Tafseer-e-Baghwi - Al-Hijr : 95
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم كَفَيْنٰكَ : کافی ہیں تمہارے لیے الْمُسْتَهْزِءِيْنَ : مذاق اڑانے والے
ہم تمہیں ان لوگوں (کے شر) سے بچانے کے لئے جو تم سے اسہزا کرتے ہیں کافی ہیں۔
(95)” انا کفیناک المستھزئین “ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کا حکم پکار کر سنائو، اللہ کے سوا کسی سے مت ڈرو، تمہارے لیے اللہ کافی ہے، تمہارے دشمنوں سے جیسے اللہ کافی ہے مذاق کرنے والوں کے متعلق استہزاء کرنے والے قریش کے بڑے بڑے سرغنہ آپ ﷺ کے ساتھ استہزاء کرنے والے رئوسا قریش کی تعداد پندرہ تھی۔ ولید بن مغیرہ یہ سب گروہ کا سرغنہ تھا اور دوسرے سردار عاص بن وائل سہمی، اسود بن مطلب بن حارث بن اسعد بن عبدالغزی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے بددعا کی تھی اور فرمایا تھا ” اللھم اعم بصرہ “ اے اللہ ! اس کو اندھا کردے، اس کو لاولد کردے۔ اسود بن عبد یغوث بن وہب بن عبد مناف بن زہرۃ۔ حارث بن قیس بن الطلالۃ۔ حضرت جبرئیل بنی کریم ﷺ کے پاس آئے، اس وقت ٹھٹھا کرنے والے کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ ولید بن مغیر آپ کی طرف سے گزرا۔ اتنے میں جبرئیل (علیہ السلام) آگئے اور رسول اللہ ﷺ کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوگئے اور کہا محمد (ﷺ) تمہارے نزدیک یہ کیسا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا برا بندہ ہے۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا آپ کا کام پورا کردیا گیا۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ نے کہا آپ کا کام پورا کردیا گیا۔ پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے ولید کی پنڈلی کی طرف اشارہ کیا۔ چناچہ ایک روز ولید کسی خزاعی آدمی کی طرف سے ہوکر نکلا، وہ شخص اپنے تیروں کے پَر ٹھیک کر رہا تھا۔ ولید اس وقت یمنی چادر اوڑھے تہبند زمین میں کھینچتا ہوا چل رہا تھا۔ خزاعی شخص کے تیر کی بوری ولید کے تہبند سے اٹک گئی۔ انتہائی غرور کے ساتھ نیچے جھک کر بوری کو تہبند سے نکالنا گوارہ نہ کیا اور زور سے اپنی پنڈلی کو دے ٹپکا، بوری سے پنڈلی میں خراش لگ گئی اور اسی خراش سے یہ مرگیا۔ اس طرح عاص بن وائل بھی نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرا۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے دریافت کیا کہ یہ کیسا بندہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا۔ بُرا بندہ ہے۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے عاص کے پائوں کے تلوئو (رح) کی طرف اشارہ کرکے کہا آپ کا کام ہوگیا۔ چناچہ ایک روز عاص تفریح کرنے کے لیے اونٹنی پر سوار ہوکر اپنے دونوں لڑکوں کو ساتھ لے کر مکہ سے باہر نکلا اور کسی گھاٹی میں جا کر اترا، وہاں کپڑے کا کوئی ٹکڑا تھا، عاص نے اس پر قدم رکھا، کپڑے میں کوئی کانٹا تھا، کانٹا اس کے تلووے میں چبھ گیا۔ عاص فوراً چلایا کہ مجھے کسی کیڑے نے ڈس لیا، لوگوں نے تلوے کو دیکھا لیکن ڈھونڈے کے بعد کوئی بھی چیز نظر نہ آئی، ٹانگ سوج کر اونٹ کی گردن کی طرح ہوگئی، آخر وہیں اسی وقت واصل جہنم ہوگیا۔ اسی طرح اسود بن مطلب کا گزر بھی نبی کریم ﷺ کے پاس سے ہوا۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے سوال کرنے پر جواب دیا کہ یہ بُرا بندہ ہے اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے پہلے کی طرح کہا اور اسکی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا اور وہ نابینا ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے ایک سبز پتہ اسود پر مارا، اس سے وہ اندھا ہوگیا اور آنکھوں میں اتنا درد ہوا کہ وہ اپنا سر دیوار پر مارنے لگا، آخر وہ اسی مرض میں مرگیا۔ کلبی (رح) کی روایت کا بیان ہے کہ اسود اپنے غلام کے ساتھ درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور اس کا سردرخت کے ساتھ پٹخنے لگے اور منہ پر کانٹے مارنے لگے۔ اسود نے خوب شور برپا کیا اور غلام سے مدد طلب کی۔ غلام نے کہا کہ مجھے تو کچھ نظر نہیں آتا، آپ خود ہی یہ حرکت کر رہے ہیں، اس پر وہ کہنے لگا کہ مجھے محمد (ﷺ) کے رب نے قتل کردیا، یہ کہتے کہتے مرگیا۔ اور اسود بن یغوث آپ ﷺ کے پاس سے گزرا۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا کہ اے محمد ! (ﷺ) آپ اس کے متعلق کیا کہتے ہو ؟ فرمایا یہ بُرا بندہ ہے۔ باوجود یہ کہ میرے ماموں کا بیٹا ہے۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ اس کے متعلق فکر من مت ہوئیے اور اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا جس سے اس کا استسقاء بطن ہوگیا اور مرگیا۔ کلبی (رح) کی روایت میں ہے کہ اسود گھر سے نکلا، باہر گرمی کی لولگ رہی تھی، لو لگنے سے اس کا رنگ کالے حبشی کی طرح ہوگیا، گھر کو لوٹا تو گھر والوں نے اسے پہچانا بھی نہیں اور باہر نکال کر دروازہ بند کرلیا۔ اسی حالت میں وہ مرگیا اور مرتے مرتے کہتا رہا مجھے محمد (ﷺ) کے رب نے قتل کیا ہے۔ حارث بن قیس کے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ یہ برا بندہ ہے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے حارث کے سر کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا کہ آپ کا کام کردیا گیا۔ اب آپ کو ضرورت نہیں۔ چناچہ اس کی ناک سے پیپ کی ریزش ہونے لگی، اسی سے وہ بھی مرگیا۔
Top