Tafseer-e-Baghwi - Ibrahim : 43
مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ١ۚ وَ اَفْئِدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ
مُهْطِعِيْنَ : وہ دوڑتے ہوں گے مُقْنِعِيْ : اٹھائے ہوئے رُءُوْسِهِمْ : اپنے سر لَا يَرْتَدُّ : نہ لوٹ سکیں گی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف طَرْفُهُمْ : ان کی نگاہیں وَاَفْئِدَتُهُمْ : اور ان کے دل هَوَآءٌ : اڑے ہوئے
(اور لوگ) سر اٹھائے ہوئے (میدان قیامت کی طرف) دوڑ رہے ہوں گے۔ ان کی نگاہیں انکی طرف لوٹ نہ سکیں گی اور انکے دل (مارے خوف کے) ہوا ہو رہے ہونگے۔
43۔” مھطعین “ حضرت قتادہ کا قول ہے تیزی کے ساتھ بلانے کی طرف دوڑیں گے۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ تیزی کے ساتھ دوڑنا جیسے کہ بھیڑیا کا بھاگنا ۔ مجاہد (رح) کا قول ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کے منہ آسمان کی طرف ہوں گے کوئی کسی کی طرف نہیں دیکھنے گا ۔” لا یرتد الیھم طرفھم “ ان کی شدت نظر کی وجہ سے وہ اپنی آنکھوں کو دوسری طرف نہیں لگائیں گے بلکہ ٹکٹکی باندھے اوپر ہی کی طرف نظریں جمائے رکھیں گے ۔” وافتدتھم ھواء “ ان کے دل بالکل حواس سے خالی ہونگے ۔ قتادہ (رح) کا قول ہے کہ ان کے دل سینے کی طرف آجائیں گے اور گلے میں اٹک جائیں گے ، نہ منہ سے باہر آئیں گے اور نہ ہی واپس اپنی جگہ لوٹیں گے۔ ان کے دل ہواہو جائیں گے ، یعنی ان کے اندر کچھ نہیں ہوگا ، اسی وجہ سے آسمان اور زمین کے درمیانی خلاء کو ہوا کہتے ہیں ۔ بعض نے کہا کہ ان کے دل خوف کی وجہ سے خالی ہوں گے۔ اخفش کا قول ہے کہ ان کا دماغ خالی ہوجائے گا ، اس میں کوی عقل نہ ہوگی اور عرب کے نزدیک ہر اس شخص کو خالی کہتے ہیں جس میں کوئی فہم نہ ہو سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ان کے دل ہواہوں گے ۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دل بےتاب اور بےقرار ہوں گے ، کسی جگہ ان کو قرار نہیں ہوگا ۔ اس کا حقیقی معنی یہ ہے کہ دل اپنی جگہ سے ہٹ چکے ہوں گے اور نظریں اوپر کو اٹھی ہوئی ٹکٹکی باندھے تک رہے ہوں گے۔
Top