Asrar-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تَتَّقُوا : تم ڈروگے اللّٰهَ : اللہ يَجْعَلْ : وہ بنادے گا لَّكُمْ : تمہارے لیے فُرْقَانًا : فرقان وَّيُكَفِّرْ : اور دور کردے گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہاری برائیاں وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخشدے گا تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِيْمِ : بڑا
اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمہارے لئے امتیاز پیدا فرما دیں گے اور تم سے تمہارے گناہ دور فرمادیں گے اور تمہیں بخش دیں گے اور اللہ بڑے فضل کے مالک ہیں
آیات 29 تا 37 اسرار و معارف تقوی کے ثمرات اطاعت نبوی سے ایک دلی نسبت اور قلبی کیفیت نصیب ہوتی ہے جو تقوی کہلاتی ہے اور یہ کیفیت گناہ اور نافرمانی سے مانع بن جاتی ہے لہٰذا اگر تم اطاعت اور تقوی ہی کو شعاربنالوتو اس کی مزید برکات بھی سن لو کہ تمہیں فرقان یعنی ایسی طاقت جو حق و باطل میں حق کو غالب کرکے فیصلہ کردے سب پر عیاں ہوجائے نصیب ہوگی ظاہر ہے یہ نصرت الہیہ ہی ہوسکتی ہے اس کا اظہاریوم بدرہواتو اسے یوم الفرقان کہا جاتا ہے نیز اگر خلوص دل سے اطاعت الٰہی کو شعاربنالیاجائے تو ایسے لوگوں کی مجلس بھی نصیب ہوتی ہے جن کی محفل میں انعکاسی طور پر قلبی نور اور بصیرت نصیب ہوکر گناہ سے مانع اور حق پر استقامت کا باعث بنتی ہے اور یہ ہی بہت بڑی نصرت الہیہ ہے دوسراثمرہ تقوی اور نیکی پر مجاہدہ اختیار کرنے کا یہ ارشاد فرمایا کہ ہزار کوشش کے باوجود تبقاضائے بشریت انسان سے لغزش ہوجاتی ہے اللہ کریم ان لغزشوں معاف فرمائیں گے اور تیسراثمرہ اخروی نجات و بخشش ہے کہ اللہ کریم اپنے کرم میں ڈھانپ لیں گے اور میدان حشر کی پریشانی نہ اٹھاناپڑے گی صرف یہی کچھ جو پہلے بیان ہوایا اب ہوراہا ہے ۔ بلکہ اللہ کا کرم تو بہت وسیع ہے یہ تو ایک جھلک ہے وہ کیا کچھ دے گا یہ تو وہ خودہی جان سکتا تم حق غلامی ادا کرتے رہو پھر کرم کے تماشے دیکھنادار دنیا میں دیکھ لوکفار مکہ نے کس قدرتدبیریں کیس کہ ذات رسالت مآب ﷺ کو نقصان پہنچائیں شہربدر کردیں یا قید کرلیں یا قتل کردیں یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے جب صحابہ ؓ نے مدینہ کو ہجرت شروع کی اور اہل مدینہ کا مسلمان ہونا مشہور ہواتو کفار مکہ کو فکر لگی کہ یہ بات تو باہر پھیل رہی ہے اس کا مستقل تدارک کیا جانا ضروری ہے چناچہ وارالندوہ میں جمع ہوئے جن میں تقریبا سب ہی سردار تھے ابلیس لعین بھی بوڑھے آدمی کی صورت بناکر کھڑا ہواپوچھنے پر کہا نجد سے آیا ہوں سنا ہے تم کوئی اہم مشورہ کرنا چاہتے ہوتوچلا آیا کہ شائد میں بھی کچھ رائے دے سکوں انہوں نے اندربلالیا چناچہ ایک رائے یہ ہوئی کہ زنجیروں سے جکڑ کر مکان میں بند کردیا جائے تو ازخود ختم ہوجائیں گے مگر ابلیس نے روکا اور کہابات چھپ نہ سکے گی اور ان کے جانثار ٹوٹ پڑیں گے ممکن ہے آزاد کرالیں سب نے کہا شیخ نجدی ٹھیک کہتا ہے پھر ایک رائے دی کہ انہیں شہر سے نکال دیں اور باہر جو چاہیں کریں پھر یہاں داخل نہ ہونے دیں تو ابلیس ہی نے ردکردی کہ باہر طاقت حاصل کرلیں گے تو تم سے شہر بھی لے لیں گے آخری رائے ابو جہل کی تھی کہ تمام قبیلوں سے ایک ایک جوان لیں اور سب ملکر انہیں قتل کردیں تو یہ جھگڑا ختم ہوجائے گا اب رہا ان کے خاندان کا مسئلہ تو قصاص تو ہو نہ سکے گا کہ بہت سے لوگ ہوں گے کیا خبر کس کی ضرب سے موت واقع ہوئی لامحالہ دیت اور خون بہا ہوگا جو سب مل کر ادا کردیں گے اس پر شیخ نجدی نے بھی تا ئید کی اور طے ہوا کہ رات کو آپ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جائے علی الصبح نکلیں تو یکبارگی حملہ کرکے قتل کردیا جائے ادھر یہ ہورہا تھا ادھر جبرائیل امین نے سب حالات عرض کریے اور اللہ کریم کی طرف سے ہجرت کی اجازت بھی اور پروگرام پہنچادیا چناچہ دن کو ہی ابوبکر صدیق ؓ کو ہمراہی کے لیے حکم مل گیا اور ہجرت کا وقت بھی اللہ کریم نے وہی رکھا جب لفارپہرے پہ ہوں حضرت علی ﷺ کو بستر پر سلانے کا حکم ہوا چناچہ آپ ﷺ رات کو نکلے مٹھی خاک سب پر پھینکی اور سورة یسن کی تلاوت فرماتے ہوئے نکلے اور چلے گئے کفار دیکھ ہی نہ سکے آپ بیت اللہ شریف آئے پھر ابوبکر صدیق ؓ کے گھر تشریف لائے اور انہیں ساتھ لے کر ہجرت کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔ ادھر علی الصبح حضرت علی ؓ نکلے تو کفار حیران ہوگئے کہ آپ صحیح وسالم وہاں سے بچالیا کہ آپ کا دجودمبارک ہی تو سب برکات کی اصل ہے اور اللہ کی مدکاتماشہ بھی دیکھ کیسا قادر ہے کہ کفار نے بھی بڑی مکاری سے کام لیا اؤ آپ کے خلاف سازش کا جال بناابلیس لعین تک اسمیں شریک ہوا اور اللہ کریم نے بھی اس کا تو ڑ تدبیرہی سے کیا اور اللہ ہی کی تدبیر سب سے اعلی اور سب پر غالب ہے عالم اسباب میں اللہ کریم ہی اسباب اور ان کی تاثیرات کو پیدافرماتے ہیں لہٰذاکفار کی تدابیرنامرادرہتی ہیں ۔ نبی کی مخالفت کا اثر اور اللہ کے نبی کی مخالفت سے جو اثران کے قلوب اور باطن پر مرتب ہوتا ہے وہ انتہائینامرادی کا مظہرہوتا ہے ایک تو تدبیرناکام ہوئی دوسردل تاریک ہو کر حق کو سمجھنے کی اہلیت و استعداد کھوبیٹھا اور جب آیات الٰہی سنیں تو کہہ اٹھتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں ہم پہلے بھی سنتے رہتے ہیں اور یہود ونصاری کی کتب میں بھی اس طرح کے قصے ہیں جن کا اب کوئی گواہ تو ہے نہیں اگر ہم بھی کوئی کہانی گھڑکربیان کرسکتے ہیں بھلایہ کونسا مشکل کام ہے حالا ن کہ قرآن حکیم نے کوئی بھی واقعہ محض تاریخی اعتبار سے یا واقعات نگاری کی غرض سے بیان نہیں کیا بلکہ ہر واقعہ اپنے منطقی نتائج کے اعتبار سے بیان ہوا ہے اسی لیے ایک ایک واقعہ کے متعددٹکڑے مختلف مقامات پر آئے ہیں یعنی جس حصے کے نتیجہ مختلف نہیں ہوگا اور کتاب اللہ کا یہ اعلان بھی موجود ہے کہ اگر اد طرح کی عبارت کہہ سکتے ہو تو ایک آیت کے مقابلہ میں ایک بات کہہ کردکھاؤ تو اگر یہ کہہ سکتے تو ضرور کتاب اللہ کو جھٹلا نے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے مگر نہ کرسکے محض قلب کے الٹ جانے کے باعث ان کی عقل نے یہ نتیجہ اخذ کیا ۔ بلکہ اس سے بھی عجیب بات کہ اللہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ اگر یہ حق ہے یعنی جو دعوی اور دعوت آپ کی ہے اگر یہ واقعی تیری طر سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کسی اور درد ناک عذاب میں مبتلا کردے حالانکہ تقاضائے عقلی تو یہ تھا کہ اگر دعامانگناتھی تو کہتے اے اللہ اکر یہ حق ہے تو ہمیں قبول کرنے کی تو فیق عطا کر اور اگر نہیں تو اس سے بچنے کی تو فیق دے مگر ان کی تو عقل ہی الٹ گئی کہ بیت اللہ سے لپٹ لپٹ کر اپنی ہلاکت کی دعا کرتے ہیں ۔ حالا ن کہ جب آپ وہاں موجو ہیں تو اللہ کریم ہرگز عذاب نازل نہ کریں گے ۔ برکات نبوت ایک تو سنت اللہ ہے کہ جہاں عذاب نازل فرمانا ہو وہاں سے انبیاء کو نکال لیا جاتا ہے دوسرے آپ ﷺ کے باجود کی برکات بھی کمال درجہ کی ہیں ۔ کہ جہاں آپ ﷺ تشریف رکھتے ہیں وہاں کفار بھی دنیا کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں اور اجتماعی ہلاکت سے محفوظ ہیں اگر چہ جزدی طور پر اپنی بدکرداری کے باعث متاثر ہوتے ہیں یہی وجہ مفسیرین نے نقل فرمائی ہے کہ جب آپ کی نبوت ہمہ گیرسب جہانوں اور زمانوں کے لیے ہے تو گویا آپ ہر آن تشریف رکھتے ہیں لہٰذ پوری انسانیت اجتماعی عذاب سے بچ گئی اور بعث سے قیام قیامت تک پہلی قوموں کی طرح کے اجتماعی عذاب سے انسانیت محفوظ ہوگئی اگر آپ ﷺ کے انوارات دل اور لطائف صدری میں ہوں تو گناہ سے حفاظت کا سبب بنتے ہیں کہ گناہ بھی تو غذاب کی ایک صورت ہے جو اپ ﷺ کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ نازل نہیں فرماتے ۔ دوسری وجہ ان لوگوں کا استغفار ہے جو افلاس اور کمزوری کے باعث شہر چھوڑ نہیں سکے اور مکہ مکرمہ میں ہی اللہ اللہ کر رہے ہیں ۔ نیز کفار بھی طواف کرتے تو غفرانک ، عفرانک کہتے تھے اور علماء نے لکھتا ہے کہ کافر کی نیکی بھی دنیا میں ضرورپھل دیتی ہے اگر چہ آخرت میں اس کی کوئی قیمت نہیں ۔ بہرحال آپ کا وجود مبارک جہاں ہو یا آپ کی برکات وانوارات تو یہ مانع غذاب ہیں اور آپ ﷺ کا ہونا یعنی روضہ اطہر میں زندہ ہونا اور آپ کی رسالت تو قیامت تک قائم ہیں یہ بحث کہ روضہ اطہر میں زندہ ہونے اعتبار سے دنیاوی اور جسمانی حیات ہے بلکہ دنیا کی نسب قوی تر ہے بہرحال استفادہ بھی تاقیامت کیا جاسکتا ہے اور عمومی فیض بھی ساری کائنات کو حاصل ہورہا ہے ۔ نبی ﷺ کی برکات سے کٹنے کا نتیجہ ہاں اگر کوئی آپ ﷺ ہی کے مقابل صف آرأہوجائے اور آپ کی برکات سے کٹ جائے تو فرمایا ایسی صورت میں اللہ کیونکہ غذاب نازل نہ کرے گا کہ وہ مسجد حرام سے روکنے لگیں اور پھر کفارومشرکین کو طواف کی اجازت ہو اور رحمت عالم ﷺ کی منع کردیا جائے اور اور لوگ آپ کے مقابلہ میں صف آراء ہوں تو عذاب الٰہی سے کیسے بچ سکتے ہیں ۔ چناچہ کفار کی تباہی کا آغاز ہوا اور تباہ ہی ہوتے چلے گئے بیت اللہ سے روکنا ان کے لیے یوں بھی مناسب نہ تھا ۔ کہ وہ تھوڑے سے ہی اس کے مستحق تھے وہ اس کے متولی تو نہ تھے کہ متولی وہ لوگ ہیں جو متقی ہوں اور کیفیات قلبی آپ ﷺ حاصل کریں ۔ گدی نشین کہ یہ ولایت محض خادندانی اور نسبی نہیں بلکہ اس کا انصار ضروری کمالات پر ہے اور یہی اصول متقدمین صوفیا میں تھا کہ محض بیاجانشین نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اس کے لیے ان کمالات کا ہونا شرط تھا جو اس منصب کے لیے ضروری ہوں مگر آخریہ بات نہ رہی تو گدیاں بھی نااہلوں کے ہاتھوں میں چلی گئیں اور ہدایت کے یہ چشمے کدلاکر باعث نقصان ثابت ہوئے ۔ کفار مکہ تو جو کچھ بیت اللہ میں کرتے ہیں وہ بھی محض تماشہ اور رسومات ہیں اور سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹناان کی عبادتیں ہیں یہ تو خود اس عذاب کے مستحق ہیں کہ انہیں رسواکرکے یہاں سے بھگادیا جائے چناچہ مختلف غزوات میں اللہ کی طرف عذاب نازل ہوا اور بلآ خر مکہ مکرمہ سے ہمیشہ کے لیے کفار و مشرکین کو نکال دیا گیا اور بجا ارشاد فرمایا یہی عذاب الٰہی کی صورتیں ہیں ان کو بھگتو جبکہ آخرت کے عذاب تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں یہی حال نااہلو کی گدہی نشینی سے ہوتا ہے کہ ذکر اذکار اور احوال و کیفیات قلبی کی جگہ رسومات وبدعات اور خرافات اختیار کرکے خو بھی تباہ ہوتے ہیں اور متعلقین کو بھی گمراہ کرکے تباہی سے دوچار کرتے ہیں ۔ کفر ہمیشہ ناکام کفر کا نتیجہ اور بوجہ کفر عقل کا اند ھاپن دیکھئے کہ اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے مال بھی خرچ کرتے ہیں بدرواحد میں لشکروں کی تیاری پھر تب سے لے کر آج تک کفار کی خلاف اسلام کوششوں پہ بیشمار اخراجات کتنی عجیب بات ہے کہ اللہ نے مال دی عقل دیا اعضاء دیئے یہ اسی یہ اسی کی اور اس کے دین کی مخالفت پہ خرچ کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا مال ضرور خرچ ہوجائے گا ۔ کوشش اور محنت ضرور خرچ ہوگی مگر یہ سب کچھ ان پر حسرت ہی کا سبب بنے گا کہ ناکامی ان کا مقدربن چکی ہمیشہ شکست سے دوچار ہوں گے اور اپنے مال اور وقت نیز کوشش کے ضائع ہونے پر حسرت کریں گے اور اللہ کی شان اب تک کفر کی ساری کوششیں کے ضائع ہونے پر حسرت کریں گے اور اللہ کی شان اب تک کفر کی ساری کو ششیں مسلسل ناکام فنامرادہی ثابت ہوئیں اور اللہ کا دین قائم رہا قائم ہے اور انشاء اللہ قائم رہے گا دنیا کی ذلت اور نامرادی کے بعد آخرت کا حال اور بھی حسرتناک ہوگا کہ کافروں کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جھونک دیاجائے گا اس لیے کہ بعد آخرت کا حال اور بھی حسرتناک ہوگا کہ کافروں کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جھونک دیا جائے گا اس لیے کہ ہر شے اور ہر فعل کا ایک منقطی نتیجہ ہوتا ہے تو ظاہر ہے ناپاک تو نہ لگائیں گے بلکہ انصاف کریں گے اور ناپاک مال ناپاک اعمال اور ناپاک ارادوں کو پاک سے الگ کرکے یکجاکردیاجائے گا اور یہ سارا ڈھیر جہنم کا ایندھن بنے گا اور ایسے ہی لوگ بہت زیادہ نقصان میں رہیں گے لہٰذ آج بھی ذرائع آمدن مال ارادے اور اعمال کو پرکھتے رہناضروری ہے بدکردار کا انجام نیکوکاروں کے ساتھ نہ ہوگا اور رسومات کبھی کیفیات نہ پاسکیں گی نیز سب سے بڑاخسارہ یہی ہے کہ انسان ساری عمر کوشش اور محنت کرتا رہے مال بھی لگائے اور پھر اس سب کچھ سمیت اسے جہنم میں جانا پڑے اللہ کریم اس نقصان عظیم سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ امین ۔
Top