Asrar-ut-Tanzil - At-Tawba : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی جَاهِدِ : جہاد کریں الْكُفَّارَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقین وَاغْلُظْ : اور سختی کریں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ
اے پیغمبر ﷺ ! کافروں اور منافقوں سے لڑیں اور ان پر سختی کریں اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے
آیات 73 تا 80 اسرار و معارف جہاد کا حکم ان آیات مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ کو براہ راست کفا ر اور منافقین سے جہاد کا حکم دیا جارہا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان امیریا مسلمان حکومت کبھی بھی فریضہ جہاد سے غافل نہ ہو سکیں کہ جب خود رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جارہا ہے تو اور کون مستثنے ہوسکتا ہے ۔ اسلام نے جنگ کی جگہ جہاد کا حکم دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جہاں کفار جنگ کریں گے تو مقابلہ میں لڑنا جہاد ہے ۔ جہاں مسلمان کم ہوں اور لڑنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو اس جگہ زبانی اور عملی تبلیغ جہاد ہوگا۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اسلام نے تو لڑائی کا حکم دے دیا اب مسلمان کہاں کہاں لڑتے پھریں گے پھر جہاں تعداد میں کم یا گنتی کے ہیں کیسے لڑسکیں گے ؟ تو انھوں نے جہاد کے مفہوم پر توجہ نہیں کی جہاد نیکی کو بھیلانے کی کوشش کا نام ہے اگر سرمیدان مقابلہ کرنا پڑے تو جہاد ہے زبان سے بات کرسکے تو جہاد ہے اور منافق سے تو لڑائی ہو نہیں سکتی کہ وہ ظاہرا تو خود کو مسلمان کہتا ہے اور دکھا نے کے لئے عمل بھی کرتا ہے ۔ لہٰذامنافقین سے جہاد کا مفہوم تو نیکی اور خلوص کی تلقین ہے جس پر کم وبیش سب مفسرین کا اتفاق ہے ۔ اور جہاد میں شدت سے کام لیں کوئی نرمی نہ کریں ۔ ظاہر ہے میدان کار زار کا تو یہ مسلمہ اصول ہے کہ جنگ صرف جنگ ہوتی ہے جو نرمی سے جیتی نہیں جاسکتی ہاں اسلام نے جنگ کے بھی اصول دیئے ہیں اور حدودوقیود مقررفرفرمادی ہیں مگر ان کے اندر رہتے ہوئے کوئی نرمی نہ ہوگی ۔ اسی طرح منافقین سے احکام شریعت پر پوری شدت سے عمل کرایا جائے گا ۔ غلظت جو رافت یعنی نرم دلی کا مقابل ہے اس سے زبان کی تلخی یا قلبی تنگی مراد لینا درست نہیں بلکہ کفار سے جنگ کے اصتونوں کے مطابق پوری پوری سختی ہوگی اور منافقین جو اسلام کے مدعی ہیں ان سے شریعت پر عمل کرانے میں کوئی نرمی نہ ہوگی ۔ امیر کا فریضہ یہاں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ شریعت پر پوری طرح عمل کرانا اور اس کا اہتمام بھی مسلمان امیر کافریضہ ہے ایسے ہی ہر عالم یا پیرلوگ جس کی بات مانتے ہوں کے ذمہ ہے کہ انھیں شریعت پر عمل کی تلقین پوری شدت سے کرے لیکن اگر کفار اور منافقین نے اپنی اصلاح نہ کی اور اسی حال میں دنیا سے گئے تو ان کا انجام جہنم ہے جو بہت ہی براٹھکانہ ہے ۔ منافقین اگرچہ اپنی برأت کے لئے قسمیں کھاتے ہیں مگر یہ کلمات کفرکہنے سے باز نہیں آتے منافقین کی عادت تھی کبھی ایمانیات پہ اعتراض کرتے تو کبھی اعمال میں نقائص بیان کرے جیسے آجکل احکام شرعی پر تنقید ایک فیشن ہے مگر جب بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچتی یا مسلمان گرفت کرتے تو مکر جاتے اور اللہ کی قسمیں کھاتے ۔ تو فرمایا یہ جھوٹے ہیں بلکہ یہ اپنے کلمات کفر کے باعث کافر ہوچکے ہیں حالا ن کہ قبول اسلام سے اسلام میں داخل ہوئے تھے مگر یہ بدنصیب پھر سے کافر ہوگئے ۔ تو یہ بات ثابت ہوئی کہ محض دعوائے اسلام کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک قلبی یقین نصیب نہ ہو ایسا انسان لوگوں کے سامنے بیشک مسلمان بنا رہے اللہ کے نزدیک کافر ہی ہے اور یہی جب قلبی بےیقینی ہی منافقت بھی کہلاتی ہے اور زبان پر ایسے جملے لانے کا سبب بھی بنتی ہے ۔ نیز منافق اگرچہ دنیا کی مقصدبراری کے لئے سارا کچھ کرتا ہے مگر انجام کار اپنے اس مقصد میں بھی ناکام ہی رہتا ہے ۔ مفسرین کرام نے اس آیہ کریمہ کے شان نزول میں اس طرح کے خاص واقعات بھی ارشاد فرمائے ہیں مگر آیت حکم کے اعتبار سے تو عام ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے ۔ لہٰذا ارشاد ہو ا کہ دعوائے اسلام سے انھیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تو سہولتیں بہم پہنچائیں اور مسلمانوں کے برابر حقوق عطافرمائے ! کفران نعمت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ مگر ہر گروہ کی طرح اس کا علاج بھی توبہ ہے اگر چہ بہت بڑا جرم ہے مگر توبہ کرلیں تو ان کے حق بہت بہتر ہے کہ توبہ ہر جرم کو معاف کر ادیتی ہے اور اگر بازنہ آئے پھر ان کا مقدردرد ناک عذاب ہے یہاں اور آخرت میں بھی ۔ اور روئے زمین پر کوئی متنفس ان کی حمایت اور مددنہ کرسکے گا کہ عذاب الٰہی جب آتا ہے تو انسان از خود تنہا بھی ہوجاتا ہے اور نہتا بھی ۔ ان ہی میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے وعدہ کیا اور دعائیں مانگیں کہ اگر اللہ مجھے غنی کردے تو میں اس کے شکر کے طور پر سب لوگوں کے حقوق بھی ادا کرونگا اور خلق خدا کی بھلائی پہ اپنا مال صرف کروں گا مگر جب مال ہاتھ آیا تو مکرگئے اور ایسے بدلے خرچ تو کیا کرتے اور بھی کنجوسی کرنے لگے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی بجائے غصب کرنے لگ گئے ۔ یہ بھی ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے مگر حکم عام ہے اور آج بھی جو لوگ اللہ کی نعمتیں پاکر اقتدار میں آجاتے ہیں یادولتمند ہوجاتے ہیں تو انھیں چاہیئے کہ اللہ کے بندوں کے حقوق پوری محنت سے ادا کریں مگر لوگ نہ صرف حقوق ادا نہیں کرتے الٹے غصب کرنے لگتے ہیں ۔ بعض گناہ ایسے ہیں جن کی سزا کے طور پر توبہ کی توفیق ہی سلب ہوجاتی ہے یہ اتنا بڑاجرم ہے کہ اس کی پاداش میں توبہ کی توفیق ہی نصیب نہیں ہوتی اور روز حشرتک نفاق کو ان کے دلوں میں دھنسا دیا جاتا ہے اور اسی حال بد میں حساب کے لئے پیش ہوں گے یہ ان کے جھوٹ کی سزا ہے کہ اللہ سے وعدہ کرکے اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں کلمہ طیبہ کا اقرار اور اپنے مسلمان ہونے کا دعوے ہی تو بہت بڑا وعدہ ہے ۔ پھر کردارکفار کا اپنا لینا کہاں کا انصاف ہے اگر اس میں یہ بات بھی شامل ہوجائے کہ ہیں مسلمانوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا ہوں تو یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ توبہ کی توفیق بھی سلب ہوجاتی ہے اور یہ فیصلہ اللہ خود کرتے ہیں ۔ کیا انھیں اس بات کی خبر نہیں کہ اللہ چھپی ہوئی بھی اور ظاہر بھی سب ماتیں جانتے ہیں۔ یہ لوگ تو مسلمانوں کا تمسخراڑاتے ہیں ان کا بھی جو دل کھول کر اللہ کی راہ میں صدقہ دیں اور خرچ کریں اور ان کا بھی جو دن بھر کی مزدوری میں جو کماتے ہیں تھوڑا سہی مگر اپنا پیٹ کاٹ کر صدقہ بھی ضروردیتے ہیں۔ کوئی مالدار مسلمان زیادہ کرے تو یہ کہتے ہیں دکھا نے کے لئے دیتا ہے اور تھوڑا دینے والے کو کہتے ہیں بھلا اس ذارسی چیز کی اللہ کو کیا حاجت ؟ مقصد ان کا مذاق اڑانا ہوتا ہے ۔ نیک لوگوں کا مذاق اڑانا بہت بڑا جرم ہے اور یہ اتنا بڑاجرم ہے کہ اس کی پاداش میں یہ خود تقدیر الٰہی کے مذاق کا شکار ہو رہے ہیں یعنی بظاہر تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت فائدے میں ہیں مگر انجام کار سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔ اور یہ آپ ﷺ کے متبعین سے مذاق دراصل توہین رسالت ہے اور اس کی سزا اسقدر یقینی ہے کریں بھی اور بہت زیادہ مرتبہ بھی کریں تو بھی اللہ انھیں معاف نہیں کرے گا کہ انھوں نے اللہ سے اور اس کے رسول ﷺ سے کفر کیا اور ایسے بدکاروں کو اللہ ہدایت بھی نہیں دیتے یہ بھی اس گنا ہ کی سزا کا حصہ ہے ۔ جیسا کہ پہلے گزرچکا کہ توبہ کی توفیق بھی سلب ہوجاتی ہے اور اس پہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگ بھی جو میدان کارزار میں آپ ﷺ کے خلاف لڑے انھیں بھی توبہ نصیب ہوگئی اور وہ بہت چوٹی کے مسلمان جرنیل بھی ثابت ہوئے مثلا حضرت خالدبن دلید ؓ ہی کو دیکھ لیں مگر جن لوگوں نے تمسخر اڑایا اور بدکلامی کرنے کے مرتکب ہوئے وہ کفرہی کی حالت میں موت کے منہ میں چلے گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایند ھن بن گئے۔ ایسے ہی آج جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ یا آپ ﷺ کے متبعین کو۔ آیات 81 تا 89 گالیاں دیتے اور مذاق اڑاتے ہیں وہ سب اسی آیہ کریمہ کا مصداق ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انھیں توبہ کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوتی۔ اور یہ جرم ایسا ہے کہ فرمایا آپ ﷺ اگر شان کریمی کے سبب ان کے لئے دعا بھی کریں تو بھی ان کو معاف نہیں کیا جائے گا ۔ جیسے ابن ابی جو منافقوں کا سردار تھا اس کے مرنے پر آپ ﷺ نے اپنے قمیص مبارک بھی کفن کے لئے عطا فرمایا اور جنازہ کی نماز بھی پڑھا دی کہ اس کا بیٹا مخلص اسلام بھی ہوئے مگر اس کے بعد آپ ﷺ کو منع فرمادیا گیا۔ شیعہ کا جنازہ یاد عائے مغفرت چنانچہ یہ قانون بن گیا کہ کافر کے مرنے پر اس کی نجات کے لئے دعا جائز نہیں یا ایسے منافق جو اپنے مسلمان ہونے کا دعوے کرتے ہیں مگر عملا صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور متقدمین کا مذاق ہی نہیں اڑاتے گالیاں تک دینا اپنے دین کا جزو سمجھتے ہیں ۔ ان کا نہ تو جناز ہ پڑھنا جائز ہے نہ ان کے لئے بعد موت دعا کرنے کی اجازت ہے ۔ آپ ﷺ نے جب ابن ابی کا جناز ہ پڑھا نے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عمرؓ نے دامن تھا م کر عرض کیا کہ آپ نہ پڑھائیے مگر آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے منع نہیں فرمایا یہ فرمایا ہے کہ تم دعا کرونہ کرو ان کی بخشش نہ ہوگی لہٰذا دعا تو کروں گا کہ مجھے اختیار بخشا ہے آگے اس کا اپنا کام ہے ۔ مگر آئندہ اس سے بالکل روک دیا گیا یہ حکم بھی من حمبلہ ان احکام میں سے ہے جو حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے۔
Top