Tafseer-e-Baghwi - Hud : 69
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ
وَلَقَدْ جَآءَتْ : اور البتہ آئے رُسُلُنَآ : ہمارے فرشتے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰي : خوشخبری لے کر قَالُوْا : وہ بولے سَلٰمًا : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام فَمَا لَبِثَ : پھر اس نے دیر نہ کی اَنْ : کہ جَآءَ بِعِجْلٍ : ایک بچھڑا لے آیا حَنِيْذٍ : بھنا ہوا
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابرہیم) بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔
ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دینے والے فرشتوں کی تعداد 69۔” ولقد جاء ت رسلنا ابراہیم بالبشری “ رسل سے فرشتے مراد ہیں ۔ ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ابن عباس ؓ اور عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ تین فرشتے تھے ، جبرئیل ، میکائل ، اسرافیل (علیہم السلام) اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ نو تھے اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں بارہ تھے۔ محمد بن کعب (رح) فرماتے ہیں کہ جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ سات فرشتے تھے اور سدی (رح) فرماتے ہیں کہ نوجوان لڑکوں کی صورت میں گیارہ فرشتے تھے، چمکدار چہرے والے ، اسحاق اور یعقوب (علیہما السلام) کی خوشخبری لائے تھے اور بعض نے کہا ہے کہ قوم لوط کو ہلاک کرنے کی خبر لائگے تھے۔ ” قالوا سلاما ً قال سلام “ یعنی علیکم سلام اور بعض نے کہا ہے کہ حکایت کی وجہ سے موفوع ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ” وقولوا حطۃ “ پر رفع حکائی ہے۔ سورة الذاریات سین کے کسرہ بغیر الف کے ہے۔ بعض نے کہا سلم بمعنی السلام کے ہے، بعض نے کہا سلم بمعنی صلح کے ہے مطلب یہ ہے کہ ہماری تم سے دشمنی اور جنگ نہیں ہے۔ دوستی اور صلح ہے۔ ” فما لبث ان جاء بعجل حنیذ “ حنیذ بمعنی محنوذ یعنی جس کو زمین میں گڑھا کر کے پتھر پر بھونا گیا ہو اور یہ موٹا تازہ تھا اس سے چکنائی ٹپک رہی تھی ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ” فجاء بعجل سمین “ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا اکثر مال گائیں تھیں۔
Top