Tafseer-e-Baghwi - Hud : 28
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْ١ؕ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اَرَءَيْتُمْ : تم دیکھو تو اِنْ : اگر كُنْتُ : میں ہوں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : واضح دلیل مِّنْ رَّبِّيْ : اپنے رب سے وَاٰتٰىنِيْ : اور اس نے دی مجھے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ عِنْدِهٖ : اپنے پاس سے فَعُمِّيَتْ : وہ دکھائی نہیں دیتی عَلَيْكُمْ : تمہیں اَنُلْزِمُكُمُوْهَا : کیا ہم وہ تمہیں زبردستی منوائیں وَاَنْتُمْ : اور تم لَهَا : اس سے كٰرِهُوْنَ : بیزار ہو
انہوں نے کہا کہ اے قوم ! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف دلیل (روشن) رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے رحمت بخشی ہو جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ رکھی گئی ہے تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہو رہے ہو۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ 28۔” قال “ نوح (علیہ السلام) ” یا قوم ارایتم ان کنت علی بینۃ من ربی واتانی رحمۃ “ یعنی ہدایت اور معرفت ” من عندہ فعمیت علیکم “ یعنی تم پر مخفی رہ گئی ہو یا تم پر وہ چیز ملتبس رہ گئی ہو ۔ اور حمزہ ، کسائی اور حفص نے ( فعمیت علیکم) عن کے پیش اور میم کے شد کے ساتھ پڑھا ہے یعنی مشتبہ اور خلط ملط ہوگئی تم پر ” انلز مکموھا “ یعنی کیا ہم تم کو بینہ اور رحمت لازم کردیں گے۔” وانتم لھا کارہون “ تم اس کو نہ چاہتے ہو گے۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر انبیاء (علیہم السلام) اس پر قادر ہوتے کہ اپنی قوم کو ہدایت لازم کردیں تو لازم ایسا کرتے لیکن وہ اس پر قادر نہ تھے۔
Top