Asrar-ut-Tanzil - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا (لیکن) آپ نے ان کو اجازت کیوں دی جب تک کہ آپ کے سامنے سچے لوگ ظاہر نہ ہوجاتے اور جو جھوٹے ہیں وہ بھی معلوم ہوجائے
آیات 43 تا 59 اللہ نے آپ کو معاف تو کردیا مگر آپ ﷺ نے انھیں جہاد سے رہ جانے کی اجازت ہی کیوں دی ؟ اگر آپ ایسانہ کرتے تو بھی یہ جہاد میں شامل ہونے سے تو رہے ہاں سب لوگوں پہ ان کی اصلیت کھل جاتی اور نفاق واضح ہوجاتا ۔ رشتہ قلبی کے انداز یہاں اگر چہ بات ایک مشورے کے انداز میں ارشاد ہے کہ اگر آپ اجازت نہ دیتے تو ان کے پاس بہانہ نہ ہوتا مگر نبی اکرم ﷺ کے قلب اطہر کو جو تعلق ذات باری سے تھا وہ اس قدربات بھی برداشت نہ کرپاتا ۔ لہٰذ اسوالیہ انداز میں بات ارشاد فرمانے سے پہلے فرمایا عفا اللہ عنک اللہ نے آپ کو معاف فرمادیا کوئی نارزضگی یا خفگی کی بات نہیں مگر آپ نے ایسا کیوں کیا یہ معافی گناہ کی نہیں کہ عصمت نبوت کے خلاف ہو بلکہ نیکی کے اس معیار کی ہے جو آپ ﷺ کی شان کے مطابق تھا ہوا پھر بھی درست مگر معیار وہ نہ رہا اور یہی کمال ہوتا ہے ذکر الٰہی اور صحبت شیخ کا کہ قلب کو ذات باری سے ایسا تعلق نصیب ہوجائے کہ اس کی نافرمانی برداشت نہ کرسکے ۔ لہٰذا آپ ﷺ اجازت نہ دیتے تو یہ بہانہ نہ بناسکتے اور ان کا جھوٹ کھل جاتا ۔ مومن ومنافق کے اوصاف میں فرق کہ مومن تو کبھی جہاد سے جی نہیں چراتا اور جان مال کو اللہ کی راہ میں لگا نے کے لئے ہمہ وقت نہ صرف تیار بلکہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ یہاں جس جہاد کا ذکر ہے یہ میدان جنگ میں عملا کفر اور ظلم کے خلاف لڑنے کا نام ہے اور جو لوگ اس سے جی چڑاتے ہیں اور بہانے کرتے ہیں درحقیقت انھیں نہ اللہ پر ایمان نصیب ہے نہ ہی آخرت پہ یقین حاصل ہے ۔ ان دلوں کو وہ رشتہ الفت تو کیا نصیب ہوتا وہ تو ابھی ذات باری میں ہی شک میں مبتلا ہیں اور اسی گڑھے میں عمر عزیز کو برباد کر رہے ہیں جبکہ محبت کرنے کے لئے نہ صرف یقین بلکہ ایک خاص نسبت اور تعلق بھی چاہیئے جس سے یہ لوگ یکسرمحروم ہیں اور اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ جانا بھی چاہتے یا جہاد میں شریک ہونے کے متمنی ہوتے تو تیاری تو کرتے ۔ اپنے اسباب کو بروئے کار لا کر کام نہ کرسکنا عذر ہے نہ یہ کہ کچھ کیا ہی نہ جائے پھر کوئی عذر پیش آجاتا تو حاضر خدمت ہو کر اجازت چاہتے انھوں نے سرے سے کوئی تیاری ہی نہیں کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا شامل ہونے کا کوئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا شامل ہونے کا کوئی ارادہ ہی نہ تھا ۔ یہی حال تمام امور میں ہے کہ انسان اپنے اسباب کو بروئے کار لائے پھر کوئی عذرمانع ہو تو وہ ثواب پائے گا اور جو سرے سے کچھ کرنا ہی نہ چاہے پھر خواہ عذر شرعی بھی درمیان آجائے اسے کوئی اجرنہ ملے گا اطاعت رسول ﷺ کی توفیق بھی اللہ کی پسند سے ملتی ہے فرمایا جب انھوں نے آپ سے محبت نہیں کی تو ہم نے بھی ان کا آپ کے ساتھ جہاد پہ نکلنا پسند نہیں کیا کہ اطاعت رسالت کی توفیق تو اللہ کی پسند پر ہے اور یہی اللہ کی رضا مندی کی سند ہے جن دلوں میں آپ ﷺ کی عظمت ہی نہیں بھلا اللہ انھیں آپ کی رفاقت کے لئے پسند فرمائے گا ؟ کبھی نہیں ! لہٰذ اللہ نے ان کا نکلنا ہی پسند نہیں فرمایا اور ان کے دل میں بات ڈال دی کہ جمے رہو اور پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ رہ جاؤ ۔ شیخین کی عظمت روضئہ اطہر میں دفن ہو کر ظاہر ا بھی ہمیشہ ہمیشہ کی رفاقت سے مشرف ہونا شیخین کے اس قلبی تعلق کی دلیل ہے جو ساری کائنات میں انھیں رسول اللہ ﷺ سے نصیب تھا یعنی عشق رسول ﷺ کا وہ درجہ کسی تیسر ی ہستی کو نہیں ملا۔ اگر یہ لوگ نکلتے بھی تو مسلمان سپاہ میں بددلی پھیلا نے کی کوشش ہی کرتے اور افواہیں پھیلاتے بلکہ ان میں بعض تو دشمن کے باقاعدہ جاسوس ہیں اور وہ مسلمانوں کی مدد کرنے کی بجائے ان کے حالات اور ارادوں سے دشمن کو با خبر کرنے کی کوشش کرتے یا پھر بعض سادہ لوح مسلمان ان کی بات سن کر پریشان ہوجاتے اور ان کی افواہوں پہ کسی حدتک کان دھرنا شروع کردیتے ۔ تو اللہ نے مخلص اور سادہ مسلمانوں کو بھی خصوصا ، اور لشکر اسلام کو عموما ان کے شر سے محفوظ رکھا اس لئے کہ وہ غلط کارلوگوں کے حال سے خوب واقف ہے ۔ نیکی کو پانے کی شرط یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ نیکی کو پانے کی بنیادی شرط قلبی تعلق ہے ورنہ بظاہر نیکی کو نکلنے والا انسان بھی دنیا کی محبت یا عہدے کی طلب کا اسیر ہو کر برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے خواہ بظاہر نیک دکھائی دیتا رہے جیسا کہ یہ لوگ بظاہر تو مجاہد نظر آتے مگر کام مسلمانوں کے خلاف کرتے اور یہ پہلے بھی ایسا کرچکے ہیں جیسے غزوہ احد میں الگ ہوگئے یا خندق میں مشرکین سے سازباز کی اور یہود کو ان کا ساتھ دینے پہ آمادہ کیا بلکہ انھوں نے تو آپ ﷺ کو زبردست نقصان پہنچا نے کی کوشش کی اور وہ یہ کہ انھوں نے آپ ﷺ کا کام ہی الٹ دینا چاہا یعنی آپ غلبہ اسلام کے لئے جان لڑا رہے تھے اور یہ اسلام کی شکست کے درپے تھے ۔ گویا غلبہ اسلام کے لئے جہاد رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ ٹبانا ہے اس کے خلاف کرنا آپ ﷺ کی مخالفت کرنے کے برابر ہے لیکن اللہ کا حکم نافذہوا اور حق غالب ہوا اگر چہ یہ اس بات پہ بہت ناخوش ہوئے۔ احدکی فتح یہ آیہ کریمہ اس بات پہ دلالت کرتی ہے کہ احد میں فتح مسلمانوں ہی کو ہوئی اگر چہ مسلمان شہید ہوئے آپ ﷺ کا رخ انورزخمی ہوامگر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اہل مکہ بھاگے اور اسلامی لشکر نے تعاقب بھی کیا ۔ پھر و ہیں فروکش رہ کر آپ ﷺ نے شہداء کی تدفین فرمائی پتہ نہیں یہ بڑکس نے ہان کی کہ مسلمانوں کو احد میں شکست ہوئی ۔ یقینا یہ پر اپیگنڈہ بھی منافقین ہی کا ہے جس سے بعض سادہ لوح مسلمان بھی متاثر ہوئے ۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ میراوہاں جانا میرے لئے سخت آزمائش کا سبب بن جائے گا جیسے ایک خاص منافق جدبن قیس نے عرض کیا کہ رومیوں کی عورتیں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں اور مجھ میں کمزوری ہے کہ عورتوں کے حسن میں مبتلا ہوجاتا ہوں لہٰذ امجھے رخصت دی جائے کہ وہاں جاکر گناہ نہ کر بیٹھوں تو ارشاد ہوا کہ گناہ تو تم کر ہی بیٹھے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بہانے گھڑنا اور آپ کی رفاقت سے گریز اس سے بڑا گناہ کونسا ہوگا ؟ جہنم کا محیط ہونا لہٰذا تم گناہ میں مبتلا تو ہوگئے مگر یہ یاد رکھو تم پیچھے رہ کر بھی آرام سے نہ رہ سکو گے کہ جہنم کا فروں کو گھیرے ہوئے ہے ۔ آخرت میں تو جہنم ہی میں رہیں گے لیکن کفر کی وجہ سے جہنم سے ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ اس کا اثر دنیا کی زندگی میں بھی باطنی بیقراری اور دلی پریشانی کی صورت میں سامنے رہتا ہے اور دنیا کی لذتیں بھی بےمزہ لگنے لگتی ہیں ۔ اس کی مشاہدہ اللہ سے بیزار مغربی معاشرے میں کھلی آنکھوں کیا جاسکتا ہے کہ مادی آسائشوں کے ڈھیر لگے ہیں مگر سب ہی لوگ ذہنی دباؤ اور قلبی اور اندرونی خلفشار کے مریض ہیں ، انھیں کسی کل چین نصیب نہیں ازواجی زندگی بدترین صورت سے دوچار ہے اخلاقیات نام کی کوئی شے نہیں ۔ پورامعاشرہ بالکل برہنہ ہوچکا ہے حلال و حرام کی تمیز نصیب نہیں اور اس سب کے ساتھ آج کے مغرب کا سب سے بڑا مرض انجانا خوف ہے ہر آدمی ڈرتا ہے کس سے ؟ یہ اسے معلوم نہیں اور اس سے گلوں خلاصی کے لئے سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں مگر یہ ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں کہ وہ خود اس مرض کے اسیر ہیں داصل یہی جہنم کے محیط ہونے کا اثر ہے جو حیات دنیا میں بھی ظاہر ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ آپ کو فتح نصیب ہو تو انھیں دکھ ہوتا ہے اور اگر مسلمانوں کو شدت پیش آئے اور مقابلے میں تکلیف پہنچے تو یہ اپنی دانائی کا ڈھنڈورا پٹیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں خبر تھی ایسا ہی ہوگا تب ہی تو ہم پہلے سے الگ ہوگئے تھے اور محتاط رہنے کو ترجیح دی ۔ تقدیر ورتبدیر آپ فرمادیجئے کہ اس میں تمہاری ہوشیاری کی کوئی بات نہیں بلکہ جو بات وقوع پذیر ہوتی ہے وہ اس قادر مطلق کی طرف سے ہوتی ہے جس کی اطاعت میں ہم کمربستہ ہیں کی تعمیل ہے اور نتائج پیدا کرنا یہ اس کا کام اس کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو اپنا فیصلہ نافذ کرسکے لہٰذا بظاہر میں مومن اس کی آرزو کرتا ہے اور یہی مسئلہ تقدیر کی صورت حال ہے جو آپ ﷺ نے واضح فرمادی مومن اس کی آرزو کرتا ہے اور یہی مسئلہ تقدیر کی صورت حال ہے جو آپ ﷺ نے واضح فرمادی کہ بندہ کے ذمہ پورے خلوص کے ساتھ اطاعت کرنا ہے اور پوری محنت سے اپنے وسائل حق کے غلبہ کے لئے استعمال کرنا ہے اب نتیجہ کیا ہوگا یہ اللہ کریم کا کام ہے جو بھی ہوگا وہی منظور ہے ۔ کام نہ کرکے کہنا کہ تو کل کر رہے ہیں محض کم ہمتی کا بہانہ ہے چونکہ وہی ذات ہماری کارساز اور مالک ہے لہٰذا ہمیں اسی پہ پورا بھر وسہ ہے اور یہی مومن کو زیب بھی دیتا ہے یعنی جس کام کے کرنے کا حکم ہے اس کے لئے بھر پورکوشش کرنا اپنے اختیاری وسائل پوری طرح آزمانا یہ ہماری ذمہ داری ہے نتیجہ اس کے دست قدرت میں ہے نیز مومن کی ہر طرح جیت ہے کہ فتح یاشہادت دو میں سے ایک مراد یقینا پالے گا اور شہادت مومن کو فتح سے کم عزیز نہیں لہٰذ اہم تو کسی طرح نقصان میں نہ رہے مگر جہاد سے منہ موڑ نے والو ! تمہارے لئے تو اللہ کا عذاب ہی ہے اور اسی کی امید کی جاسکتی ہے خواہ وہ تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذ(رح) لیل کرے یا اپنے پاس سے کوئی اور عذاب نازل کردے بہرحال دونوں صورتیں تمہارے لئے پریشان کن ہیں ۔ لہٰذ اتم بھی انتظار کرو اور ہم تمہارے انجام کے لئے منتظر ہیں۔ نفاق کفر کی بدترین قسم ہے اور اس کے اثرات وہی ہیں اگرچہ منافق بظاہرعبادت بھی کرتا ہے جو لوگ منافقت کے اسیر ہیں اور جہاد سے جی چراتے ہیں اگر اپنی برائے نام مسلمانی کا بھر م رکھنے کو اللہ کی راہ میں خرچ بھی کریں خواہ بےدلی سے کریں یا دخواہش دپسند سے کریں اللہ کریم ان کی اس کا وش کو قبول نہیں فرمائیں گے کہ اپنی اصل میں تو یہ نافرمان ہیں چند عبادات اگر دکھاوے کے لئے بھی تو کیا حاصل ۔ ان کے صاقات یا مل کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی قبولیت میں رکاوٹ ان کا دلی کھوٹ ہے جن دل ہی مطمن نہیں تو ظاہر عبادات صرف دنیا کے سامنے ان کو مسلمان ظاہر کرتی ہیں اللہ تو جانتے ہیں کہ یہ کافر ہیں نہ ہی اللہ کی عظمت کی مانتے ہیں اور نہ ہی انھیں نبوت و رسالت پہ اعتماد ہے ذرا ان کی نمازیں ہی دیکھ لیں یہ کس قدرسستی اور بےدلی سے ادا کرتے ہیں ۔ ایسے ہی مال بھی خرچ کریں تو بمجبوری کرتے ہیں ورنہ خرچ کرنے کو ان کا دل نہیں چاہتا ۔ بات تو منافقین کی ہورہی ہے مگر مسلمان بھی اپنی عبادات اور صدقات کی کیفیت سے اندازہ کرسکتا ہے کہ کہیں تھوڑی ہی سہی مگر نفاق کی پر چھائیں تو نہیں پڑرہی اور یہ فکر ان لوگوں کو کرنا ہے جو نمازیں ادا کرتے ہیں ۔ اب جن لوگوں نے سرے سے پڑھنا ہی چھوڑدی ہیں ان کا اسلام کیسا ہے یہ انھیں ضرورسوچنا چاہیئے ۔ بغیر ایمان الٰہی کی ایک قسم بھی عذاب الٰہی کی ایک قسم ہے رہی یہ بات کہ ایسے لوگوں کے پاس دولت دنیا بھی بہت ہے اور اولاد بھی ہے بظاہر تو دنیا میں یہی دونعمتیں ہیں اور جس کسی کو حاصل ہوں وہ اپنے کو بڑاخوش نصیب شمار کرتا ہے تو اے مخاطب ! اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اس لئے کہ ہر شے اپنے نتیجے کے اعتبار سے نعمت یا عذاب ثابت ہوتی ہے ۔ بظاہر تو یہ دونوں نعمتیں ہیں مگر اپنے نتیجے کے اعتبار سے کفار ومنافقین کے لئے عذاب کی شدید ترین صورت کہ اللہ انھیں ان چیزوں سے ہی عذاب دینا چاہتا ہے کہ حیات دنیا میں یہ عذاب بہت دکھ دینے والا ہے ۔ اولا دہو اور نافرمان ہو ۔ مغرب میں دیکھیں ، جب جوان بچیاں اپنے دوست لڑکوں کو ساتھ گھر لاتی ہیں یا کئی کئی دن لڑکوں کے ساتھ غائب رہتی ہیں تو والدین پہ کیا گزرتی ہے یہی حال ان کے لڑکوں کا ہے کہ والدین کی عزت وناموس کی دھجیاں ان کی نظروں کے سامنے بکھرتی ہیں ۔ رہا مال ! تو جب تک قلبی اطمینا ن نصیب نہ ہو ، مال بھی کھانے کو آتا ہے اس کی صرف ایک مثال کافی ہے بستر اور جدید آسائشی سامان چھوڑ کر ویر انوں میں نپاہ لے رہے ہیں کہ شاید کچھ سکون ملے مگر ناممکن ہر صورت ہی عذاب کی ایک صورت بن رہی ہے یہی حال اندرون ملک بھی بشیتربڑے گھروں کا ہے صرف باہر کا پردہ ہے ورنہ جہاں بھی دین نہیں وہاں مال اور اولاد کا عذاب پوری شدت سے مسلط ہے ۔ پھر اس کے بکھیڑے انھیں فرصت ہی نہیں دیتے تا آنکہ موت آجاتی ہے اور یونہی نفاق کا داغ ماتھے پہ لئے دنیا چھوڑ جاتے ہیں اور یہ بہت بڑا عذاب ہے کہ خاتمہ بھی صحیح نصیب نہ ہو ، ان لوگوں کو مال واولاد کے دوسرے عذابوں کے ساتھ یہ کتنا حسرتناک منظر ہے کہ آخرت کے بارے سوچنے اور توبہ کرنے یا اپنی اصلاح کرنے کی فرصت بھی نہیں ملتی اور ان کے بکھیڑوں میں الجھے الجھے موت آجاتی ہے ۔ عملی جہاد سے جی چرانے والے کیسے لوگ ہیں ؟ اگر چہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم تم ہی میں سے ہیں مگر حق یہ ہے کہ یہ تم میں سے یعنی مسلمانوں میں سے نہیں ہیں ۔ یاد رہے بات جہاد میں شامل نہ ہونے سے چلی اور اب تک وہی موضوع جارہا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ میدان عمل میں جہاد سے گھبراتے ہیں ۔ دراصل ان کا ایمان ہی مضبوط نہیں گھر بیٹھ کر وہ عبادت بھی کرتے رہیں تو منظور نہ ہوگی۔ یہاں یہ حدیث پاک پیش کرنا کہ میدان جنگ میں جہاد ، جہاد اصغر ہے اور نمازروزہ ذکر اذکار جہاد اکبر ہے درست نہیں اس لئے کہ نماز روزہ تب جہاداکبر کا درجہ پاتا ہے جب میدان جنگ میں جہاد کی ضرورت نہ رہے اگر کفر ملک پر مسلط ہورہا ہو اور مسلمان اس کا دفاع نہ کریں صرف نماز روزہ پہ خوش رہیں تو یہ جائز نہیں بلکہ غزہ وہ خندق میں نبی رحمت ﷺ کی چار نمازیں فوت ہوئی تھیں مگر آپ نے میدان جنگ کو نہیں چھوڑا تھا یعنی ذاتی عبادات یا اذکار فوت بھی ہوجائیں تو بھی غلبہ اسلام کی کوشش میں سستی دکھانے کا کوئی جواز نہیں او ایسا کرنے والے قسمیں بھی کھائیں کہ ہم مسلمان ہیں تو وہ مسلمان نہین صرف ڈرپوک لوگ ہیں جو دنیا کا۔ آیات 60 تا 66 فائدہ کمانے کے لئے اسلام سے چمٹے ہوئے ہیں یا اعلانیہ کافر ہونے کی جرأت بھی نہیں رکھتے ۔ اگر انھیں کفر کے دامن میں ہی سہی کوئی جائے پناہ مل جائے تو یہ رسے تڑاکر بھاگ جائیں جیسے آج کا مسلمان ، اگر اسے کافر معاشرہ بھی پناہ دے اور چند سکے مل سکیں تو ذرادیر نہیں کرتا خواہ سارادین ہی چھوڑناپڑے بلکہ اکثرنے تو پہلے ہی چھوڑرکھا ہوتا ہے اور منافقت کی نشانیوں میں یہ بھی بہت بڑی نشانی ہے کہ دنیا کا مال ملتا نظر آئے تو دین کو چھوڑ کر بھی لپک پڑے۔ صدقہ اور منافق پھر ان کا حال یہ ہے کہ جو صدقات آپ ﷺ انھیں عطافرماتے ہیں اس پہ مطمئن نہیں ہوتے بلکہ نارواتنقید کرتے ہیں ۔ صدقہ نافلہ اگر کافر اگر کو بھی دیا جائے تو جائز ہے لیکن غنیمت یازکٰوۃ وغیرہ صرف مومن کو دی جاسکتی ہے منافق بھی بظاہر تو ایمان ہی کا دعوے رکھتے تھے الہٰذ اس میں سے جو ملتا اس پر بھی خوش نہ ہوتے اکثر اظہارناراضگی ہی کرتے اور جس کو زیادہ مل جاتا وہ خوشی کرتا دوسروں کو بھی دکھاتا پھر تا یہ حرکت ان لوگوں میں غصہ بھڑکاتی جنہیں نہیں مل سکا ہوتا لیکن رسول اللہ ﷺ کی تقسیم تو اللہ کے حکم سے تھی حق یہ تھا کہ جو ملتا اس پر ہی خوش ہوتے کہ ما اتھم اللہ ورسولہ فرما کر بتایا گیا کہ آپ ﷺ کی عطا دراصل اللہ کی عطا ہے اور آپ ﷺ اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم فرماتے ہیں ۔ سو انھیں کہنا یہ چاہیئے تھا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور اللہ ہی اپنے کرم سے عطا فرمائے گا اور اللہ کا رسول ﷺ اللہ کی عطا کو ہم تک پہنچا نے والا ہے یعنی یہ ہی بہت بڑی نعمت اور عظیم دولت ہے کہ اس کا رسول ﷺ ہمارے ساتھ ہے لہٰذ اسی کی خوشی ہمارا مقصود ہے ۔
Top