9 ۔” فی عمد ممددۃ “ حمزہ، کسائی اور ابوبکر رحمہم اللہ نے ” فی عمد “ عین اور میم کے پیش کے ساتھ پڑھا ہے اور دیگر حضرات نے ان دونوں کے زبر کے ساتھ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ” رفع السماوات بغیر عمد ترونھا “ ہے اور یہ دونوں عود کی جمع ہیں جیسے ادیم اور آدم اور ادم۔ اس کو فراء نے کہا ہے اور ابوعبیدہ (رح) فرماتے ہیں عماد کی جمع ہے جیسے اھاب اور اھب اور اھبا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ان کو عمارتوں میں داخل کیا، پھر ان ستونوں کو لمبا کردیا گیا اور ان کی گردنوں میں بیڑیاں ہیں، ان پر اس کے دروازے بند کردیئے گئے۔ اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں، ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ ان ستونوں کے ذریعے سے دوزخ میں ان کو عذاب دیا جائے گا بعض لوگوں کا قول ہے کہ عمدان کو اڑوں کو کیلیں ہونگی جو دوزخیوں کو اندر کرکے بند کردیئے جائیں گے اور یہ عبداللہ ؓ کی قرات ” بعمد “ باء کے ساتھ ہے ۔ مقاتل (رح) فرماتے ہیں ان پر دروازوں کو بند کردیا جائے گا، پھر ان پر لوہے کی میخوں کے ذریعے آگ سے بند کردیا جائے گا حتیٰ کہ ان پر اس کا غم و گرمی لوٹے گی۔ ان کے لئے دروازہ نہ کھولا جائے گا اور ان پر ہوا بھی داخل نہ ہوگی اور ” ممددۃ “ عمد کی صفت ہے یعنی لمبے۔