Asrar-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 59
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا١ؕ اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ
وَلَا يَحْسَبَنَّ : اور ہرگز خیال نہ کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سَبَقُوْا : وہ بھاگ نکلے اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَا يُعْجِزُوْنَ : وہ عاجز نہ کرسکیں گے
اور کافر لوگ یہ خیال نہ کریں کہ وہ بچ گئے یقینا وہ (اللہ کو) عاجز نہیں کرسکتے
آیات 59 تا 64 اسرار و معارف اور کو کفار ابھی تک عذاب سے دوچار نہیں ہوئے یابدر کی شکست کے اثرات سے بچ رہے ہیں وہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ وہ اللہ کی گرفت سے باہر ہیں انہیں بھی نہ دنیا کے عذاب ہے اب تک روے زمین پر بیشمار جدید ایجادات کے باو جود کفار ہر طرح سے عجیب و غریب عذابوں میں گرفتار ہیں مغربی معاشرہ جس پر ہمارے لوگ فدا ہیں اس کی اخلاقی حالت جنسی بےراہ روی اور ان پر آسمانی آفتیں زلزلے طوفان اور خطرناک ترین اور رذیل ترین بیماریاں یہ سب عذاب الٰہی کی مختلف صورتیں ہیں یہی حال مشرق کے کفار کا ہے ان کا کھانا تک عذاب کی صورت ہے ۔ کتے بندر چوہے مینڈ اور سانپ کھانا کیا بجائے خودعذاب کی صورت نہیں پھر اخلاقی دیوالیہ پن اور آفات سماوی ان سے امور پر نگاہ کی جائے ۔ جائے پناہ تو دوعالم میں جائے پناہ صرف ایک ہے اور وہ ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی خلوص دل سے غلامی اور بس ۔ ورنہ بجالت کفر کوئی بھی اللہ کے عذاب کی گرفت سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا ۔ جہاد کے لیے تیار رہنے کا حکم نیز مسلمانوں کے لیے ارشاد ہوا کہ جہاد کے لیے اور کفر کو جارحیت سے روکنے کے لیے جس قدرممکن ہواسقدرتیاری کرکے رکھو یہاں ما استطعتم فرما کر یہ فرمایا کہ ایسی تیاری ضروری ہے جو تمہارے اختیار میں ہو اور کسی ایسے سامان کی ضرورت نہیں جو تمہارے بس میں ہی نہ ہو لہٰذا مسلم حکومتوں کی اسلحہ کے لیے گٹھیا اور نقصان دہ شرائط کفار سے مدد لینا جائز نہیں ہاں جو کچھ بس میں ہو وہ ضرور کیا جائے اس کے بعد اللہ مالک ہے خود اسباب پیدافرمادے گا وہ عہد تو تھا ہی برکات کا عہد اب کے زمانہ میں افغان مجاہدین نے خالی ہاتھ کفر کی بہت بڑی طاقت کے دانت توڑ کر یہ ثابت کردیا ہے کہ ایمان اور عمل جیسے بہترین ہتھیار اور کوئی نہیں ۔ ہاں جس قدرہوسکے خوبصورت پلے ہوئے گھوڑے یعنی سامن حرب کہ اس دور کا بہترین جنگی ساتھی گھوڑاہی تھا ۔ وقت ملک اور حالات کے اسباب تو بدل سکتے ہیں اصول نہیں اگر اس وقت گھوڑے تھے اب ان کی جگہ ٹینک آگئے ہیں اسی طرح ہوائی افواج میں جدید طیارے وغیرہ تو یہ سب چیزیں اسی حکم میں ہیں ۔ یعنی سامان حرب بھی ہو جنگی مشقیں بھی کی جائیں اور افواج اسلامی ہمیشہ شان و شوکت کے ساتھ بہترین تیاری میں رہیں اسی لے حدیث شریف میں جہاد کی تیاری خواہ نشانہ ہازی ہو یا ورزش جنگی مشقیں ہوں یا سامان جنگ کی دیکھ بھال سب سے اعلیٰ عبادت قراردی گئی ہے کہ وقت ضرورت کام تو آئے گی ہی دشمنوں پر اسی کی ہیبت اور رعب بھی تو ہوگا کہ صرف یہی دشمن نہیں جو آپ کے سامنے ہیں ابھی تو دنیا میں ایسی اقوام باقی ہیں جن سے آپ لوگ واقف بھی نہیں مگر راہ حق میں ان سے مقابلہ ہوگا اور اللہ کریم انہیں خوب جانتے ہیں ۔ چناچہ خلفاء راشددین کے زمانے میں ۔ وم وفارس کے علاوہ چین سے افریقہ اور سپانیہ تک مختلف اقوام عالم سے مقابلہ کرنا پڑا اور ہر جاتا ئیدباری نے فتح سے ہمکنار فرمایا ۔ نیز اللہ کے راہ میں محنت کوشش یا مال و دولت جو بھی صرف ہوتا ہے کبھی رائیگاں نہیں جاتا اور جہاد اور ترویح حق تو بہترین عمل ہے اس میں جو خرچ ہوگا وہ بھی بہترین طریقے پہ واپس وصول ہوگا اللہ کریم تو کسی کا حساب نہیں مارتے اور زیادتی نہیں کرتے ۔ اسلام اور جنگ نیز اگر کفار صلح کے لیے کہیں اور مناسب شرائط پر صلح کریں اسلام جنگ چاہئیے اگر کفار سرکشی اور زیادتی سے بازآجائیں تو آپ ان سے ضرورصلح کرلیں ہاں یہ نہ ہوگا کہ وہ سرکشی پہ آمادہ ہوں اور مسلمان صلح تلاش کریں اس طرح تو وہ کمزور جان کر ظلم پر اور دلیر ہوں گے اگر وہ باز آئیں تو ضرور صلح کرلی جائے اور اندر کی بات کہ دھوکہ نہ دیں اس کے لیے اللہ پر بھروسہ کریں کہ وہ سب کچھ سنتا ہے جو وہ مشورے کرتے ہیں اور جو ان کے دلوں میں ہے جانتا ہے ۔ محض کمزور احتمالات پہ مومن کو ڈرنا نہ چاہیئے کہ اگر کفار نے آپ کو دھوکا بھی دینا جاہا تو ان کے مقابل آپ کو اللہ کافی ہے جس نے پہلے بھی مدد فرمائی کہ اپنی تائید ونصرت سے نواز فرشتوں کو نازل فرمایا اور بہترین خدام عطافرمائے ۔ شا صحابہ ؓ صحابہ کرام ؓ ایسے جان نثار تھے کہ اللہ کریم ان غلاموں کو اپنی طرف سے بطور تحفہ شمار کرتے ہیں کہ دیکھئے فرشتے بھی نازل فرمائے اور یہ غلام بھی بخشے سبحان اللہ برکات رسالت میں سے ایک کا ذکر اور پھر آپ سب کے دلوں میں الفت ڈال دی اور یہ آپ ﷺ کی برکات میں سے عظیم برکت تھی کہ دلوں سے کدورتیں اور نفرتیں مٹ گئیں اور محبت والفت نے جگہ پائی حالانکہ وہ معاشرہ ایسا تھا جہاں نفرت جنگ اور قتال ہی کی بات ہوتی تھی اور اگر کوئی چاہتا کہ روئے ذمین کی ساری دولت لٹاکر انہیں اس طرح ایک دوسرے کی محبت کا اسیر کردے تو بھی ممکن نہ تھا لیکن رب جلیل نے یہ کردیا کہ آپ کے وجود باجود میں وہ برکت رکھ دی وہ کمال پیدا فرمایا کہ جو بھی منسلک ہوتا گیا اس کے دل میں اللہ کی محبت آپ کی محبت اسلام کی محبت مسلمان سے محبت اور آخرت سے محبت یعنی محبتوں کے چشمے جاری ہوگئے ۔ خلافت شیخین اور یہ کمال حلافت صدیقی اور فاروقی میں بھی ایسے کمی قائم رہا اس لیے علماء حق نے شیخین کی خلافت کو علی منہاج النبوۃ قراردیا ہے کہ ان دونوں زمانوں میں برکات نبوت کا ظہور پوری طرح سے تھا پھر اختلافات درآنے لگے اور یہ محبت ہی آج بھی معیارحق ہے کسی شیخ کی نسبت اور تعلق سے یہ محبت ملے تو یہ مقصود ہے ورنہ نفرتیں اور محض فرقہ بندیاں کمال کی دلیل نہیں ۔ اور اے حبیب آپ کے لیے اللہ ہی کافی ہے اور ظاہر اجوجماعت خدام کی اللہ نے بخشی ہے وہی کافی ہے یعنی حقیقی اعتبار سے تو اللہ ہی بس ہے ۔ اب بظاہر مقابلے میں کثرت وقلت یا اسباب ظاہری کی پروانہ کی جائے اور یہی قانون مومنین کے لیے ہمیشہ کا ہے کہ اللہ اور اس کے حبیب کے ساتھ خالص اور کھری محبت رکھیں تو آپس کی محبت نصیب ہو اور کفر کے مقابلہ میں آج بھی اگر مسلمان ریاستیں متحد ہوجائیں تو دنیا کی عظیم عسکری قوت بن سکتی ہیں اور اتفاق انفرادی آراء پر نہیں ہوا کرتا صرف اللہ کی بات اور آپ کی اطاعت پہ ہوسکتا ہے اور پھر یہ قوت کفر کے تمام ترفتنوں کو فرد کرنے کے لیے بس ہے۔
Top