بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
آپ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں (جو بغیر لڑائی کے حاصل ہو) فرما دیجئے کہ غنیمتیں اللہ اور (اس کے) رسول کے لئے ہیں سو اللہ سے ڈرو اور آپس کے معاملات کی اصلاح کرو اور اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورة الانفال یہ سورة مدنی ہے سورة اعراف میں کفر وشرک اور برائی پر انجام بد اور ایمان اور نیکی پر انعامات کا جو در س چل رہا تھا ، آیات 1 تا 10 اسرار و معارف آپ سے مال غنیمت کے بارے جاننا چاہتے ہیں تو فرمادیجیے کہ یہ مال اللہ کریم کا ہے اور اللہ کریم کی طرف سے اس کے رسول کا ہے یعنی اس کے متعلق کسی کی رائے یامشورہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ، چونکہ یہ خالص اللہ کریم کا مال ہے پہلی امتوں کو لینے کی اجازت ہی نہ تھی اور اب اجازت ملی تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا فیصلہ نافذہوگا چناچہ چارمعروف طریقے زمانہ اقدس سے اس بارہ میں جاری ہوئے ۔ ایک یہ کہ اعلان کردیاجاتا کہ جو مخالف کو قتل کرے گا وہ اس کا مال بھی لے گا ایسا مال غنیمت میں جمع ہی نہ ہوتا تھا دوسرے کسی جماعت کو مہم پر روانہ کرکے اجازت دے جاتی کہ اس مہم سے جو مال حاصل ہو وہ انہی افراد کا ہوگا تو اس میں سے بیت المال کو پانچواں حصہ ملے گا باقی انہیں افرادکا ہوگا سارے لشکر پہ تقسیم نہ ہوگا ۔ یہ کہ پانچواں حصہ جو بیت المال کا ہوتا ہے اس میں سے کسی کو خاص کارکردگی پر انعام دیا جاتا اور چوتھے یہ کہ جو لوگ مجاہدین کی خدمت پر مامور ہوتے ان کے لیے سارے مال سے حصہ الگ کرلیاجاتا ورنہ تو عام قانون ارشاد فرمادیا کیا کہ پانچواں حصہ بیت المال کا اور باقی مال مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا یاد رہے یہ فیصلہ بدر میں ہوگیا تھا لہذا احد میں مال زیادہ وہ لوٹنے کے لیے مجاہدین نے جگہ نہ چھوڑی تھی اور ایساسوچنا قطعادرست نہیں اس کے بارے کہا جاچکا ہے بہرحال فرمایا غنائم میں تو آپ باذن الٰہی فیصلہ فرمائیں گے۔ حقیقی دولت ہی تم لوگ حصول تقویٰ میں اپنی توجہ رکھو اور زیادہ سے زیادہ کیفیات قلبی حاصل کرلو جو حقیقی دولت ہے یہ مال وزرتو اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور آپس میں بہتر ین تعلقات رکھو جو ہمیشہ تقویٰ کا ثمرہوتا ہے ورنہ دنیا کا مال تو آپس میں لڑانے کا سبب بنتا ہے لہٰذایہ مومنین کا مقصد نہیں نہ اس کو حاصل کرنے کے لیے جہاد کیا بلکہ یہ زیاید اور انعام ہے اور اصل دولت اللہ کی اطاعت ہے جو اطاعت رسول سے عبارت ہے کہ واحد دلیل ذات رسول ہے جو اللہ کریم کی پسندوناپسندپہ قائم کی جاسکتی ہے لہٰذارسول اللہ ﷺ کی اطاعت پورے خلوص اور دل کی گہرائی سے کرو کہ یہی اطاعت الٰہی ہے اسی تقویٰ یعنی قلبی کیفیات نصیب ہوں گی کہ تقویٰ اور اطاعت دونوں ایک دوسرے کا سبب بھی ہیں اور پھل بھی یہی ایمان کا تقاضاتو اطاعت ہے فرمایا مومن تو وہ ہوتا ہے ۔ مومن کی تعریف کہ جب اس کے سامنے اللہ کریم کا نام آئے تو اس کا دل جلالت الٰہی سے لرزاٹھے وجلت سے مراد وہ خوف نہیں جو کسی کے نقصان پہنچانے کے اندیشے سے ہوتا ہے بلکہ یہاں وہ رعب مراد ہے جو کسی عظیم ہستی کی عظمت شان کے باعث دل پہ وار دہوتا ہے یعنی جیسے اللہ کریم کی یاد آتی ہے یا اس کا نام سننا نصیب ہوتا ہے تو اس کی عظمت کا اتحضار نصیب ہوجاتا ہے جو قلبی کیفیات میں ایک اعلیٰ کیفیت ہے اور جب ان کے سامنے کتاب اللہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اگر چہ تلاوت کرتے رہنے سے شرح صدرنصیب ہوتا ہے۔ ایمان میں ترقی اور تلاوت اور اعمال صالح کی توفیق اور آخرت پہ یقین نصیب ہوتا ہے لیکن اگر معانی اور مفہوم بھی آتا ہو تو یہ نعمت جلدی اور احسن صورت میں نصیب ہوتی ہے اور نافرمانی سے طبعانفرت پیدا ہوجاتی ہے ۔ توکل اور تیسرے یہ کہ وہ اسباب کو چھوڑ نہیں دیتے بلکہ بھر وسہ اللہ پر کرتے ہیں تو کل سے ہاتھ پاؤں تو ڑ بیٹھ رہنا مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ طلب معاش ہو یا کوئی اہم کام ملکی اور سیاسی سطح کا پوری محنت سے اسباب وذرائع اختیار کئے جائیں مگر بھر وسہ اللہ ہو ورنہ اسباب پر بھر وسہ کرتے ہیں ۔ اور چوتھی صفت اقامت صلوۃ کہ وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں یعنی خود بھی اس کے آداب کا پورا لحاظ رکھ کر ادا کرتے ہیں اور دوسروں کو نماز کی تلقین بھی بہتر تنوین فیصلے کرتے ہیں اور پانچویں ادایہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو رزق نصیب ہوتا ہے اسے پھر اللہ ہی کے حکم کے مطابق خرچ کرتے ہیں اس سے مراد مال و دولت بھی ہے اور علم وحال بھی طاقت وقوت جسی ہے اور دقارواقتدار بھی کہ یہ سب نعمتیں اللہ کی طرف سے نصیب ہوتی ہیں اور مومن کی شان یہ ہے کہ کم ازکم اس کی عطاکردہ نعمتوں کو اس کی نافرمانی پہ خرچ نہ کرے ان اوصاف کے حاملین حقیقی مومن ہیں کتاب اللہ کے پہلے مخاطب بھی صحابہ کرا ؓ م ہیں اور مثالی مومن بھی لہٰذا بعد والوں کے لیے قیامت تک یہ اوصاف ایک آئیسنہ ہیں کہ اپنے ایمان کی حیثیت کا تعین کرتے رہیں محض کلمہ اداکرکے مومن کہ لانا تو مشکل نہیں جبکہ اعمال خود اس دعوی کو رد کر رہے ہوں بلکہ ایمان کی ایک حقیقت بھی ہے جو ان آیات میں ارشاد ہوئی ہے جیسا کہ حضرت حسن بصری سے پوچھا گیا کہ کیا آپ مومن ہیں تو فرمایا اگر تمہاری مراد اگر اللہ تعالیٰ فرشتوں کتابوں اس کے رسورلوں اور آخرت پر یقین رکھنے سے ہے تو یقینا میں مومن ہوں اور اگر مراد سورة انفال کی آیات سے ہے تو اللہ ہی بہترجاننے والے ہیں قیامت کو فیصلہ کا پتہ چل سکے گا چناچہ ان اوصاف کے بعد ارشاد ہوا کہ ان لوگوں کے لیے جو ان اوصاف کے حامل ہوں اللہ کے پاس اعلیٰ درجات ہیں اور بخشش ہے اور بہترین رزق ہے ۔ درجات علیاکیفیات قلبی کا ثمرہوتے ہیں بحرمخیط میں ہے کہ اوصاف بھی بھی تین طرح کے ہیں اول قلبی وایمان خوف خدا اور توکل وغیرہ دوسرے بدنی نماز روزہ حج وغیرہ اور تیسرے مالی جیسے اللہ کی راہ میں خرچ اور انعام بھی تین طرح کے بیان ہوئے ہیں اوصاف قلبی کے مقابل درجات عالی بدنی اعمال کے مقابلہ میں مغفرت اور خرچ کے مقابل رزق کریم انہوں نے جو خرچ کیا ہے اس بہت بہترنصیب ہوگا ۔ پھر اطاعت الٰہی میں جب فناحاصل ہوجائے یعنی ذاتی رائے ختم ہو کر صرف تعمیل ارشاد باقی رہ جائے تو ثمرات کس طرح مرتب ہوتے ہیں اس کا ظہور غزوہ بدر میں ہوچکا اسی پر آخرت کے انعامات کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ تعمیل ارشاد اور ثمرات کما اخرجک ربک یعنی جس طرح رب کریم نے آپ کو گھر سے نکالا اور یہی حق تھا یعنی جو حکم اللہ کریم کی طرف سے آگیا وہ حق ہے اور اس کی تعمیل ضروری ورنہ بظاہریہ ایک خود کشی تھی کہ مکہ والوں سے مقابلہ کے لیے نکلاجائے کہ نہ افرادی قوت ہو نہ اسلحہ نہ راشن اور رمضان المبارک کا مہینہ بھی تو اصل میں جب آپ ﷺ کو اطلاع ہوئی کہ اہل مکہ کا تجارتی قافلہ شام سے لوٹنے والا ہے اور یہ قافلہ دراصل اجتماعی سرمایہ کاری کی کوشش تھی جس میں سب نے مل کر سرمایہ لایا تھا اور یہی منافع ان کا اصل سرمایہ تھا جس سے مسلمانوں کا اور اسلام کا مقابلہ کر رہے تھے اس کے ساتھ بھی کے سترمسلح سوار تھے جن میں چالیس قریش کے سرداروں میں سے تھے اور یہ کروڑوں روپے کا تجارتی سفر مسلمانوں کے خلاف طاقت جمع کرنے کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کی کوشش تھی جسے ناکام کے لیے اور قریش کی کمرتوڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو گھر سے نکالایا مقابلہ کا حکم دیا ۔ چنانچہ آپ نے روانگی کا اعلان فرمایا تو کچھ لوگوں کے پاس سواریاں نہ تھیں یا دوسرے موافع درپیش تھے تھی مگر جب اللہ کا حکم تھا تو نکل کھڑے ہوئے جب بدر کے قریب پہنچے تو قافلے کی خبرگیری کے لیے مخبربھیجے گئے پتہ چلاصورت حال بدل چکی قافلے والے بھی فکر مند تھے چناچہ انہیں مسلمانوں کے آنے کی اطلاع ہوگئی اور وہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ نکل گئے نیز انہوں مکہ مکرمہ اطلاع کردی کہ ہمیں خطرہ ہے تو مکہ سے چنے ہوئے جنگجوشہسواروں کا ایک ہزارکا لشکر ان کی مدد کو لپکاجو برابر آگے بڑھتارہا اسی لیے جب مشورہ ہواتو بعض حضرات نے عرض کیا کہ قافلہ بھی جاچکا اور اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ ہمارے بس میں نہیں لہٰذا یہ جنگ اب ضروری نہیں اس سے بچنا ضروری ہے یعنی انہوں نے جنگ کو ناپسند کیا لکرھون سے یہی مراد ہے اور وہ اپنی اس رائے پر مصر تھے یعنی آپ ﷺ کھڑے ہوئے تھے خود ذات عالی ﷺ کو خطرہ تھا اور کی تصدیق بھی حضور اکرم ﷺ نے فرمادی کہ جب عریش بدر میں دعا کی تو فرمایا یا اللہ میں سارے کا ساراسلام تیرے راستے میں لے آیا ہوں اگر یہ لوگ یہاں کھیت رہے تو کبھی کوئی تیرانام لیوانہ ہوگا نیز حضرت عائشہ الصد ؓ یقہ کے دوپٹہ کا جھنڈابنایا کہ یہ حرمت نبوی ﷺ ہے اللہ کریم اسے کفار کے پاؤں میں پامال نہ ہونے دے گا بعض جہلانے یہاں صحابہ کرام ؓ پر اعتراض کئے ہیں جو صرف ان کی جہالت کا مظہر ہیں ان کا کوئی محبوب ہوتا اور وہ یوں دشمن کے نرغے میں آچلاہوتا تو یہ کیا مشورہ دیتے ذراسوچ کر انداذہ کریں چناچہ آپ ﷺ نے سب سے فرمایا بیٹھ جاؤاور پھر فرمایا مجھے اللہ کا حکم ہوا کہ مقابلہ کروں اب تمہاری کیا رائے ہے تو صدیق اکبر ؓ فارو اعظم ؓ نے باری باری جہاد کا اعلان فرمایا حضرت مقداد ؓ نے عرض کیا ہم وہ جواب نہ دیں گے جو نبی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا تھا کہ آپ اور آپ کا رب لڑیں ہم تو یہاں بیٹھیں گے آپ اگر برق الغمادتک چلیں تو ہم رکاب ہیں یہ حبشہ کا ایک مقام تھا یعنی سمندر پار تک اور الضار کی طرف سے حضرت سعدابن معاذ ؓ نے کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ آپ دریا میں گھس پڑے تو ہم بھی گھس پڑیں گے اور ایسی قربانی دیں گے کہ آپ ﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی تب آپ ﷺ بہت خوش ہوئے اور فرمایا یا اللہ نے مجھے دونوں یعنی تجارتی قافلہ یا مکہ سے آنے والے لشکر میں سے ایک پر فتح کی بشارت دی ہے اور فرمایا اللہ کی قسم میں اپنی آنکھوں سے مشرکین قتل ہونے کی جگہوں کو دیکھ رہا ہوں تو اب مشورہ کی بات ختم ہوگئی کہ جب حکم ہے تو انشاء اللہ تعمیل ہوگی چناچہ قرآن مجید میں بھی اس کو بیان کردیا گیا کہ اللہ کریم نے دو میں سے ایک جماعت پر آپ کو فتح کی بشارت دی بلکہ وعدہ فرمایا تو مسلمانوں نے یہ خیال کیا کہ قافلہ تھا مگر اس قلیل تعداد اور اسلحہ وغیرہ کے بغیر ایک تربیت یافتہ فوج اور کیل کا نٹے سے لیس لشکر کا مقابلہ بظاہر تو ممکن نہ تھا مگر اللہ کو کو کچھ اور ہی منظور تھا اللہ کریم حق کو غالب کرکے اس کی سچا یہ ثابت کرنا چاہتے تھے اور دوسرے کفارکو سزادینا بھی مقصود تھا ایسی سز کہ ان کی جڑکٹ جائے اور برسرمیدان حق و باطل کا فیصلہ اور دونوں امور کے انجام کا اظہارہوجائے خواہ کفار اس بات کو کتنا ہی ناپسند کریں اور یہی عظیم اور تاریخ عالم میں پہلا دن تھا جب ظالموں کے سامنے مظلومون کو ان کے حقوق دلانے کے لیے صف آراء کردیا گیا اور یہ عظیم ترین کام اللہ کے عظیم ترین رسول ﷺ ہی کو زیبا تھا چناچہ سرمقتل یہ فیصلہ ہوگیا کہ عظمت صرف اللہ کی حکومت اور اسی کا حکم جاری ہونا چاہیئے خواہ یہ بات ان ظالموں کو جو مدت سے مظلوموں کے خون سے ہولی کھیلنا اپنا حق سمجھے بیٹھے ہیں کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو کاش مسلمانوں کو شکاگو کے آٹھ مزوروں کسانوں غریبوں خواتین اور سب کا دن منایاجائے چناچہ جب دونوں لشکر صف آراء ہوئے تو ایک طرف اسباب ظاہر کی شوکت تھی اور دوسری طرف محض اللہ کی رضا اور مدد کا آسرا اگرچہ اللہ کریم خود وعدہ فرماچکے تھے مگر پھر بھی رسول اللہ ﷺ دعا اور استغاثہ نے انتہائی خشوع خضوع سے دعا فرمائی اور صحابہ آمین امین کہتے جاتے تھے لہٰذادعا اور استغاثہ کی اپنی افادیت و ضرورت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر دعا کا ادب یہ ہے کہ جو وسائل اختیار اور بس میں ہوں وہ اختیار کرکے دعا بھی کی جائے اور اللہ کی اطاعت کو اختیار کیا جائے تو دعا فورا قبول ہوتی ہے جیسے یہاں فورا قبولیت کا مثردہ سنایا گیا بلکہ فرمایا تمہاری مدد کے لیے اللہ کریم ایک ہزار فرشتہ بھیج دے گا جو ایسے ہی قطاراندر قطار یعنی فوجی زبان میں فارمثین میں چلے آئیں گے کہ اگر کفار کے لشکر میں ایک ہزارمسلح جنگجو ہیں تو اللہ کریم بھی ایک ہزار فرشتہ تمہاری طرف سے لڑنے کو ارسال کردے گا۔ حالانکہ بعض اقوام کو غرق کرنے کے لیے ایک ایک فرشتے نے زمین کا تختہ الٹ دیا یہاں محض رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خدام کی عظمت کا اظہار ہے جو ایسے اہتمام ہو رہے ہیں اور یہ قانون ارشاد ہورہا ہے خلوص وللہیت کہ جب کام اللہ کی اطاعت اور تعمیل ارشاد کے لیے کیا جائے اور اس میں خلوص ہو تو کوئی مشکل نہیں رہتی بلکہ اللہ کریم فرشتوں سے وہ کام کروادیتے ہیں اور انسان اجرپانے والا ہوتا ہے یہاں اگر چہ ایک ہزار کی تعداد کا تذکرہ ہے ، مگر سورة اٰل عمران میں تین ہزار اور پانچ ہزارکاذکر بھی ہے کہ جب یہ شورہوا کہ مشرکین کے لیے کمک آرہی ہے ، تو اللہ نے فرمایا جو بغیر فرشتوں کے محض اپنے امر سے بھی سب کچھ کرسکتا ہے کہ ہم بھی کمک روانہ کردیں گے تین ہزار اور مزید ضرورت ہو تو پانچ ہزار مقصد یہ کہ اب مقابلہ فرشتوں اور مشرکین میں ہے مسلمانوں کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اطمینان قلبی اور فرشتوں کا نزول آپ لوگوں کے لیے کی بشارت کے ساتھ ساتھ اطمینان کا سبب بنانا بھی مقصود تھا کہ اطمینان قلبی کا انحصارملائ کہ سے انس اور صفات ملکی پیدا ہونے سے نصیب ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ذکر کو اطمینان قلب کا باعث قراردیا گیا کہ دوام ذکر بھی صفات ملکوتی میں سے ہے ورنہ پھر دل سے شیطان کا رابطہ ہوجاتا ہے جو سراسر بےاطمینانی اور تشویش کا باعث ہوتا ہے اور مددتو اللہ ہی کی ہے فرشتوں سے کرے قادر ہے ان کے بغیر کرے قادر ہے اس لیے کہ وہ غالب ہے اور بہت بڑی حکمت والا ہے اسے خبر ہے کہ کہاں اور کتنی مدد کی جائے ۔ اور یہ بات واضح ہوگئی کہ صحابہ کرام ؓ کو کس درجہ کا فنافی الرسول حاصل تھا کہ وہ جس کام کو بڑھے اللہ نے فرشتوں سے اس کی تکمیل کرادی معترضین کو یہاں اپنی حیثیت دیکھ کرنا چاہیئے تھی ۔ حتی کہ صحابہ کرام ؓ نے سعید عماموں میں اور گھوڑوں پہ سوار فرشتوں کو عملی طور پر لڑائی کرتے ہوئے دیکھا اس کے متعلق روایات ملتی ہیں ۔ اور نتیجہ سترچوٹی کے سردارقتل ہوئے اور سترمشرک قید کرلیے گئے اور مکہ والے ذلت و خواری اور شکست سے دوچارہوکرلوٹے تقریبا مکہ جملہ قیادت تباہ ہوگئی کچھ موت کے منہ میں چلے گئے اور باقی جو بچے قید ہوگئے ۔
Top