگی انہوں نے دنین کا نظام چھوڑ کر کفر کی راہ اپناء جو شے بیشمار لوگوں کو جہنم میں لانے اور ان کے بدنوں کو دوزخ میں جلانے کا سبب بنی اب ان کا بدلہ یہی ہے کہ ان زخموں سے بہنے والا خون اور پیپ ان کی غذا بن جائے کہ انہیں حساب کتاب پر اور قیامت اور آخرت پر توگمان بھی نہ گزرتا تھا اور میری آیات کو عقیدے اور عمل یعنی ضابطہ حیات کے طو رپرماننے سے بالکل انکار کردیابل کہ ایسا انکار کردیا جو لوگوں کو بھی اس رو میں بہالے گیا جبکہ ہم نے توہربات کا تحریری حساب رکھا ہے لہذا ان سے کہاجائے گا اب موج کرو اور یہ امید رکھو کہ تم پر عذاب بڑھتا ہی جائے گا جیسے اگر تم دنیا میں رہتے تو برائی اور کفر میں بڑھتے ہی چلے جاتے۔
Top