Asrar-ut-Tanzil - At-Tawba : 100
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
اور سبقت لے جانے والے ، اولیت رکھنے والے (ایمان لانے میں) مہاجرین اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے خلوص کے ساتھ ان کی پیروی کی۔ اللہ ان سے راضی ہوئے اور وہ اللہ سے خوش ہوئے اور ان کے لئے ایسے باغ بنا رکھے ہیں جن کے تابع نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے
آیات 100 تا 110 اسرار و معارف سابقون الا ولون بلکہ تمام انسانیت پر سبقت لے جانے والے لوگ کہ بجزانبیاسب سے افضل ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمادی کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں لہٰذ افتح مکہ سے قبل جسقدر صحابہ کرام گھر چھوڑ کر اللہ کی راہ میں نکلے اور آپ ﷺ کی اطاعت میں کمربستہ ہوئے سب مہاجر ہیں ۔ انصار مدینہ منورہ کے ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو فرمایا گیا جنہوں نے مہاجرین کونہ صرف قبول کیا جگہ دی جائیدادیں ان کے ساتھ بانٹ لیں بلکہ ان کے شانہ بشانہ داد شجاعت دی اور اسلام کو غالب کرنے اور کفر کے مقابلہ میں سربکف رہے ۔ اگر چہ علماء نے مختلف انداز سے تعین کی کوشش فرمائی ہے مگر سید ھا سادا معنی یہی ہے اس کے علاوہ جو صحابہ رضو ان اللہ علیہم اجمعین بھی ہیں اگرچہ شرف صحابیت سے سب مزین ہیں اور سب کے لئے اللہ کی رضا اور جنت کی بشارت قرآن کریم میں موجود ہے مگر اس آیہ کریمہ کے اعتبار سے وہ تیسری جماعت ہیں اور پھر تابعین یا قیامت تک آنے والے مسلمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اسی تیسرہ جماعت میں شامل ہیں یعنی مہاجر انصار اور خلوص دل سے ان کے نقوش پاپہ چلنے والے ۔ چوتھا کوئی گروہ ہے نہ جماعت اور نہ اس کا کوئی تصور۔ فنافی الرسول ﷺ کی حقیقی کیفیت یہ پہلی دوجماعتیں اس قدربرکات حاصل کرپائی ہیں کہ باقی سب اہل اسلام کے لئے خلوص قلب سے ان کی پیروی ہی نجات کا واحد راستہ ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ مطاع اور متبوع صرف ہوتا ہے کہ نبی خطا سے پاک یعنی معصوم ہوتا ہے اور صحابی کو یہ درجہ حاصل نہیں مگر آپ ﷺ کے صحابہ میں سے مہاجرین وانصار کو وہ برکات نبوی نصیب ہوئیں کہ انھیں فنافی الرسول ﷺ کا درجہ کامل نصیب ہواجس کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنی سوچ اپنا ارادہ ہی نہ رہے اور ساری سوچ ہی یہ ہو کہ نبی ﷺ کا ارشاد کیا ہے ۔ بعض لوگوں نے سابقون الا ولون کے بھی جو امام اور نبی ﷺ کے خلفاء تھے ان کی ذوات پر بھی اعتراض کئے ہیں مگر وہ ان کی حیثیت بھول کر شیعہ مئورخوں کی روایات پہ تکیہ کرکے اعتراض کرتے ہیں جن کی بات کتاب اللہ کے ارشادات کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی نیز تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جنتی ہونا اور اللہ کی رضا کو پالینا قرآن کریم سے ثابت ہے ۔ لہٰذا ان کی عظمت اور اس درجے کا انکار کتاب اللہ کا انکار ہے جو صریح کفر ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کر ام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی قرآن کے مثالی مسلمان ہیں لہٰذا تینوں جماعتیں جو اللہ کی رضا کو پانے والی ہیں ان میں سابقین مہاجر اور انصار بھی اور ان کا اتباع خلوص دل دے کرنے والے بھی پھر قیامت تک کی انسانیت کے لئے ضروری ہے کہ خودکو تیسرے گروہ میں اپنی حیثیت کے مطابق داخل کرے یعنی عقیدہ ان جیسا ہو عمل انہی جیسا ہو اور خلوص دل سے ہو کہ شرط ہے ۔ والذین اتبعوا ھم باخسان جن لوگوں نے خلوص قلب کے ساتھ کی پیروی کرلی ۔ یہاں کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ بعض صحابہ ؓ سے واقعی قصور بھی ہوئے تو کیا غلطی میں بھی ان کا اتباع کیا جائے گا۔ مگر یہ سوال ہی بیجا ہے کہ صحابہ ؓ سے اگر لغزش ہوئی تو اللہ کی عط اسے وہ کبھی لغزش پر قائم نہیں رہے بلکہ ان کی توبہ بھی مثالی ہے جس کی متعددروایات موجود ہیں لہٰذا ایسے امور میں ان کا طریق توبہ لائق اتباع ہے اور یہی ارشاد کتاب اللہ میں بھی ہے کہ مومن سے خطا ہوجائے تو توبہ کرتا ہے اسے ہمیشہ کے لئے نہیں اپنا تا ۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ خلوص سے ان کی پیروی کرنے والوں کو اللہ کی رضا نصیب ہوگی اور اتنے انعامات کہ وہ بھی جس کے نیچے نہریں رواں ہیں اور جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی میدان حیات اور عالم آب وگل سے کا میاب وکامران نکلنے کی دلیل ہے اور یہی بہت بڑی کا میابی ہے۔ آپ ﷺ کے زمانہ میں منافقین کا اظہار کردیا گیا تھا یاد رہے جب جماعتیں ترقی کرتی ہیں اور ان میں دنیاوی منافع حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے تو منافقین کا گروہ بھی بظاہر اپنے کو مخلص ظاہر کرکے ساتھ شامل ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مکی عہد نبوت میں کوئی منافق ساتھ شامل نہ ہوا کہ وہاں قربانیاں دینے کا معاملہ تھا مگر مدنی عہد میں صورت بدل گئی اور اسلام کی ریاست کی بنیاد پڑی جس سے دنیا کے مفاد کی امیدیں وابستہ کرکے ایک گروہ مسلمان کہلانے لگا۔ ان کی ضرض صرف دنیاوی مفاد کا حصول تھا ورنہ دل سے مسلمان نہ تھے ۔ لہٰذا ارشاد ہوا کہ اکثر منافقین توگنوار اور دیہاتی ہیں جن کے شعور ہی ناپختہ اور عقل ہی نارسا ہے ۔ وہ دین جیسی عظیم نعمت کی قدرہی نہیں جان سکے اور بعض مدینہ کے رہنے والے بھی اپنی سیاہ بختی کے باعث نفاق پر اڑے ہوئے ہیں اگرچہ آپ انھیں نہ جانتے ہوں یا آپ کو دھوکا ینے کتنا بھی سامان کرلیں اللہ کو تو دھوکا نہیں دے سکتے ہم تو انھیں خوب پہچانتے ہیں اور ہم انھیں دو بار عذاب دیں گے کہ دنیا میں ناکام ونامراد بھی رہیں گے اور نفاق بھی ظاہر ہوکرباعث رسوائی ہوگا ۔ چناچہ عہد نبوی میں منافقین کا اظہار اللہ کی طرف سے کردیا گیا تھا کہ آپ ﷺ کو ان کے جنازے پڑھنے سے روک دیا گیا تو یقینا یہ یہ بھی بتادیا ہوگا کہ وہ کون کون لوگ ہیں اور پھر دنیا کا شدید عذاب قلبی بےچینی اور اضطراب باطنی ہے جس سے وہ ساری عمر دوچار رہے جب قبر میں داخل ہوں گے تو اس سے شدید عذاب برزخ کا ان پر مسلط ہوجائے گا اور جب قیامت قائم ہوگی تو پھر جہنم کے بہت بڑے عذاب میں دھکیل دیئے جائیں گے ، لہٰذا یہ ڈھکے چھپے لوگ نہ تھے اور عہد صحابہ رجوان اللہ علیہم اجمعین میں یہ دین ودنیا کے اعتبار سے سوا ہی رہے ۔ اب بھی نفاق کی یہ سزابد ستور ہے کہ نہ اسے قرار نصیب ہوتا ہے نہ وقار خواہ حکومت بھی مل جائے اور یہ حکومت کاملناعام مسلمانوں کی عملی زندگی میں کمزوری کے باعث ہے اگر عامتہ المسلمین خود کو آج بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلاسکیں تو کبھی کوئی منافق ان پر مسلط نہ ہوسکے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مخلص تھے مگر عمل منافقوں جیسا سرزد ہوا کہ جہاد پر یا غزوئہ تبوک میں آپ کے ساتھ نہ گئے ۔ چارقسم کے لوگوں کا تذکرہ ہے ایسے جو پہلی آواز پر لبیک کہہ کر تیار ہوگئے دوسرے جو کسی قدر مترددتو ہوئے مگر اللہ نے ہمت دی اور تیار ہوگئے تیسرے جو مسلمان نہ تھے منافق تھے اور بلا جواز عذرمعذرت کرکے گھر بیٹھ رہے چوتھے جو واقعی معذور تھے اور جانہ سکتے تھے ان سب کے علاوہ ایک پانچوں قسم بھی تھی کہ جو جاسکتے تھے جانی اور مالی اعتبار سے کوئی عذرنہ تھا محض سستی کی وجہ سے نہ گئے یا منافقین کے بہکانے سے شامل نہ ہو سکے مگر انھیں فورا اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور نادم ہو کر حاضر خدمت ہوگئے بلکہ بعض نے تو خود کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا کہ جب تک اللہ کریم معاف نہیں کریں گے ہم خود کو نہیں کھولیں گے ۔ جب آپ ﷺ کو خبرہوئی تو فرمایا اب انھیں اللہ ہی کے حکم سے کھولاجائے گا میں بھی نہیں کھولوں گا تین حضرات ایسے بھی تھے جنہوں نے خود کو باندھا تو نہیں مگر اپنے کئے پر سخت نادم تھے ۔ آپ ﷺ نے ان سے مقاطعہ کا حکم دیا چناچہ کوئی ان سے بات تک نہ کرتا تھا ۔ حتی کہ بیویاں تک الگ ہوگئیں کوئی کھانا پکاکر بھی نہ دیتا تو یہ حکم نازل ہوا ۔ چناچہ سب کی توبہ قبول ہوئی ، بندھے ہوئے بھی کھول دیئے گئے اور قطع تعلق بھی ختم کردیا گیا کہ ان لوگوں کی نیکیاں بھی تھیں مثلا اس سے قبل کے تمام امور میں خلوص دل سے حاضر اور شامل رہے اور غلطی بھی تھی کہ تبوک کے سفر میں کوتاہی کی اور حاضری نہ دی مگر انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا اور نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو ارشاد ہوا کہ اللہ کریم ان کی توبہ قبول فرمائیں گے کہ کون ہے جس کے دروازے پہ گناہ گار جائیں ۔ صرف اسی کی شان ہے کہ وہ معاف کرنے اور بخشنے والا بھی ہے اور رحم کرنے والا بھی ۔ آپ ان کے اموال سے صدقہ بھی لیجئے کہ قبول توبہ پر انھوں نے اپناسارامال صدقہ میں حاضر کردیا تھا کہ اسی مال کی مصروفیات نے ہمیں روک لیا تھا مگر جب یہ حکم نازل ہواتو آپ ﷺ نے تیسراحصہ مال قبول فرمایا کہ خذمن اموالھم صدقۃ۔ یعنی مال کا کچھ حصہ قبول فرمائیے ۔ صدقات وصول کرنا مسلمان حاکم کی ذمہ داری ہے تا کہ انھیں درست مصارف پہ خرچ بھی کرسکے علماء کا ارشاد ہے کہ نزول خاص ہونے کے باوجود حکم عام ہے ہمیشہ کے لئے خطاکار مسلمان کے لئے توبہ کا دروازہ بھی کھلا ہے بلکہ اس آیہ کریمہ نے توگنا ہگاروں کو بخشش لوٹنے کا موقع بخشا ہے اور ساتھ یہ حکم بھی مسلمان حکمرانوں کے لئے عام ہے کہ زکٰوۃ وصدقات وصول کرکے انھیں ان کے صحیح مصارف پہ خرچ کرنے کا اہتمام کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ منکرین زکٰوۃ سے جہاد کیا گیا ، اگر چہ ان میں بھی دو طرح لوگ تھے بعض تو انکار کرکے مرتدہوگئے مگر ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے یہی حیلہ تلاش کیا کہ یہ حکم نبی اکرم ﷺ سے خاص تھا ان کے بعد حکومت یا امیر کو زکٰوۃ نہ دیں گے چناچہ حضرت عمرؓ نے بھی یہی خیال فرمایا اور پیش کیا کہ یہ انکار نہیں کرتے ایک آیت کے مفہوم میں اختلاف کرتے ہیں لہٰذا ان سے کفار کریں گے کہ آپ ﷺ کے عہد میں تھی اب ضرورت نہیں جبکہ اکثر جگہ نماز اور زکوۃ کا حکم یکجا ہے اسلئے جو ان میں فرق کرے گا اس سے جہاد کیا جائے گا لہٰذا خلاف صدیق ؓ پر پہلا اجماع ہے اور منکرین زکوۃ سے جہاد پر دوسرا اجماع امت منعقد ہوا ۔ چناچہ ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ کا ان سے صدقات واجبہ ونا فلہ وصول کرنا ان کے لئے تزکیہ اور پاکیزگی مال کا سبب ہوگا یعنی ان کے دل بھی کدورت یا بہام چھٹ جانے سے منور ہوجائیں گے اور مال میں برکت بھی ہوگی اور آپ ان کے حق میں دعا بھی فرمائیے ۔ بزرگوں کی دعا کا اثر اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ نیک لوگوں کی خدمت کرنے سے مال بڑھتا ہے اور ان کی دعا کی برکات بھی دوعالم میں فلاح کا سبب ہیں ۔ اگرچہ کسی بزرگ کو زیبا نہیں کہ لوگوں سے کچھ لینے کی امیدپہ رہے بلکہ بلا امتیازسب کی تربیت اس کا فریضہ ہے مگر مال سے خدمت کرنا یہ استفادہ کرنے والوں پہ ہے کہ خود خیالرکھیں نیز ایسا کرنے سے دنیاوآخرت کی بہتری ہاتھ آتی ہے ۔ ایسے ہی شیخ پر بھی اور مسلمان حاکم پر بھی بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک مستحب ہے کہ رعایا یا مستفید ہونے والے لوگوں کے حق میں دعائے خاص کیا کرے ۔ کہ آپ ﷺ کی دعاہی آپ کے غلاموں کے حق میں سکینہ یا تسکین قلب ہے اور اللہ کریم تو سب کی سنتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں یعنی دعا سے رب العزت کو یاددلانا مقصود نہیں ہوتا اپنی قلبی رضا مندی کا مظہرہوتی ہے اور آپ ﷺ کی خوشنودی دوعالم کی فلاح کی سند ہے ۔ لوگوں کو یہ یقینا جان لینا چاہیئے کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو اپنے بدوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اسی نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا ہے کہ مالدار اپنے مال سے صدقہ دے یعنی وہی ہے بندے کے پاس چندروز کے لئے ہے تو اللہ ہی کے حکم مطابق خرچ بھی کرنا ہے لہٰذا اسے تاوان یا بوجھ سمجھنا یا دین پر طعن کہ مسلمانوں پہ بھی جزیہ کی مانند ٹیکس لگ گیا ہرگز درست نہیں ۔ نیز آپ ﷺ کی دعا جو آپ کی اطاعت پہ ہی نصیب ہوسکتی ہے وہ حقیقی تسلی اور تسکین کا باعث ہے ظاہر ابھی اور باطنا بھی اس عالم میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ اور شان باری ہے کہ غلطی یا قصور پر ندامت ہو تو اسے قبول فرماتا ہے کہ یہی اس کی شان کو زیبا ہے ۔ نیز اصل امتحان تو عملی زندگی ہی ہے آپ فرمادیجئے کہ زبانی صفائی دینے پہ زور نہ رکھیں عمل کریں جو دلی کیفیات کے اظہار کا سبب ہے ۔ اللہ کریم تو ہر حال سے واقف ہے ہی اللہ کا رسول ﷺ اور رسول اللہ ﷺ کے تابعدار یعنی ایماندار بندے بھی تو تمہاری عملی زندگی کو دیکھیں ۔ نیک لوگوں کا گمان بھی اپنا اثررکھتا ہے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نیک لوگوں کا کسی کو نیک جاننا بھی اس کی عملی زندگی کی بہت بڑی شہادت ہے اور ان احادیث مبارکہ کی وضاحت ہوجاتی ہے جن کا مفہوم ہے کہ چالیس مومن کسی کے جنازے میں شامل ہوں تو نجات کے لئے کافی ہے یا یہ کہ مرنے والے کے محاسن اور اچھایاں بیان کیا کرو کہ تمہاری بات اس کے حق میں شہادت اور گواہی کا درجہ رکھتی ہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کا اکرام اور ان سے بہتر تعلقات بھی عملی زندگی کا بہتاہم حصہ ہیں اور معاملہ تو پلٹ کر اسی ذات کے روبرو جائے گا جو ظاہر باطن حاضر غائب سب جانتا ہے اور اگر کرنے والا بعض کوتاہیوں کو فراموش بھی کرچکا ہوگا تو وہ اسے یاد دلادے گا یعنی اسے کسی کی گواہی کی ضرورت نہیں اس کے بغیر و ہ سب کچھ جانتا ہے مگر ایسا کریم ہے کہ ایماندار لوگ جسے اچھا کہہ دیں ۔ واقعہ میں ایسا نہ بھی ہو تو ان کی بات رکھنے کو بھی اسے معاف کردے گا۔ مسجد ضرار کا قصہ عمل کی بنیادتو نیت پر ہے اگر نیت صاف نہ ہو تو بظاہرنیک نظرآنے والا عمل بھی نہ صرف یہ کہ مقبول نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں بھی ذلت ورسوائی کا سبب بنتا ہے اور آخرت میں تو یقینا ہے ۔ جیسے کچھ لوگوں نے مسجد بنائی مگر درحقیقت وہ مسجد کے نام پر ایسا مرکزچاہتے تھے کہ جس میں جمع ہو کر مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کرسکیں یا اسلحہ وغیرہ اس میں رکھ سکیں تاکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں ۔ اس کا واقعہ ایسے پیش آیا کہ مشہور صحابی حنظلہ ؓ جن کو ملائکہ نے غسل دیا تھا لہٰذا غسیل ملائکہ مشہور ہوئے کا والدابو عامرزمانہ جاہلیت میں عیسائی ہوگیا تھا آپ ﷺ کی تشریف آوری پر حاضر خدمت بھی ہوامگر بدنصیب کے دل میں برکات کو جگہ نہ ملی اور یہ کہہ کرچلا گیا کہ میں آپ کی مخالفت ہی کروں گا چناچہ ہر حال میں اور ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا۔ اور فتح مکہ کے بعد بھاگ کر شام چلا گیا اور قیصر کو مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کی ترغیب دینے میں اس کا بھی دخل تھا اسی سلسلہ میں اس نے منافقین مدینہ کو پیغام دیا کہ کوئی منظم گروہ اور مرکزبناؤ جو قیصر کی حملہ آور فوجوں کی اندر سے بھی مددکرے چناچہ انھوں نے قبا ہیں جہاں اسلام کی پہلی مسجد جس میں ہجرت کے وقت آپ ﷺ نے قیام فرمایا تھا موجود تھی ایک اور مکان کی بنیادر کھی جسے مسجد ظاہر کیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے کہ بستی میں صرف ایک مسجد تھی لوگوں کو تکلیف تھی ، بوڑھے اور بیمارپہنچ نہیں پاتے تھے لہٰذاہم نے دوسری مسجد بنائی ہے ۔ آپ اس میں ایک نماز پڑھا دیجئے کہ برکت ہو۔ آپ ﷺ تبوک کی تیاری فرما رہے تھے لیکن فرمایا واپسی پہ دیکھیں گے مگر واپسی سے پہلے یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ ﷺ نے اپنے چند خدام کو بھیج کر اسے تباہ کرادیا مکان گراکرسامان نذر آتش کردیا گیا اور یوں وہ نام ہو کر بدنام بھی ہوئے۔ یہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ نام کو تو انھوں نے مسجد بنائی مگر نیت کیا تھی ؟ مسلمانوں کو تکلیف دنیا ۔ ان میں تفریق پیدا کرنے کے لئے کوشش کرنا اور اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ان دشمنوں کو جو عملا لڑ رہے ہیں ، اس میں چھپنے کی جگہ دینا اندر تو یہ کچھ ہے مگر قسمیں کھاتے پھر رہے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو دین کی خدمت اور نیکی کرنے کا ہے مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ جھوٹ بول رہے لہٰذا آپ کبھی اس میں قدم رنجہ نہ فرمائیے ۔ خلاف اسلام استعمال ہونے والی زمین کی نحوست جہاں اسلام کے خلاف اقدام کرنے کا منصوبہ بنا ، اس مکان کی نحوست سے وہ زمین بی متاثر ہوئی چناچہ آپ ﷺ کی اجازت سے ایک غریب صحابی ؓ نے وہاں مکان بنایا تو اولاد سے محروم رہے یا ہوئی نہیں اگر ہوئی تو زندہ نہ رہی بلکہ کہایہ جاتا ہے کہ وہاں کبھی کسی جانورنے بھی بسنے کی کوشش نہیں کی نہ کسی پرندے نے انڈے بچے دیئے چناچہ مسجد قبا کے مقابل اب تک وہ جگہ خالی ہی پڑی ہے ۔ ایسی منحوس جگہ پر آپ ﷺ کو قدم رکھنے سے روک دیا گیا لہٰذا آپ ﷺ کا کسی جگہ قدم رنجہ فرمانا بھی اس مکان کی مقبولیت کا باعث ہے تو روضہ اطہر کی شان کیا ہوگی جو پہلے سے جنت کی زمین پر ہے پھر کیا مقام ہوگا ان غلاموں کا جو پہلوئے اطہر میں آسودہ ہیں سبحان اللہ وبحمدہ۔ مسجد ضرار کسے کہاجائے گا ؟ چنانچہ آج بھی کوئی مسجد اس نیت سے بنائی جائے جس مذکورہ تین باتیں پائی جائیں اول اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے دوم مسلمانوں میں اختلاف بڑھا نے کے لئے اور تیسرے مسلمانوں کے دشمنوں کو پناہ دینے کے لئے تو وہ اسی مسجد کی رونق کم کرنے کے لئے بنائی جائے تو مسجد ضرارنہ ہوگی ہاں بنانا گناہ عظیم ہے اور حکومت کا کام ہے ایسے امور کا تدارک کرے اور ایسی تعمیرروک دے مگر اسے مسجد ہی کہا جائے گا اور نماز جائز ہوگی یہ بات بات پہ مسجد ضرارکا حکم لگادینا درست نہیں نیز ایسے حضرات کو بھی تنبیہہ ہے جو مسلمانوں میں گروہ بندی کو ہوا دیتے ہیں یہ منافقوں کا کام ہے ۔ اسی کے مقابل جو مسجد پہلے سے موجود ہے اور جو پہلے دن سے تقوی پہ استوار ہوئی وہ اس بات کی بہت زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں قیام فرمائیں اور نمازیں ادا کریں جس کے نمازی ظاہر اوباطنا پاکیزہ رہنے کو پسند کرتے ہیں ۔ اور اللہ بھی پاکیزہ رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ آپ ﷺ نے قبا کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا کہ تم کونسی پاکیزگی کا اہتمام کرتے ہو جس کے بارے میں اللہ کا ارشاد نازل ہواتوانھوں نے عرض کیا کہ ہم رفع حاجت کے بعد پانی سے طہارت کرتے ہیں ۔ نیک بندوں کے اثرات لہٰذا جہاں طہارت مطلوب ہو وضو کی بات نہ ہو تو یہ عمل کافی سمجھا جائے گا نیز نیک لوگوں کی نہ صرف صحبت بابرکت ہوتی ہے بلکہ جس مسجد میں نماز ادا کریں اس کے دوسرے نمازیوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے کہ نماز میں تو ہر شخص کی اپنی کیفیات ہوتی ہیں ۔ ان کے مطابق نزول برکات ہوتا ہے لہٰذاجتنے بلند منصب کا انسان ہوگا اتنی برکات زیادہ ہوں گی اور اسی قدرسب کو فائدہ بھی ہوگا اور یہ اندازہ تو انسان خودبھی کرسکتا ہے کہ بھلا جس عمارت کی بنیادی نیکی اور تقوی پر ہو اور جس سے مقصد ہی اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو اور بہتر ہے یا ایسا مکان جو کنار جہنم بنایا جائے جو اپنے مکینوں سمیت دوزخ جاگرے وہ یقینا پہلاہی بہت بہتر ہے مگر بعض گناہ قلبی استعداد کو تباہ کردیتے ہیں ۔ لہٰذا بدکار اور ظالم ایسی سیدہی بات سمجھنے سے بھی محروم رہتے ہیں ۔ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کا وبال اور گناہ کا اثریا بعض گنا ہوں کا اثرتو اتنا شدید ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ حرکت کی اس اثران کے دلوں میں ہمیشہ رہے گا حتی کہ قلوب پھٹ جائیں گے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے مگر ان سے شبہ اور شک کی بیماری نہ جائے گی یعنی عملا گناہگار ہونا مگر اسلام کی مخالفت نہ کرنا بلکہ اپنے کو گناہگار سمجھنا الگ بات ہے اور عملا اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کرنا اتناشدید جرم ہے کہ دل میں منافقت گھرکر جاتی ہے جو کبھی وہاں سے نکلنے کا نام نہیں لیتی ٹکڑے ہو کر بکھر جائیں گے تو بھی ان میں منافقت کی بورچی ہوئی ہوگی کہ یہ بات اللہ کریم بتا رہے ہیں جو سب کچھ جانتے ہیں اور حکیم و دانا ہیں ۔
Top