Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 33
كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِیْنَ فَسَقُوْۤا اَنَّهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
كَذٰلِكَ : اسی طرح حَقَّتْ : سچی ہوئی كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فَسَقُوْٓا : انہوں نے نافرمانی کی اَنَّھُمْ : کہ وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
اسی طرح خدا کا ارشاد ان نافرمانوں کے حق میں ثابت ہو کر رہا کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے
کذالک حقت کلمت ربک علی الذین فسقوا انھم لایومنؤن۔ اسی طرح آپ کے رب کی یہ (ازلی) بات کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے ‘ تمام سرکش لوگوں کے حق میں ثابت ہوچکی ہے۔ یعنی جس طرح اللہ کی ربوبیت ثابت شدہ ہے اور جس طرح حق کے بعد محض گمراہی کا ہونا طے شدہ ہے ‘ یا جس طرح اللہ نے ان لوگوں کو ایمان سے پھیر دیا ہے ‘ اسی طرح اللہ کا سابق ازلی فیصلہ کہ میں جہنم کو انسانوں سے اور جنات سے بھر دوں گا ‘ پورا ہوگیا (حضرت مؤلف کے نزدیک کلمۂ رب سے مراد ہے اللہ کا یہ فیصلہ کہ جہنم کو انس و جن سے بھروں گا اور حضرت مولانا تھانوی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے کہ کلمۂ رب ہے اللہ کا یہ ازلی فیصلہ کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے) ۔ فسق سے مراد ہے حدود صلاح سے خارج ہوجانا اور کفر میں سرکش بن جانا۔ اَنَّھُمُ لاَ یُؤْمِنُوْنَ کَلِمَۃُ رَبِّکَ سے بدل ہے ‘ یعنی کلمۂ رب یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے ‘ یا کلمہ کی حقیقت کی علت ہے یعنی اتمام کلمہ اور ان کے دوزخی ہونے کے وعدہ کی تکمیل کی علت یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
Top