Asrar-ut-Tanzil - At-Tawba : 111
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ١ؕ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ١۫ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اشْتَرٰي : خرید لیے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَنْفُسَھُمْ : ان کی جانیں وَاَمْوَالَھُمْ : اور ان کے مال بِاَنَّ : اس کے بدلے لَھُمُ : ان کے لیے الْجَنَّةَ : جنت يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَيَقْتُلُوْنَ : سو وہ مارتے ہیں وَيُقْتَلُوْنَ : اور مارے جاتے ہیں وَعْدًا : وعدہ عَلَيْهِ : اس پر حَقًّا : سچا فِي التَّوْرٰىةِ : تورات میں وَالْاِنْجِيْلِ : اور انجیل وَالْقُرْاٰنِ : اور قرآن وَمَنْ : اور کون اَوْفٰى : زیادہ پورا کرنیوالا بِعَهْدِهٖ : اپنا وعدہ مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے فَاسْتَبْشِرُوْا : پس تم خوشیاں مناؤ بِبَيْعِكُمُ : اپنے سودے پر الَّذِيْ : جو کہ بَايَعْتُمْ : تم نے سودا کیا بِهٖ : اس سے وَذٰلِكَ : اور یہ ھُوَ : وہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : عظیم
بیشک اللہ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں کہ بدلے میں ان کو جنت ملے گی۔ یہ لوگ کی راہ میں لڑتے ہیں تو قتل کرتے بھی ہیں۔ اس پر سچاوعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ کون اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہے۔ لہٰذا جو سودا تم نے اس سے کیا ہے ، اس پر خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے
آیات 111 تا 118 اسرار و معارف رہے مومن تو ان کا اپنا کچھ ہے ہی نہیں وہ تو اپنی جان اپنا مال بیچ چکے اور اللہ نے خرید لیا ہے ان سے اور اس کی قیمت بھی طے ہوگئی ۔ اللہ کی جنت جو اس کی رضا کا مظہر ہے ۔ مفسرین کرام کے مطابق یہ آیہ کریمہ بعیت عقبہ والے صحابہ ؓ اور صحابیات ؓ کے حق میں نازل ہوئی بعیت عقبہ منٰی میں حج کے موقع پر مدینہ منورہ سے آکر ستر 70 کے قریب مردوکواتین نے اس شرط کی تھی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے اور رسول اللہ ﷺ کی حفاظت اپنی جانوں اور مال واولاد سے بڑھ کر کریں گے یہ مفصل قصہ سیرت وتاریخ میں بھی تفاسیر میں بھی دسند کے ساتھ موجود ہے مگر معنی عام ہے اور ایمان کی کیفیت و تفصیل نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے ۔ ایمان کی حقیقت اور ایمان کے اثرات عملی زندگی پر ایمان کی حقیقت یہ ہے ایمان لانے ولا شخص اپنی جان اپنا بیچ دیتا ہے اور اللہ سے جنت خرید لیتا ہے جنت جو اللہ کے قرب کا مقام بھی ہے اور اس کی رضا مندی کی سند بھی سیدنا فاروق اعظم ؓ فرمایا کرتے تھے کہ عجیب سودا ہے سب کچھ اپنی طرف عطا فرمایا اور پھر مزید نعمتیں دے کر اسے خرید فرمالیا انسان کے پلے سے تو کچھ بھی نہ گیا کہ اس کا اپنا تھا ہی کچھ نہیں چناچہ اس کیفیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں کفار سے لڑتے ہیں ان کو مارتے ہیں یا خود مرتے ہیں انھیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ مال کا نقصان ہو یا جان جائے وہ سب کچھ پہلے ہی بیچ چکے جس ہستی نے کریدا ہے اس کا حکم ہے کہ یہاں الٹا دوتولٹ جائے ان کا اس میں کیا ہے یہ سود اگر ی پہلی بار نہیں بلکہ پہلی امتوں میں بھی ہوتی رہی جس کا ثبوت پہلی کتابوں سے ہوتا ہے کہ یہ کھراوعدہ تورات وانجیل میں بھی تھا اور قرآن حکیم میں بھی موجود ہے ۔ اب یہ فریق ثابی پر یعنی بندے پر موقوف ہے کہ اللہ سے کئے گئے اس سودے کو کس حدتک پورا کرتا ہے اگر جان ومال اللہ کا ہے تو اس کی نافرمانی کرکے مال بڑھا نے کی ضرورت نہیں رہتی اگر جان اس کے ہاتھ بیچ دی تو حرام کھانے یافعل حرام کرنے یا خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے اللہ کی نافرمانی کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اگر کوئی بندہ ایمان قبول کرنے کے بعد ان باتوں میں ملوث ہوتا ہے تو گو وہ اپنے سودے سے پھر رہا ہے اس کی بات الگ ہے مگر ایسے عالی ہمت لوگ جو اس سودے کو نبا ہتے ہیں اور اپنے قول کا پاس رکھتے ہیں انھیں یہ سودا مبارک ہو کہ اگر وہ اپنے پورے خلوص سے اسے نباہ رہے ہیں تو اللہ کریم اس سے ہرگز نہ پھریں گے بلکہ اللہ کی جنت اب ان کی ہوگئی اور یہ معمولی بات نہیں ، بہت بڑی کا میابی ہے۔ میدان جنگ میں تو بعض اوقات ایسے لوگ بھی کود پڑتے ہیں جو عملی زندگی میں بھلے نہیں ہوتے کہ یہ ایک جذباتی لمحہ ہوتا ہے اور لوگ جذبات سے مغلوب ہوکرٹکراسکتے ہیں مگر جو جذبات میں بہہ کر نہیں کمال ایمان کے سبب جہاد کرتے ہیں ان کی عملی زندگی میدان جہاد سے باہر بھی بدل جاتی ہے وہ ہمیشہ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں اور باربار اللہ سے طلب مغفرت اور اپنی دیدہ ونا دیدہ لغزشوں کی معافی طلب کرتے رہتے ہیں اللہ کی عبادت کرنے کر والے ہوتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کا شکر بجالا نے والے ہوتے ہیں ۔ یہ دیکھا گیا ہے اکثر بےعمل افراد کو اللہ سے شکایت ہی رہتی ہے اور شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنی تکالیف ہی گنواتے رہتے ہیں مگر ایمان مضبوط ہو تو ہر حال میں شکر کی توفیق نصیب ہوتی ہے عبادات کو صرف پوراہی نہیں کرتے رکوع و سجود کی لذتوں سے آشنا ہوتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں غرض اللہ کی قائم کردہ حدود کے پاسبان بن جاتے ہیں نہ صرف یہ کہ خود نہیں توڑتے حتی الا مکان کسی دوسرے کو بھی ان حدود سے متجاوز نہیں ہونے دیتے ان صفات سے متصف ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے کہ قبل محشرعرصہ محشر کی کامیابی پہ یہ چیزیں ایک مضبوط دلیل ہیں ۔ آج ہم دنیا وآخرت میں ایسے ہی انعامات کی امیدتو رکھتے ہیں مگر اپنی طرف سے سود انہ صرف بھول چکے ہیں بلکہ ایک طرح سے منسوخ کردیا ہے اللہ کریم ہمیں اس سودے پر قائم رہنے کی توفیق بخشے ، آمین۔ ابو طالب کا انجام اور اس کا سبب جو لوگ یہ سودا کرتے ہی نہیں اور کفر پہ قائم رہتے ہوئے دنیا سے چلے جاتے ہیں ان کا بھلاتو کیا ہوگا ؟ نبی اکرم ﷺ اور مومنین کو ان کی نجات کے لئے دعا کرنا بھی نہ زیب ہی دیتا ہے اور نہ اس کی اجازت ہے ۔ مفسرین کرام کے مطابق آپ ﷺ کے حچا ابو طالب کی وفات ہوگئی ۔ زندگی میں انھوں نے آپ کی بہت حمایت کی اور کسی کا کہا نہ مانا ۔ وقت وفات آپ ﷺ نے کوشش فرمائی کہ اگر میرے کا ن میں بھی کلمہ پڑھ دیں تو میں آپ کی شفاعت کروں گا مگر ابوجہل جو پاس بیٹھا تھا۔ ہر بار کہہ اٹھتا کہ اب مرتے وقت عبدالمطلب کا دین یعنی آبائی مذہب چھوڑدوگے چناچہ اس کا آخری کلمہ یہی تھا کہ میں آبائی مذہب پر جان دے رہا ہوں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا میں ان کے لئے دعا تو کروں گا یہ الگ بات ہے کہ اللہ کریم ہی روک دیں چناچہ یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے دعا کرنا ترک فرمادیا۔ یہاں ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ﷺ کے چچا ابو طالب نے آپ کی حمایت آخری دم تک کی اور کسی کی ناراضگی خاطر میں نہ لائے تو انھیں توبہ کی توفیق کیوں نہ ملی ؟ یہاں ایک بات کی اصلاح بھی ضروری ہے کہ ابو طالب نے آپ ﷺ کی حمایت ضرور کی مگر یہ غلط مشہور ہے کہ آپ کی پرورش بھی کی سیرت کی کتاب محمد رسول اللہ ﷺ جو مصر کی طبع شدہ ہے میں موجو ہے کہ آپ ﷺ نے ابو طالب کے کنبہ کی پر درش کی کہ جب ان کے ساتھ لگے تو آپ نے بچپن میں ہی مزدوری پر بکریاں چرانا شروع کردیں اور جو ملتا وہ چچاکودیتے جو غریب بھی تھے اور کثیر الا دلاد بھی جب شادی کرکے الگ ہوئے تو ایک بچہ پاس رکھ لیا کہ چچا کی مدد ہوسکے یہی بچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے ۔ لیکن چچانے حمایت اپنی جان کی پرواہ نہ کرکے بھی کی تو اسکا صحیح اور آسان جواب یہ ہے کہ ابو طالب نے محمد رسول اللہ ﷺ کی حمایت نہیں کی بلکہ اپنے بھتیجے محمد بن عبداللہ کی حمایت کرتے رہے اگر نبوت و رسالت کی طرف متوجہ ہوتے تو کبھی خالی نہ رہتے ۔ مومن کی دعا بہرحال یہ قانون بیان کردیا گیا کہ کسی مشرک کے لئے دعا بھی نہ کی جائے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ مومنین کے حق میں مومنین کی دعا بھی اللہ کا انعام ہے اور آپ ﷺ کی دعا کی تو بات ہی کیا ہے ۔ ان کا کرم پھر ان کا کرم ہے ان کے کرم کی بات نہ پوچھو۔ اور اس نعمت سے محرومی شرک جیسے ظلم کی سزا کے طور پر ہے بہرحال زندگی میں کافر ومشرک کی نجات کی دعا بھی جائز ہے کہ زندگی میں نجات سے مراد ایسے اعمال کی توفیق ہے جو باعث نجات ہوں جیسے ایمان اور عمل صالح احد میں رخ انور زخمی ہوا تو آپ ﷺ فرماتے تھے ۔ اللھم اغفرقومی فانھم لا یعلمون ۔ اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے وہ مجھے جانتے نہیں ۔ وہی بات کہ محمد بن عبداللہ سے لڑ رہے ہیں تیرے رسول کی عظمت سے ناواقف ہیں اور جب کفر پر کسی کا خاتمہ ہواتو واضح ہوگیا کہ یہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن ہے لہٰذا اس کے لئے دعانہ کی جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے والد کی بخشش کے لئے دعا کی تھی یہ بات جو مشہور ہے درست ہے کہ مشرکین میں بھی دین ابراہیمی کی عزت بھی تھی اور کچھ باتیں بھی محفوظ تھیں جن میں یہ بات بھی تھی تو اللہ نے تصدیق فرمائی کہ انھوں نے کی تھی کہ دین تو پوری محنت سے اور کھری کھری باتیں کرکے پہنچا یا مگر جب وہ نہ مانے تو جدا ہوتے وقت وعدہ فرمایا تھا کہ ساسستغفرلک ربی میں اپنے رب سے تمہاری بخشش مانگوں گا کہ حضرت ابراھیم بہت ہی نرم خو اور حلیم الطبع تھے لہٰذا اپنے وعدے کا پاس کرتے ہوئے دعاضرورفرمائی مگر جب انھیں یہ یقین ہوگیا کہ وہ تو آخری دم تک کفر پر اور اللہ کی مخالفت پر قائم رہے تو ان سے اپنی برأت کا اعلان کردیا اور یہی ایمان کا اثر ہے کہ جس دل میں نور ایمان نہ ہو اس سے کوئی رشتہ نہیں رہتا۔ اللہ کریم کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کسی کے گمراہ کافر ہونے کا اعلان فرمادے اور اس کفر کی سزائیں جاری کردے یابندہ ایمان لائے اور وہ اسے محروم کردے ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ ہاں ! قاعدہ یہ ہے کہ ضابطے اور قانون بتادیئے جاتے ہیح ۔ نبی بھیج کر کتاب نازل کرکے حدود متعین فرمادی جاتی ہیں ۔ اب جو ان حدود کو قبول ہی نہیں کرتے یا کرنے کے بعد ان سے نکل جاتے ہیں تو یہ ہلاکت اپنے لئے وہ خود اختیار کرتے ہیں کہ اللہ کریم ان کے ہر حال سے واقف ہے خواہ وہ زبانی کچھ کہیں بھی اجرتو عمل پر مرتب ہوتا ہے اور یہ اختیار اس نے خود بندوں کو بخشا ہے ورنہ وہ مختار کل ہے ساری کائنات اس کی اور صرف اسی کی ہے آسمانوں کی سلطنت ہو یا زمین کی اصل حاکم تو دہی ہے زندگی بھی وہی بخشتا ہے اور موت بھی اسی سے اجازت پاکروارد ہوتی ہے ۔ اور لوگومت بھولو اسے چھوڑکریا اس کی اطاعت سے نکل کر تم تنہارہ جاؤگے نہ کوئی تمھارادوست ہی ہوگا اور نہ کوئی ایسا جو تھوڑی بہت بھی مددہی کرسکے ۔ وہ تو ایسا کریم ہے کہ اپنے نبی پر انعامات کی بارش کردی اور ان مہاجرین وانصار پر بھی جو ہر حال میں نبی ﷺ کی خدمت پہ کمربستہ رہے ۔ درجات ومقامات قرب کی انتہا نہیں توبہ کا مفہوم صرف گناہ سے معافی نہیں جبکہ یہ ذات باری کی طرف منسوب ہو کہ اس نے توبہ قبول فرمائی تو مراد ترقی درجات ہوتی ہے جیسا کہ یہاں ارشاد ہے لقدتاب علی النبی یعنی اپنے نبی اور ان کے خدام مہاجرین وانصار کے درجات مسلسل بلند کرتا ہے اور جس طرح اس کی ذات لامحدود ہے اسی طرح مقامات قرب کی بھی حد نہیں اور سلوک کبھی ختم نہیں ہوتا نہ ہوگا آخرت میں بھی لذات و کیفیات کے اعتبار سے مسلسل ترقی ہوتی رہے گی ، اگرچہ مقامات کی ترقی کا انحصار دنیا کی عملی زندگی پر ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اللہ کا خاص سلوک کریمانہ ایسے جان فروش خادم جو ساعت عسرت میں بھی پیچھے نہ ہٹے یعنی انتہائی تنگی کے دنوں میں ، مرادغزوئہ تبوک ہے کہ قحط سخت گرمی لمباسفر اور ایک بہت بڑاطاقتور دشمن ۔ مگر انھوں نے کسی شے کی پرواہ نہ کی بلکہ بعض جو کسی قدر گھبرائے بھی منافقین کی باتوں نے انھیں الجھا بھی دیا اور قریب تھا کہ ان کے قلوب تباہ ہوجاتے بات بدل جاتی مگر اللہ نے ان پر اپنا دامن رحمت پھیلا دیا انھیں قوت بخشی کہ وہ درست فیصلہ کرسکیں کہ ان کے دلوں میں خلوص تھا تو اللہ نے شیطان اور منافقوں کی باتوں سے انھیں بچالیا اور جو لمحہ بھر وہ لڑ کھڑائے تھے اگرچہ یہ بھی انھیں زیبانہ تھا اور ان کی شان کے مطابق تو بہت بڑاجرم تھا دامن عفونے انھیں اس سے پاک کردیا اور اللہ نے یہ سب کچھ بخش دیا کہ وہ بطور خاص ان لوگوں سے تو مہربانی اور رحمت فرماتا ہے ۔ ذرا انہی تین کو دیکھ لوجو اس جہاد میں پیچھے رہ گئے ۔ یہ بات پہلے بھی اشارۃ ہوچکی ہے کہ کچھ مخلصین میں سے بھی سستی کرگئے اور جہاد پہ ہمرکاب نہ ہوسکے مگر آپ ﷺ کی واپسی پر حاضر خدمت ہو کر اقرار کرلیا کہ ہمارے خلوص میں کمی نہیں آئی سستی ہوگئی کچھ نے خود کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا مگر تین حضرات حضرت کعب ابن مالک ، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے کو ستونوں سے تو نہ باندھا مگر اقرار جرم کرلیا یہ انصاری بزرگ تھے اور بیعت عقبہ سے لے کر پہلے تمام غزوات تک میں شریک رہے تھے مگر اس بار ذرا سستی ہوگئی تو اس قدرناراضگی کا اظہار ہوا کہ اقرار جرم کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا معاملہ اللہ کے سپرد ہے لیکن جب تک کوئی حکم نازل نہیں ہوتا ان سے تمام مسلمان قطع تعلق کرلیں حالانکہ یہ شہور مجاہد اور مدینہ منورہ کی مشہور ہستیاں تھیں ۔ دوحضرات تو عمر رسید ہ تھے مگر کعب ابن مالک ؓ ہنوزجوان تھے اور بہت معروف آدمی تھے فرماتے ہیں سب مسلمانوں نے ہم سے رخ پھیرلیا اور سلام کا جواب بھی کوئی نہ دیتا تھا اس پر جب چالیس دن گزر گئے تو راشاد ہو ا کہ ان کی بیویاں بھی ان سے الگ ہوجائیں ۔ پوری دنیا میں تنہا ہوگئے اور زندگی ان کیلئے مصیبت بن گئی ۔ غسانی سردار نے جو کافر تھا اور قیصر کا دست رست تھا ، حضرت کعب بن مالک ؓ کو لکھا کہ میرے پاس آجاؤ تمہاری بہت عزت ہوگی ۔ آپ ؓ نے وہ چٹھی تنور میں جھونک دی کہ یہ اس کا جواب ہے مگر زندگی تلخ ہوگئی کہ کیا اب کافروں کو مجھ سے امیدیں بندھنے لگیں یعنی ان ؓ کی دنیا تاریک ہوگئی ۔ زمین اپنی فراخی مگر زندگی تلخ ہوگئی کہ کیا اب کافروں کو مجھ سے امیدیں بندھنے لگیں یعنی ان کی دنیا تاریک ہوگئی ۔ زمین اپنی فراخی سمیت ان پر تنگ ہوگئی اور انھیں اپنی زندگی بھی بوجھ نظر آنے لگی حتی کہ انھیں یقین ہوگیا کہ اللہ سے کوئی پناہ نہیں دے سکتا نہ اس کی دی ہوئی مصیبت کوئی دوسرا ٹال سکتا ہے ۔ جب وہ خود ہی اپنا رحم نہ فرمائے توا للہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی پچاس روز کے بعد یہ آیت نازل ہوئی جس پر آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی خوش ہوئے ۔ حضرت کعب ؓ کو جن کا گھرجبل سلع سے دوسری جانب تھا ، خوشخبری دینے کو دوڑے ۔ سب سے آگے ابوبکر صدیق ؓ اور فاروق اعظم ؓ تھے ۔ حضرت عمر ؓ آگے نکل گئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے جبل سلع پر چڑھ کر آوازلگا دی کہ اے کعب ! مبارک ہو۔ ذراہم یہاں اپنا کردار سامنے رکھ کرو دیکھیں کہ ہم آپ ﷺ کے مشن میں کتنا ہاتھ بٹا رہے ہیں ۔ اور کتنے جہاد کر رہے ہیں کہ اللہ سے انعامات کے متمنی ہیں تو شاید اپنی حیثیت کا اندازہ کرسکیں گے ۔ چناچہ رب جلیل تو توبہ قبول کرنے والا ہے اور اتنی بڑی رحمت کا مالک ہے کہ انسان اس کی وسعتوں کا اندازہ کرنے کی سکست نہیں رکھتا ۔
Top