Tafseer-e-Baghwi - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور اگر خدا لوگوں کی برائی میں جلدی کرتا جس طرح وہ طلب خیر میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی (عمر کی) میعاد پوری ہوچکی ہوتی۔ سو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کو توقع نہیں انہیں ہم چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں۔
غصہ کی حالت میں اپنے اہل و عیال کیلئے بد دعا نہیں کہنی چاہئے (11)” ولو یعجل اللہ للناس الشر استعجالھم بالخیر “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ غصہ کے وقت آدمی اپنے اہل و عیال کو جو کچھ کہتا ہے وہ مراد ہے جیسے ” لعنکم اللہ “ اور ” لا بارک اللہ فیکم “ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آدمی کا اپنے آپ اور اہل و عیال اور مال پر ایسی بددعا کرنا جس کی قبولیت کو وہ خود بھی پسند نہیں کرتا ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ شر کے بارے لوگوں کی دعا جلدی قبول کرلیں ، جیسے وہ خیر کے بارے میں جلدی قبولیت چاہتے ہیں تو ” لقضی الیھم اجلھم “ ابن عامر اور یعقوب نے ( لقضی) قاف اور ضاد کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے ( اجلھم) زبر کے ساتھ یعنی البتہ جس پر بددعا کی ہے۔ اس کو ہلاک کردیتا ہے اور موت دے دیتا اور دیگرحضرات نے ( لقضی) قاف کے پیش اور ضاد کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے ( اجلھم) پیش کے ساتھ ۔ یعنی ان کی ہلاکت سے فارغ ہوچکے ہوتے اور وہ سب مرچکے ہوتے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ اس نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر، اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلالت کر رہا ہے۔” فنذر الذین لا یرجون لقاء نا “ یعنی بعث اور حساب کا خوف نہیں کرتے۔ ” فی طًغیانھم یعمھون “ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! میں نے آپ سے ایک عہد کیا تھا جس کے خلاف آپ نہ کریں گے کیونکہ میں ایک انسان ہوں مجھ سے بھی وہ باتیں صادر ہوجاتی ہیں جو کسی انسان سے صادر ہوتی ہیں تو جس مؤمن کو بھی میں نے تکلیف دی ہو یا برا بھلا کہا ہو یا کوڑا مارا ہو یا لعنت کی ہو تو آپ اس کو اس کے لیے رحمت اور صفائی ستھرائی اور قیامت کے دن اپنے قرب کا ذریعہ بنادیں ۔
Top