Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - At-Tawba : 111
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ١ؕ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ١۫ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
اشْتَرٰي
: خرید لیے
مِنَ
: سے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
اَنْفُسَھُمْ
: ان کی جانیں
وَاَمْوَالَھُمْ
: اور ان کے مال
بِاَنَّ
: اس کے بدلے
لَھُمُ
: ان کے لیے
الْجَنَّةَ
: جنت
يُقَاتِلُوْنَ
: وہ لڑتے ہیں
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
فَيَقْتُلُوْنَ
: سو وہ مارتے ہیں
وَيُقْتَلُوْنَ
: اور مارے جاتے ہیں
وَعْدًا
: وعدہ
عَلَيْهِ
: اس پر
حَقًّا
: سچا
فِي التَّوْرٰىةِ
: تورات میں
وَالْاِنْجِيْلِ
: اور انجیل
وَالْقُرْاٰنِ
: اور قرآن
وَمَنْ
: اور کون
اَوْفٰى
: زیادہ پورا کرنیوالا
بِعَهْدِهٖ
: اپنا وعدہ
مِنَ اللّٰهِ
: اللہ سے
فَاسْتَبْشِرُوْا
: پس تم خوشیاں مناؤ
بِبَيْعِكُمُ
: اپنے سودے پر
الَّذِيْ
: جو کہ
بَايَعْتُمْ
: تم نے سودا کیا
بِهٖ
: اس سے
وَذٰلِكَ
: اور یہ
ھُوَ
: وہ
الْفَوْزُ
: کامیابی
الْعَظِيْمُ
: عظیم
بیشک اللہ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں کہ بدلے میں ان کو جنت ملے گی۔ یہ لوگ کی راہ میں لڑتے ہیں تو قتل کرتے بھی ہیں۔ اس پر سچاوعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ کون اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہے۔ لہٰذا جو سودا تم نے اس سے کیا ہے ، اس پر خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے
آیات 111 تا 118 اسرار و معارف رہے مومن تو ان کا اپنا کچھ ہے ہی نہیں وہ تو اپنی جان اپنا مال بیچ چکے اور اللہ نے خرید لیا ہے ان سے اور اس کی قیمت بھی طے ہوگئی ۔ اللہ کی جنت جو اس کی رضا کا مظہر ہے ۔ مفسرین کرام کے مطابق یہ آیہ کریمہ بعیت عقبہ والے صحابہ ؓ اور صحابیات ؓ کے حق میں نازل ہوئی بعیت عقبہ منٰی میں حج کے موقع پر مدینہ منورہ سے آکر ستر 70 کے قریب مردوکواتین نے اس شرط کی تھی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے اور رسول اللہ ﷺ کی حفاظت اپنی جانوں اور مال واولاد سے بڑھ کر کریں گے یہ مفصل قصہ سیرت وتاریخ میں بھی تفاسیر میں بھی دسند کے ساتھ موجود ہے مگر معنی عام ہے اور ایمان کی کیفیت و تفصیل نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے ۔ ایمان کی حقیقت اور ایمان کے اثرات عملی زندگی پر ایمان کی حقیقت یہ ہے ایمان لانے ولا شخص اپنی جان اپنا بیچ دیتا ہے اور اللہ سے جنت خرید لیتا ہے جنت جو اللہ کے قرب کا مقام بھی ہے اور اس کی رضا مندی کی سند بھی سیدنا فاروق اعظم ؓ فرمایا کرتے تھے کہ عجیب سودا ہے سب کچھ اپنی طرف عطا فرمایا اور پھر مزید نعمتیں دے کر اسے خرید فرمالیا انسان کے پلے سے تو کچھ بھی نہ گیا کہ اس کا اپنا تھا ہی کچھ نہیں چناچہ اس کیفیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں کفار سے لڑتے ہیں ان کو مارتے ہیں یا خود مرتے ہیں انھیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ مال کا نقصان ہو یا جان جائے وہ سب کچھ پہلے ہی بیچ چکے جس ہستی نے کریدا ہے اس کا حکم ہے کہ یہاں الٹا دوتولٹ جائے ان کا اس میں کیا ہے یہ سود اگر ی پہلی بار نہیں بلکہ پہلی امتوں میں بھی ہوتی رہی جس کا ثبوت پہلی کتابوں سے ہوتا ہے کہ یہ کھراوعدہ تورات وانجیل میں بھی تھا اور قرآن حکیم میں بھی موجود ہے ۔ اب یہ فریق ثابی پر یعنی بندے پر موقوف ہے کہ اللہ سے کئے گئے اس سودے کو کس حدتک پورا کرتا ہے اگر جان ومال اللہ کا ہے تو اس کی نافرمانی کرکے مال بڑھا نے کی ضرورت نہیں رہتی اگر جان اس کے ہاتھ بیچ دی تو حرام کھانے یافعل حرام کرنے یا خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے اللہ کی نافرمانی کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اگر کوئی بندہ ایمان قبول کرنے کے بعد ان باتوں میں ملوث ہوتا ہے تو گو وہ اپنے سودے سے پھر رہا ہے اس کی بات الگ ہے مگر ایسے عالی ہمت لوگ جو اس سودے کو نبا ہتے ہیں اور اپنے قول کا پاس رکھتے ہیں انھیں یہ سودا مبارک ہو کہ اگر وہ اپنے پورے خلوص سے اسے نباہ رہے ہیں تو اللہ کریم اس سے ہرگز نہ پھریں گے بلکہ اللہ کی جنت اب ان کی ہوگئی اور یہ معمولی بات نہیں ، بہت بڑی کا میابی ہے۔ میدان جنگ میں تو بعض اوقات ایسے لوگ بھی کود پڑتے ہیں جو عملی زندگی میں بھلے نہیں ہوتے کہ یہ ایک جذباتی لمحہ ہوتا ہے اور لوگ جذبات سے مغلوب ہوکرٹکراسکتے ہیں مگر جو جذبات میں بہہ کر نہیں کمال ایمان کے سبب جہاد کرتے ہیں ان کی عملی زندگی میدان جہاد سے باہر بھی بدل جاتی ہے وہ ہمیشہ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں اور باربار اللہ سے طلب مغفرت اور اپنی دیدہ ونا دیدہ لغزشوں کی معافی طلب کرتے رہتے ہیں اللہ کی عبادت کرنے کر والے ہوتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کا شکر بجالا نے والے ہوتے ہیں ۔ یہ دیکھا گیا ہے اکثر بےعمل افراد کو اللہ سے شکایت ہی رہتی ہے اور شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنی تکالیف ہی گنواتے رہتے ہیں مگر ایمان مضبوط ہو تو ہر حال میں شکر کی توفیق نصیب ہوتی ہے عبادات کو صرف پوراہی نہیں کرتے رکوع و سجود کی لذتوں سے آشنا ہوتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں غرض اللہ کی قائم کردہ حدود کے پاسبان بن جاتے ہیں نہ صرف یہ کہ خود نہیں توڑتے حتی الا مکان کسی دوسرے کو بھی ان حدود سے متجاوز نہیں ہونے دیتے ان صفات سے متصف ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے کہ قبل محشرعرصہ محشر کی کامیابی پہ یہ چیزیں ایک مضبوط دلیل ہیں ۔ آج ہم دنیا وآخرت میں ایسے ہی انعامات کی امیدتو رکھتے ہیں مگر اپنی طرف سے سود انہ صرف بھول چکے ہیں بلکہ ایک طرح سے منسوخ کردیا ہے اللہ کریم ہمیں اس سودے پر قائم رہنے کی توفیق بخشے ، آمین۔ ابو طالب کا انجام اور اس کا سبب جو لوگ یہ سودا کرتے ہی نہیں اور کفر پہ قائم رہتے ہوئے دنیا سے چلے جاتے ہیں ان کا بھلاتو کیا ہوگا ؟ نبی اکرم ﷺ اور مومنین کو ان کی نجات کے لئے دعا کرنا بھی نہ زیب ہی دیتا ہے اور نہ اس کی اجازت ہے ۔ مفسرین کرام کے مطابق آپ ﷺ کے حچا ابو طالب کی وفات ہوگئی ۔ زندگی میں انھوں نے آپ کی بہت حمایت کی اور کسی کا کہا نہ مانا ۔ وقت وفات آپ ﷺ نے کوشش فرمائی کہ اگر میرے کا ن میں بھی کلمہ پڑھ دیں تو میں آپ کی شفاعت کروں گا مگر ابوجہل جو پاس بیٹھا تھا۔ ہر بار کہہ اٹھتا کہ اب مرتے وقت عبدالمطلب کا دین یعنی آبائی مذہب چھوڑدوگے چناچہ اس کا آخری کلمہ یہی تھا کہ میں آبائی مذہب پر جان دے رہا ہوں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا میں ان کے لئے دعا تو کروں گا یہ الگ بات ہے کہ اللہ کریم ہی روک دیں چناچہ یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے دعا کرنا ترک فرمادیا۔ یہاں ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ﷺ کے چچا ابو طالب نے آپ کی حمایت آخری دم تک کی اور کسی کی ناراضگی خاطر میں نہ لائے تو انھیں توبہ کی توفیق کیوں نہ ملی ؟ یہاں ایک بات کی اصلاح بھی ضروری ہے کہ ابو طالب نے آپ ﷺ کی حمایت ضرور کی مگر یہ غلط مشہور ہے کہ آپ کی پرورش بھی کی سیرت کی کتاب محمد رسول اللہ ﷺ جو مصر کی طبع شدہ ہے میں موجو ہے کہ آپ ﷺ نے ابو طالب کے کنبہ کی پر درش کی کہ جب ان کے ساتھ لگے تو آپ نے بچپن میں ہی مزدوری پر بکریاں چرانا شروع کردیں اور جو ملتا وہ چچاکودیتے جو غریب بھی تھے اور کثیر الا دلاد بھی جب شادی کرکے الگ ہوئے تو ایک بچہ پاس رکھ لیا کہ چچا کی مدد ہوسکے یہی بچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے ۔ لیکن چچانے حمایت اپنی جان کی پرواہ نہ کرکے بھی کی تو اسکا صحیح اور آسان جواب یہ ہے کہ ابو طالب نے محمد رسول اللہ ﷺ کی حمایت نہیں کی بلکہ اپنے بھتیجے محمد بن عبداللہ کی حمایت کرتے رہے اگر نبوت و رسالت کی طرف متوجہ ہوتے تو کبھی خالی نہ رہتے ۔ مومن کی دعا بہرحال یہ قانون بیان کردیا گیا کہ کسی مشرک کے لئے دعا بھی نہ کی جائے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ مومنین کے حق میں مومنین کی دعا بھی اللہ کا انعام ہے اور آپ ﷺ کی دعا کی تو بات ہی کیا ہے ۔ ان کا کرم پھر ان کا کرم ہے ان کے کرم کی بات نہ پوچھو۔ اور اس نعمت سے محرومی شرک جیسے ظلم کی سزا کے طور پر ہے بہرحال زندگی میں کافر ومشرک کی نجات کی دعا بھی جائز ہے کہ زندگی میں نجات سے مراد ایسے اعمال کی توفیق ہے جو باعث نجات ہوں جیسے ایمان اور عمل صالح احد میں رخ انور زخمی ہوا تو آپ ﷺ فرماتے تھے ۔ اللھم اغفرقومی فانھم لا یعلمون ۔ اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے وہ مجھے جانتے نہیں ۔ وہی بات کہ محمد بن عبداللہ سے لڑ رہے ہیں تیرے رسول کی عظمت سے ناواقف ہیں اور جب کفر پر کسی کا خاتمہ ہواتو واضح ہوگیا کہ یہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن ہے لہٰذا اس کے لئے دعانہ کی جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے والد کی بخشش کے لئے دعا کی تھی یہ بات جو مشہور ہے درست ہے کہ مشرکین میں بھی دین ابراہیمی کی عزت بھی تھی اور کچھ باتیں بھی محفوظ تھیں جن میں یہ بات بھی تھی تو اللہ نے تصدیق فرمائی کہ انھوں نے کی تھی کہ دین تو پوری محنت سے اور کھری کھری باتیں کرکے پہنچا یا مگر جب وہ نہ مانے تو جدا ہوتے وقت وعدہ فرمایا تھا کہ ساسستغفرلک ربی میں اپنے رب سے تمہاری بخشش مانگوں گا کہ حضرت ابراھیم بہت ہی نرم خو اور حلیم الطبع تھے لہٰذا اپنے وعدے کا پاس کرتے ہوئے دعاضرورفرمائی مگر جب انھیں یہ یقین ہوگیا کہ وہ تو آخری دم تک کفر پر اور اللہ کی مخالفت پر قائم رہے تو ان سے اپنی برأت کا اعلان کردیا اور یہی ایمان کا اثر ہے کہ جس دل میں نور ایمان نہ ہو اس سے کوئی رشتہ نہیں رہتا۔ اللہ کریم کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کسی کے گمراہ کافر ہونے کا اعلان فرمادے اور اس کفر کی سزائیں جاری کردے یابندہ ایمان لائے اور وہ اسے محروم کردے ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ ہاں ! قاعدہ یہ ہے کہ ضابطے اور قانون بتادیئے جاتے ہیح ۔ نبی بھیج کر کتاب نازل کرکے حدود متعین فرمادی جاتی ہیں ۔ اب جو ان حدود کو قبول ہی نہیں کرتے یا کرنے کے بعد ان سے نکل جاتے ہیں تو یہ ہلاکت اپنے لئے وہ خود اختیار کرتے ہیں کہ اللہ کریم ان کے ہر حال سے واقف ہے خواہ وہ زبانی کچھ کہیں بھی اجرتو عمل پر مرتب ہوتا ہے اور یہ اختیار اس نے خود بندوں کو بخشا ہے ورنہ وہ مختار کل ہے ساری کائنات اس کی اور صرف اسی کی ہے آسمانوں کی سلطنت ہو یا زمین کی اصل حاکم تو دہی ہے زندگی بھی وہی بخشتا ہے اور موت بھی اسی سے اجازت پاکروارد ہوتی ہے ۔ اور لوگومت بھولو اسے چھوڑکریا اس کی اطاعت سے نکل کر تم تنہارہ جاؤگے نہ کوئی تمھارادوست ہی ہوگا اور نہ کوئی ایسا جو تھوڑی بہت بھی مددہی کرسکے ۔ وہ تو ایسا کریم ہے کہ اپنے نبی پر انعامات کی بارش کردی اور ان مہاجرین وانصار پر بھی جو ہر حال میں نبی ﷺ کی خدمت پہ کمربستہ رہے ۔ درجات ومقامات قرب کی انتہا نہیں توبہ کا مفہوم صرف گناہ سے معافی نہیں جبکہ یہ ذات باری کی طرف منسوب ہو کہ اس نے توبہ قبول فرمائی تو مراد ترقی درجات ہوتی ہے جیسا کہ یہاں ارشاد ہے لقدتاب علی النبی یعنی اپنے نبی اور ان کے خدام مہاجرین وانصار کے درجات مسلسل بلند کرتا ہے اور جس طرح اس کی ذات لامحدود ہے اسی طرح مقامات قرب کی بھی حد نہیں اور سلوک کبھی ختم نہیں ہوتا نہ ہوگا آخرت میں بھی لذات و کیفیات کے اعتبار سے مسلسل ترقی ہوتی رہے گی ، اگرچہ مقامات کی ترقی کا انحصار دنیا کی عملی زندگی پر ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اللہ کا خاص سلوک کریمانہ ایسے جان فروش خادم جو ساعت عسرت میں بھی پیچھے نہ ہٹے یعنی انتہائی تنگی کے دنوں میں ، مرادغزوئہ تبوک ہے کہ قحط سخت گرمی لمباسفر اور ایک بہت بڑاطاقتور دشمن ۔ مگر انھوں نے کسی شے کی پرواہ نہ کی بلکہ بعض جو کسی قدر گھبرائے بھی منافقین کی باتوں نے انھیں الجھا بھی دیا اور قریب تھا کہ ان کے قلوب تباہ ہوجاتے بات بدل جاتی مگر اللہ نے ان پر اپنا دامن رحمت پھیلا دیا انھیں قوت بخشی کہ وہ درست فیصلہ کرسکیں کہ ان کے دلوں میں خلوص تھا تو اللہ نے شیطان اور منافقوں کی باتوں سے انھیں بچالیا اور جو لمحہ بھر وہ لڑ کھڑائے تھے اگرچہ یہ بھی انھیں زیبانہ تھا اور ان کی شان کے مطابق تو بہت بڑاجرم تھا دامن عفونے انھیں اس سے پاک کردیا اور اللہ نے یہ سب کچھ بخش دیا کہ وہ بطور خاص ان لوگوں سے تو مہربانی اور رحمت فرماتا ہے ۔ ذرا انہی تین کو دیکھ لوجو اس جہاد میں پیچھے رہ گئے ۔ یہ بات پہلے بھی اشارۃ ہوچکی ہے کہ کچھ مخلصین میں سے بھی سستی کرگئے اور جہاد پہ ہمرکاب نہ ہوسکے مگر آپ ﷺ کی واپسی پر حاضر خدمت ہو کر اقرار کرلیا کہ ہمارے خلوص میں کمی نہیں آئی سستی ہوگئی کچھ نے خود کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا مگر تین حضرات حضرت کعب ابن مالک ، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے کو ستونوں سے تو نہ باندھا مگر اقرار جرم کرلیا یہ انصاری بزرگ تھے اور بیعت عقبہ سے لے کر پہلے تمام غزوات تک میں شریک رہے تھے مگر اس بار ذرا سستی ہوگئی تو اس قدرناراضگی کا اظہار ہوا کہ اقرار جرم کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا معاملہ اللہ کے سپرد ہے لیکن جب تک کوئی حکم نازل نہیں ہوتا ان سے تمام مسلمان قطع تعلق کرلیں حالانکہ یہ شہور مجاہد اور مدینہ منورہ کی مشہور ہستیاں تھیں ۔ دوحضرات تو عمر رسید ہ تھے مگر کعب ابن مالک ؓ ہنوزجوان تھے اور بہت معروف آدمی تھے فرماتے ہیں سب مسلمانوں نے ہم سے رخ پھیرلیا اور سلام کا جواب بھی کوئی نہ دیتا تھا اس پر جب چالیس دن گزر گئے تو راشاد ہو ا کہ ان کی بیویاں بھی ان سے الگ ہوجائیں ۔ پوری دنیا میں تنہا ہوگئے اور زندگی ان کیلئے مصیبت بن گئی ۔ غسانی سردار نے جو کافر تھا اور قیصر کا دست رست تھا ، حضرت کعب بن مالک ؓ کو لکھا کہ میرے پاس آجاؤ تمہاری بہت عزت ہوگی ۔ آپ ؓ نے وہ چٹھی تنور میں جھونک دی کہ یہ اس کا جواب ہے مگر زندگی تلخ ہوگئی کہ کیا اب کافروں کو مجھ سے امیدیں بندھنے لگیں یعنی ان ؓ کی دنیا تاریک ہوگئی ۔ زمین اپنی فراخی مگر زندگی تلخ ہوگئی کہ کیا اب کافروں کو مجھ سے امیدیں بندھنے لگیں یعنی ان کی دنیا تاریک ہوگئی ۔ زمین اپنی فراخی سمیت ان پر تنگ ہوگئی اور انھیں اپنی زندگی بھی بوجھ نظر آنے لگی حتی کہ انھیں یقین ہوگیا کہ اللہ سے کوئی پناہ نہیں دے سکتا نہ اس کی دی ہوئی مصیبت کوئی دوسرا ٹال سکتا ہے ۔ جب وہ خود ہی اپنا رحم نہ فرمائے توا للہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی پچاس روز کے بعد یہ آیت نازل ہوئی جس پر آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی خوش ہوئے ۔ حضرت کعب ؓ کو جن کا گھرجبل سلع سے دوسری جانب تھا ، خوشخبری دینے کو دوڑے ۔ سب سے آگے ابوبکر صدیق ؓ اور فاروق اعظم ؓ تھے ۔ حضرت عمر ؓ آگے نکل گئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے جبل سلع پر چڑھ کر آوازلگا دی کہ اے کعب ! مبارک ہو۔ ذراہم یہاں اپنا کردار سامنے رکھ کرو دیکھیں کہ ہم آپ ﷺ کے مشن میں کتنا ہاتھ بٹا رہے ہیں ۔ اور کتنے جہاد کر رہے ہیں کہ اللہ سے انعامات کے متمنی ہیں تو شاید اپنی حیثیت کا اندازہ کرسکیں گے ۔ چناچہ رب جلیل تو توبہ قبول کرنے والا ہے اور اتنی بڑی رحمت کا مالک ہے کہ انسان اس کی وسعتوں کا اندازہ کرنے کی سکست نہیں رکھتا ۔
Top