Asrar-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 49
اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِذْ : جب يَقُوْلُ : کہنے لگے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : مرض غَرَّ : مغرور کردیا ھٰٓؤُلَآءِ : انہیں دِيْنُهُمْ : ان کا دین وَمَنْ : اور جو يَّتَوَكَّلْ : بھروسہ کرے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
جب منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یوں کہتے تھے ان لوگوں (مسلمانوں) کو ان کے دین نے بھول میں ڈال رکھا ہے اور جو اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے تو بیشک اللہ غالب اور حکمت والے ہیں
آیات 49 تا 58 اسرار و معارف بدرکاموقع ایساتھا کہ جتنے دل بھی نور ایمان سے خالی تھے اور محض مادی وسائل تک ہی نظرتھی قدرت باری پہ تو یقین ہی نہ تھا اگرچہ بظاہر اپنے مسلمان ہونے کے بھی مدعی تھے اور یہ عجیب بات ہے کہ وہ خود کو مسلمان بھی کہتے تھے اور قدرت باری پہ نگاہ تھی نہ یقین اس لیے کہ ان کے قلوب بیمار تھے۔ دل کامرض گویا جب تک قلبی صحت نصیب نہ ہودعوے ایمان بھی محض دنیا کے مفادات کی خاطر ہوتا ہے اور یہی نفاق ہے لہٰذا دل کی اصلاح اہم امور میں سے ہے اور ایمان کی بنیاد ہے ورنہ مسلمان کہلانے کے باوجود ذہن کی رسائی کفار سے مختلف نہیں ہوتی کہ یہاں جو اندازہ کفار کا تھا وہی منافقین کا بھی تھا اور وہ تھا کہ مسلمانوں کو ان کے مذہب نے خوش فہمی میں مبتلا کررکھا ہے کہ اتنے بڑے کا تھا وہی منافقین کا بھی تھا اور وہ تھا کہ مسلمانوں کو ان کے مذۃ ب نے خوش فہمی میں مبتلا کررکھا ہے کہ اتنے بڑے لشکر اور اہل مکہ کے ساتھ مقابلے کے لیے نکل پڑے ہیں حالانکہ اس میں سوائے ان کی بربادی کے اور کچھ بھی نہ ہوگا یہ دانشورانہ رائے تھی جس کانمونہ آج بھی نظرآتا ہے مگر وہ یہ بات بھول رہے تھے کہ جو اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ غالب ہے اسے جہان پہ غلبہ دے دیتا ہے اور حکیم بھی ہے کہ بظاہر اگر ان میں سے کوئی کٹ جاتا ہے تو حکمت باری اسے شہادت سے نوازناچاہتی ہے یعنی بظاہر اگر شکست بھی نظرآئے تو اس میں ہزاروں حکمتیں ہوتی ہیں ۔ مرگ کفار موت تو ہر ایک کے لیے ہے مگر اس کے مقابل اگر آپ کافرکو موت کے وقت دیکھیں تو حال یہ ہوتا ہے کہ فرشتے جب روح قبض کرنے آتے ہیں تو منہ پر مارتے ہیں پیٹھ پر مارتے ہیں اور کہتے ہیں ابھی کہاں ابھی تو آگ میں مزے کروگے یعنی رزخ کے عذاب میں داخل ہونا ہے پھر بعد حشرہمیشہ کے لیے جہنم میں ۔ اور یہی حال مشرکین کا بدر میں ہوا کہ جس جس کی موت آتی تھی اسے ان سزاؤں سے بھی سابقہ پڑا اور پھر قلیب بدر میں ڈالے گئے جس پر آپ نے کھڑے ہو کر اور نام لے لے کر پوچھا تھا کہ ہم نے اللہ کا وعدہ سچا پایاتم سناؤتم نے بھی اللہ کا وعدہ سچ پایا ؟ تو سید ناعمرفاروق ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ سن رہے ہیں ۔ سماع موتی جبکہ ان کے اجسام تو مردار ہوچکے فرمایا اللہ کی قسم جس کے قضہ قدرت میں میری جان ہے تم ان سے بہتر نہیں سن رہے ہاں جواب نہیں سکتے ۔ مراد ہے کہ معروف طریقے سے جواب نہیں دے سکتے جس طرح آپ کے سوال کو سب لوگ ظاہراسن رہے تھے مردے بھی سن رہے تھے اگر چہ مشرکین کے تھے مگر اسی طرح جواب نہ دے سکتے تھے ۔ اگر چہ کشفاجواب کا پانا یہاں منع نہیں تفسیر کشف الا اسرار میں ہے کہ مردہ بات سنتا ہے آدمی کو پہچانتا ہے اور گھر کے حالات ہے اس قدرباخبرہوتا ہے یہاں تک جانتا ہے کہ اس کی بیوی نے اس کے بعد نکاح کرلیا ہے یا نہیں ۔ اور یہ مارپیٹ تو ابتدا ہے آگے صعوبتوں میں اضافہ ہی ہوتا چلاجائے گا ۔ مگر یہ سب کچھ لوگوں کی اپنی کمائی ہے ۔ خود انہوں نے اپنے عقائد اور اعمال سے اخروی اور ابدی زندگی کے لیے جو کچھ کیا اسے بھگتیں گے ۔ اللہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ عاجزومحتاج اور بےکس وبے نوابندے کو جو بظاہر خواہ شہنشاہ کہلاتا ہو اس کی بارگاہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں خواہ مخواہ عذاب دے اور اس سے زیادتی کرے لوگ خود اپنے ساتھ ظلم کرتے ہیں اور سنت اللہ اور عادت الٰہیہ یہ ہے کہ جو عمل ہو اس کامنطقی نتیجہ پہنچادیتے ہیں جیسے فرعون اور اس کی قوم یا ان سے پہلے کفار کہ اللہ نے کتنی نعمتیں دیں اقتدار و وقار بخشا مگر جب اللہ کا حکم اور اس کی آیات ان کے پاس پہنچیں تو ان کا انکار کردیا ۔ اللہ کریم نے اس جرم کی سزا میں انہیں پکڑلیا اور اپنے کئے کا نتیجہ انہیں بھگتنا پڑا۔ اس لیے کہ اللہ بہت زبردست طاقت کا مالک ہے اور اس کے عذاب بھی بہت ہی سخت ہیں ۔ زوال نعمت کا سبب وہ ایسا کریم ہے کہ مفت میں نعمتیں بانٹتا ہے یہ ضروری نہیں کہ انسان انعام کا مستحق ہو تو دیا جائے ۔ محض کرم سے وجود ، عقل ، صحت ، مال و دولت اولاد اور حکومت وغیرہ ذالک بیشمار انعامات عطا کردیتا ہے۔ ظاہر ہے وہ یہ سب کچھ چھین کر ذلیل کرنے کے لیے نہیں دیتا لیکن جب لوگ ہی اپنا رویہ بدل ڈالتے ہیں یعنی شکرتو کیا کرتے پہلی حالت پہ بھی نہیں رہتے مزیدگمراہ ہوجاتے ہیں یا ظالم اور سرکش ہوجاتے ہیں یعنی شکر تو کیا کرتے پہلی حالت پہ بھی نہیں رہتے مزیدگمراہ ہوجاتے ہیں یا ظالم اور سرکش ہوجاتے ہیں تو پھر اللہ کا عذاب آجاتا ہے جیسے پہلے کفار پر بحالت کفر بھی دنیا کے انعامات تو تھے مگر جب اللہ کے نبی آئے تو بجائے قبول کرنے کے ان سے ٹ کرلی اور تباہ ہوگئے ۔ اہل مکہ کے پاس پورے عرب کی امارت اور سرداری تھی مگر بجائے آپ پر ایمان لانے کے ایذادینے لگے اور مقابلے میں آگئے تو تباہ ہوگئے اس لیے کہ اللہ کریم ہر ایک کی حرکت اور ارادے تک سے واقف ہے۔ جیسے آل فرعون یا ان سے پہلے کفار کہ اپنے خالق اور رب کے ارشادات کو جھٹلادیا یعنی ایسا کریم جو بحالت کفر بھی انہیں پال رہا تھا اور اس کا کام یہ کہ نبی مبعوث فرمائے انہیں معجزات عطاکئے دلائل عطافرمائے مگر یہ لوگ اپنے پالنے والے کو فراموش کربیٹھے تو اس جرم کے بدلے میں ہلاک کردیئے گئے اور قوموں پہ یکبار گی خدا ب ٹوٹ پڑے جیسے فرعونی کہ غرق ہوکرتباہ ہوے ایسے ہی کسی پر آگ برسی اور کسی پر پتھر کوئی قوم زمین میں دھنس گئی اور کسی پر ہوا کا طوفان مسلط ہوا اور یہ عذاب میں گرفتار ہونے والے سب ظالم تھے اپنے کئے کے باعث گرفتار بلا ہوئے ۔ شرالدو آپ کہ زمین پہ حرکت والے حیوانات میں سب سے برا اور ذ(رح) لیل حیوان وہ انسان ہے جس کا دل نور ایمان سے خالی ہو اور جو ایسی غلط راہ اپنالے کہ کبھی ایمان کو پانے والا نہ بن سکے ۔ جیسے یہود کہ آپ سے عہد کیا مدینہ منورہ میں آپ سے یہود کا معاہدہ ہواتھا کہ مسلمان اور یہودی شہرکامشتر کہ دفاع کریں گے اس کی اور بھی شقیں تھیں مگر یہی شق وہبرقرار نہ رکھ سکے ۔ آپ سے عہد شکنی اور بدر میں اہل مکہ کی مدد کی تو اس طرح جو لوگ وعدہ کرکے توڑتے ہیں اور باربار ایسا کرتے ہی پھر انہوں نے فتح کے بعد معافی مانگی مگر احد میں وہی بلکہ پہلے سے بڑھ کر کردار ادا کیا تو ایسے لوگوں کو کبھی اللہ کے عذاب سے بھی ڈر نہیں آتا یعنی ان کے دل سیاہ ہوجاتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ کوئی تعلق نہی رکھ سکتے ایمان کا اقرار بھی عہداطاعت ہے اس کے بعد اطاعت تو خواہش نفس کی کرے اور حکم دہراتا رہے اور یہ بھی جرم عظیم ہے اس کی فکربہت ضروری ہے کہ اللہ فرماتے ہیں ایسے لوگ جب قابو چڑھیں تو انہیں مثالی سزادی جائے اور پوری قوت سے کچل دیاجائے تا کہ دوسروں کے لیے درس عبرت بن جائیں ۔ سزاکا ایک مقصد یہ تو خود کو سزا کا مستحق ثابت کرچکے اب ان کے ساتھ نرمی دوسروں کو بھی گناہ میں ملوث ہونے پہ ابھارنے کا سبب بن سکتی ہے لہٰذا انہیں ایسی مثالی سزادی جائے کہ دوسروں کی آنکھیں کھل جائیں اور لوگ ارتکاب جرم سے ما زرہیں ۔ اسی لیے حدود میں بھی مثالی سزائیں رکھ کر دوسروں کو ارتکاب جرم سے بچانے کی سعی ان کے ساتھ شفقت ہے نہ یہ کہ کہاجائے اسلام کی سزائیں وحشیانہ ہیں اور اس صریح کفر کے کہنے کے ساتھ اسلام کا دعوی بھی وہاخلعجب۔ اسلام کے اصول حکمرانی ہاں اگر کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو اور پھر ان سے عہد شکنی اندیشی حملہ کرنا درست نہیں بلکہ ان کو عہد لوٹا دیا جائے اور بتادیاجائے کہ تم سے امیدوفا نہیں لہٰذ اہم وہ عہد ختم کرتے ہیں ۔ اب اگر زیادتی کرو گے تو سزاپاؤگے کیونکہ کافر سے بھی خیانت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی سرے سے اللہ کریم خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے اور اگر کافر سے خیانت درست نہیں تو پھر اللہ کی عظمت کا اقرار اور امیدیں غیروں سے آپ کی نبوت کا اقرار مگر اطاعت نہ کرنا پھر درجہ بدرجہ آپس میں مال جان ابرو اور اسی طرح معاملات میں خیانت کرنے والے کیا بھلائی پاسکیں گے کہ اللہ کریم تو کفار سے جو بدترین خلائق ہیں ۔ خیانت کی اجازت نہیں دیتے بلکہ قانون ارشاد فرمادیا کہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسندی نہیں کرتا ۔
Top