Tafseer-e-Baghwi - Hud : 6
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا١ؕ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : سے (کوئی) دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي : میں (پر) الْاَرْضِ : زمین اِلَّا : مگر عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ رِزْقُهَا : اس کا رزق وَيَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے مُسْتَقَرَّهَا : اس کا ٹھکانا وَمُسْتَوْدَعَهَا : اور اس کے سونپے جانے کی جگہ كُلٌّ : سب کچھ فِيْ : میں كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : روشن کتاب
اور زمین پر کوئی چلنے پھر نے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے۔ وہ جہاں رہتا ہے اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی۔ یہ سب کچھ کتاب روشن میں (لکھا ہوا) ہے۔
تفسیر : 6” وما من دابۃ فی الارض “ یعنی کوئی دابہ ایسا نہیں ہے من صلہ ہے اور دابہ ہر اس حیوان کو کہتے ہیں جو زمین پر رینگے۔” الا علی اللہ رزقھا “ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کے رزق کی ذمہ داری لی ہے اگر چاہے تو رزق دے اور اگر چاہے تو رزق نہ دے اور بعض نے کہا ہے کہ علی بمعنی من ہے یعنی اللہ کی طرف سے اس کا رزق ہے اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ جو رزق اس کے پاس آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بسا اوقات اس کو رزق نہیں دیتا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرجاتا ہے۔ مستقر اور مستودع کی مختلف تفاسیر ” ویعلم مستقرھا ومستودعھا “ 1۔ ابن مقسم (رح) فرماتے ہیں اور یہی ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے کہ مستقر وہ جگہ جس کو وہ ٹھکانہ بنائے اور رات اور دن کو اس میں قرار پکڑے اور مستودع وہ جگہ جس میں مرنے کے بعد دفن کیا جائے گا ۔ 2۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ مستقر مائوں کے رحم اور مستودع وہ جگہ جہاں موت آئے گی۔ 3۔ عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ مستقر مائوں کے رحم اور مستودع آباء کی پشت اور اسی کو سعید بن جبیر ؓ ، علی بن طلحہ اور عکرمہ رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ 4۔ بعض نے کہا کہ مستقر جنت یا جہنم اور مستودع قبر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کے بیان میں فرمایا ہے۔” حسنت مستقرا او مقاما “۔۔۔۔” کل فی کتاب مبین “ یعنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے اس کی ہر چیز لوح محفوظ میں لکھ دی گئی ہے۔
Top