بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Baghwi - Ar-Ra'd : 1
الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
الٓمّٓرٰ : الف لام میم را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو کہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب کی طرف سے الْحَقُّ : حق وَلٰكِنَّ : اور لیکن (مگر) اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
المر (اے محمد ﷺ یہ کتاب (الہٰی) کی آیتیں ہیں۔ اور جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے۔ لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
تفسیر : 1۔” المر “ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اس کا معنی ہے کہ میں اللہ ہوں جانتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔” تلک “ آیات ” الکتاب “ وہ خبریں جو آپ کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور وہ آیات ( نشانیاں) تورات ، انجیل اور ما قبل کتابوں میں گزر چکی ہیں ۔ ” والذین انزل الیک “ یہ قرآن جو آپ پر نازل کیا گیا ۔” من ربک الحق “ یہ حق ہے اس کو مضبوطی سے تھامے رکھو ۔ یہ عبارت اس طرح تھی ۔ ’ ’ وھو الحق فاعتصم بہ “ اس صورت میں یہ محل رفع میں واقع ہے مبتداء ہونے کی وجہ سے اور ” والحق “ اس کی خبر ہے اور بعض نے کہا کہ یہ حالت نصب میں واقع ہے۔ اس صورت میں عبارت یوں ہوگی ۔ ” تلک “ آیات ” الکتاب وآیات الذین انزل الیک “ اور وہ آیات جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہیں ۔ پھر حق کو ابتداء میں لے کر آئے عبارت یہ ہوئی ۔ ” ذلک الحق “ ابن عبارس ؓ کا قول ہے کہ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ معنی یہ ہوگا کہ یہ قرآن کی نشانیاں ہیں ۔ آیت کا مطلب یہ بنے گا کہ یہ قرآن جو آپ کی طرف نازل کیا گیا تمہارے رب کی طرف سے وہ حق ہے ” ولکن اکثر الناس لا یومنون “ مقاتل کا قول ہے کہ یہ مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے کہا کہ محمد اپنی طرف سے کہتے ہیں ان کے قول کی تردید کی ، پھر ربوبیت کے دلائل ذکر کیے اور ارشاد فرمایا۔
Top