Tafseer-e-Baghwi - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے) اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔
تفسیر 8۔” اللہ یعلم ما تحمل کل انثی “ مذکر ہو یا مؤنث جو وہ اپنے پیٹ میں اٹھائے ہوئے ہے برابر ہے کہ وہ تمام الخلقت ہے یا نا قص الخلقت ہے ، ایک ہے یا دو یا اس سے زائد۔ وما تغیض الارحام و ما تزداد کی تفسیر ” وما تغیض الارحام “ اور جو رحموں میں کم بیشی ہوتی ہے۔” وما تزداد “ بعض اہل تفسیر کا قول ہے کہ تغیض الارحام سے مراد حالت حمل میں حیض کا آنا ۔ جب حاملہ عورت کو حیض آنے لگ جائے تو بچے کے لیے نقصان ہوتا ہے کیونکہ رحم میں حیض کا خون بچے کے لیے غذا کا سبب ہوتا ہے۔ جب حیض جاری ہوگیا تو اس کی غذا منقطع ہوگئی ، اس سے بچے کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور اگر خون جاری نہ ہو تو یہ بچے کی غذائیت میں فائدہ مند ہوتا ہے اور اس سے بچہ بڑھتا ہے۔ اور بعض نے کہا کہ جب حاملہ عورت کو حیض آنے لگ جائے تو بچے کی غذا میں کمی آئے گی اور حمل کی مدت میں اضافہ ہوگا ۔ مثال کے طور پر اگر اس حاملہ نے نو ماہ پاکی کی حالت میں گزارے ، پھر اس کے بعد اس نے پانچ دن حیض کے دیکھے تو اب ان پانچ دنوں میں بچے کی غذا میں نقصان ہوا ، لہٰذا اتنی مدت حمل میں زیادتی بڑھے گی۔ حسن بصری (رح) کا قول ہے کہ ” غیضھا “ سے مراد نو ماہ کی مدت حمل میں نقصان ہے اور ” والزیادۃ “ نو ماہ سے زیادتی مراد ہے اور بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد نقصان اور بچے کا گرجانا اور زیادتی سے مراد تمام الخلقت ہوجانا بناوٹ کا پورا ہوجانا ۔ مدت حمل کی کم از کم چھ ماہ ہے ، اس مدت کے دوران وہ زندہ رہ سکتا ہے اور پرورش بھی پاسکتا ہے اور اس کی اکثرت مدت میں اختلاف ہے۔ رضاعت کی مدت مقدار میں ائمہ کے مختلف اقوال بعض نے کہا کہ اکثر مدت دو سال ہے ، یہی قول حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اور بعض حضرات کے نزدیک اس کی اکثر مدت چار سال ہے۔ اسی طرف امام شافعی (رح) گئے ہیں ۔ حماد بن سلمہ کا قول ہے کہ ہرم بن حبان کو ہرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی ماں کے پیٹ میں چار سال تک رہا ۔ ” وکل شیء عندہ بمقدار “ یہ حد مقرر سے کوئی چیز نہ بڑھ سکتی ہے اور نہ گھٹ سکتی ہے۔
Top