Tafseer-e-Baghwi - Hud : 105
یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ۚ فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ
يَوْمَ : جس دن يَاْتِ : وہ آئے گا لَا تَكَلَّمُ : نہ بات کرے گا نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے شَقِيٌّ : کوئی بدبخت وَّسَعِيْدٌ : اور کوئی خوش بخت
جس روز وہ آجائے گا تو کوئی متنفس خدا کے حکم کے بغیر بول بھی نہیں سکے گا۔ پھر ان میں سے کچھ بدبخت ہو نگے اور کچھ نیک بخت۔
شقی کون ہے اور سعید کون 105۔” یوم یات “ یاء کو ثابت کھ کر اور حذف کر کے ” لا تکلم “ یعنی یہ اصل میں ” لا تتکلم نفس الا باذنہ فمنھم شقی و سعید “ یعنی پس بعض ان میں سے وہ ہیں جن کے لیے شقاوت مقدر ہوچکی اور بعض کے لیے سعادت مقدر ہوچکی ۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت فرماتے ہیں کہ ہم ایک جنازہ پر نکلے جب ہم جنت البقیع میں تھے تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں چھوٹی لاٹھی تھی۔ آپ (علیہ السلام) تشریف لائے اور بیٹھ گئے پھر اس کے ذریعے زمین کو کھودنے لگے ۔ پھر فرمایا کہ نہیں ہے کوئی جان سانس لینے والی مگر اس کی جگہ جنت یا جہنم سے لکھ دی گئی ہے مگر تحقیق اس کا شقی یا سعید ہونا لکھ دیا گیا ہے تو ایک آدمی نے سوال کیا اے اللہ کے رسول ! تو ہم اپنے لکھے ہوئے پر بھروسہ نہ کرلیں اور عمل چھوڑ دیں ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں ۔ لیکن تم عمل کرتے رہو۔ پس ہر شخص کو توفیق دی گئی ہے اسی عمل کی جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ بہر حال اہل شقاوۃ ۔ پس وہ توفیق دیئے جائیں گے اہل شقاوت کے عمل کی اور بہر حال اصل سعادت وہ توفیق دیئے جائیں گے اہل سعادت کے عمل کی ۔ پھر یہ آیت تلاوت کی ” فاما من اعطی واتقی وصدق بالحسنیٰ فسنیسرہ للیسریٰ واما من بخل واستغنیٰ وکذب بالحسنیٰ فسینیرہ للعسری “۔
Top