Tafseer-e-Baghwi - Ibrahim : 15
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍۙ
وَاسْتَفْتَحُوْا : اور انہوں نے فتح مانگی وَخَابَ : اور نامراد ہوا كُلُّ : ہر جَبَّارٍ : سرکش عَنِيْدٍ : ضدی
اور پیغمبروں نے (خدا سے اپنی) فتح چاہی تو سرکش ضدی نامراد رہ گیا۔
15۔” واستفتحوا “ اس کا مطلب ہے کہ ان سے مدد مطلب کرو ، ابن عباس ؓ اور مقاتل (رح) کا بیان ہے کہ اس کی ضمیر ما قبل امتوں کی طرف راجع ہے کیونکہ وہ امتیں کہا کرتی تھیں کہ اگر یہ انبیاء و رسل (علیہم السلام) صادق ہیں تو پھر ہم پر عذاب نازل فرما۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا فرمان ” واذا قالوا اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجازۃ من السماء “ اے اللہ ! اگر یہ ہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کردے۔ مجاہد اور قتادہ رحمہما اللہ کا قول ہے کہ ” استفتحوا “ کی ضمیر رسل کی طرف راجع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب رسولوں نے دیکھا کہ ان کی قوم ایمان نہیں لاتی تو وہ اللہ سے مدد مانگنے لگتے اور قوم کے لیے عذاب کی دعا کرتے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا ” رب لد نذر علی الارض من الکافرین دیارا “ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارشادفرمایا ” ربنا اطمس علی اموالھم و اشدد علی قلوبھم “۔۔۔ ” وخاب “ خسارے میں پڑگیا اور بعض نے کہا کہ وہ ہلاکت میں پڑگیا ۔” کل جبار عنید “۔ جبار عنید کی تفسیر میں مختلف اقوال جبار کہتے ہیں کہ جو اپنی ذات سے اعلیٰ اور بالا کسی کو نہ سمجھے ۔ جبر یہ کہا جاتا ہے کہ انتہائی بلندی کو طلب کرنا کہ اس سے اونچی کوئی چیز نہ ہو ۔ اس معنی کی بناء پر اس صفت کا استحقاق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ بعض حضرات نے کہا کہ جبار اس کو کہا جاتا ہے جو مخلوق کو اپنے حکم پر چلنے کے لیے مجبور کرے اور عنید کا معنی ہے حق سے عناد رکھنے والا سچائی سے بیزار ہونے والا ۔ حضرت ابن عبا س ؓ نے عنید کا ترجمہ کیا ہے حق سے روگردانی کرنے والا ۔ مقاتل (رح) نے اس کا ترجمہ کیا تکبر کرنے والا ۔ قتادہ (رح) نے اس کا ترجمہ کیا کہ عنید وہ شخص ہے جو لاالہ الا اللہ کا انکار کرے۔
Top