Asrar-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 38
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : ان سے جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : اگر يَّنْتَهُوْا : وہ باز آجائیں يُغْفَرْ : معاف کردیا جائے لَهُمْ : انہیں جو مَّا : جو قَدْ سَلَفَ : گزر چکا وَاِنْ : اور اگر يَّعُوْدُوْا : پھر وہی کریں فَقَدْ : تو تحقیق مَضَتْ : گزر چکی ہے سُنَّةُ : سنت (روش) الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
آپ کافروں سے فرما دیجئے اگر وہ باز آجائیں تو ان کے پہلے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور اگر پھر وہی (حرکات) کریں گے تو یقینا پہلے (کافروں) کے حق میں قانون نافذ ہوچکا
آیات 38 تا 41 اسرار و معارف مکر اللہ کے کرم کی تو انتہا نہیں آپ کفار سے بھی کہد دیجئے کہ اگر وہ اب بھی باز آجائیں تو جو ہوچکا اللہ کریم وہ معارف کردیں گے کافر اگر اللہ کا دین قبول کرلے تو سلام می داخل ہونا گذشتہ تمام جرائم کو مٹا دیتا ہے مگر اسلام کا داخلہ یہ ہے کہ کفر کو چھوڑ بھی دے یہ اسلام نہ ہوگا کہ کہہ دے آپ کی بات قبول کرتا ہوں اور پھر بتوں کو سجدے بھی کرتا رہے لہٰذا فرمایا کہ وہ باز آجائیں کفر اور اس کے کردارواعمال کو چھوڑدیں تو اگر کافربازآکر بچ سکتا ہے ۔ توبہ تو مومن کی توبہ تو بدرجہ اولی قبول ہوتی ہے مگر حقیقی تو بہ یہی ہے کہ کردار کی اصلاح کی جائے اور گناہ کو ترک کرکے اللہ سے مغفرت طلب کی جائے لیکن اگر عملی زندگی یاکردار وہی سابقہ رہے تو پہلے لوگوں کو جو نتائج بھگتنے پڑے وہ قانون قدرت لی وضاحت کے لیے کافی ہیں اگر کفار اپنی عادات سے رکنے والے نہیں تو مومن کو بھی مقابلہ سے ہٹ جانا زیب نہیں دیتا بلکہ اگر وہ قتل و غارت سے دین حق اور دینداروں کو مٹاناچا ہیں تو مومنین بھی کے مقابل قتال جاری رکھیں تا وقت کہ انکی شوکت ٹوٹ جاتے اور اللہ کے دین کو غلبہ نصیب ہو۔ جہاد کا حکم علمائے تفسیر نے یہاں لکھا کہ جہاد ہمیشہ کے لیے فرض ہے اگر کفار قتال کریں ۔ یا مسلمانوں کو ایذادیں تو مقابلہ بھی قتال سے اور میدان میں ہوگا اسی طرح تحریر وتقریرہر میدان میں مومن پہ اللہ کے دین کی نصرت فرض ہے اور کفار سے مقابلہ ضروری اور ہر میدان میں اسلام کو غالب رکھنے کی کوشش مسلمانوں پہ ہمیشہ فرض ہے چہ جائیکہ یہ خود کفار سے مرعوب ہو کر شکل و صورت رہائش خوراک اور علمی وفکر ی میدان میں اسے اپنا لیں کہ جو محض کفار کی تقلید ہو تو یہ سب حرام ہے ہاں جدید علوم کو مسلمان معاشرے کے غلبہ کے لیے حاصل کرنا اور ہر میدان میں خواہ وہ تحقیق کا ہو یا اسلام کی مخالفت سے رک جائیں تو محض انہیں تنگ کرنا مسلمانوں کا نہ تو مقصد ہے نہ شیوئہ اسلام اور اگر وہ اس طرح کوئی منافقانہ روش اپنانا چاہتے ہیں تو اللہ کریم ان کے کردار سے واقف ہے یعنی انسان کو یا مسلمان کو تو دھوکادیاجا سکتا ہے مگر وہ اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔ لہٰذا اگر وہ بظاہر امن کی کوشش کرتے رہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دے کر تباہ کرنا چاہیں اور اپنے صلح ناموں سے پھرجائیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کو یہ پختہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ ان کا مدد گار ہے اور ان کی مددوحفاظت کرنے والا ہے اور بہترین مددگار اور معاون اللہ ہی تو ہے اگر کفار سازشیں بھی کریں انکے پاس اسباب وغیرہ بھی ہوں بیشک ہوا کریں مسلمان اللہ کے بھروسے پر جس میدان میں قدم رکھیں گے اللہ کی مدد ساتھ ہوگی جو کامیابی کی ضمانت ہے۔
Top