Tafseer-e-Baghwi - Hud : 72
قَالَتْ یٰوَیْلَتٰۤى ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ هٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا١ؕ اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ
قَالَتْ : وہ بولی يٰوَيْلَتٰٓى : اے خرابی (اے ہے) ءَاَلِدُ : کیا میرے بچہ ہوگا وَاَنَا : حالانکہ میں عَجُوْزٌ : بڑھیا وَّھٰذَا : اور یہ بَعْلِيْ : میرا خاوند شَيْخًا : بوڑھا اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَشَيْءٌ : ایک چیز (بات) عَجِيْبٌ : عجیب
اس نے کہا اے ہے میرے بچہ ہوگا ؟ میں تو بڑھیا ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔
بچے کی ولادت کی خوشخبری کے وقت والدہ والد اسحاق کی عمریں تفسیر 72” قالت یاویلتا “ یہ کلمہ انسان تعجب والی چیز دیکھنے کے وقت کہتا ہے یعنی بڑا تعجب ہے۔” ا الدوانا عجوز “ ابن اسحاق (رح) کے قول میں ان کی عمر نوے سال تھی اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ ننانوے سال تھی ۔ ” وھذا بعلی “ یعنی میرا خاوند۔ زوج کو بعل کہا ہے کیونکہ وہ عورت کے معاملہ میں نگہبان ہوتا ہے۔ ” شیخا “ حال ہونے کی بناء پر منصوب ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ ابن اسحاق کے قول کے مطابق اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں سو سال تھی اور اس خوشخبری اور بچے کی ولادت کے درمیان ایک سال وقفہ ہوا ۔” ان ھذا لشئی عجیب “۔
Top