Tafseer-e-Baghwi - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی تکلیف دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔
(126)” وان عاقبتم فعا قبوا بمثل ماعوقبتم بہ “ ۔ وان عاقبتم فعا قبواکا شان نزول : یہ آیات مدینہ میں نازل ہوئیں شہداء احد کے متعلق۔ اس کا واقعہ یہ ہوا کہ جب مسلمان نے مشرکوں کے فعل کو دیکھا کہ انہوں نے مسلمانوں کے شہداء کے ساتھ مثلہ اور ان کے پیٹوں کو چیرا گیا ۔ احد کے شہداء میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا جس کا انہوں مثلہ نہ کیا ہو ، سوائے حنظلہ بن راہب کے کیونکہ ان کا والد عامر الراہب ابو سفیان کے ساتھ تھا اس وجہ سے اس کو مثلہ کرنے سے چھوڑ دیا ۔ اس پر مسلمانوں نے کہا اگر ہم کو کسی روز ایسا موقع ہاتھ لگا تو ہم بھی ان کی حالت قابل رحم بنادیں گے ۔ جیسا کہ عرب میں سے کسی نے ایسا عمل نہیں کیا ہوگا ۔ آپ ﷺ اپنے چچا حمزہ بن عبد المطلب کے پاس کھڑے ہوئے اور دیکھا کہ ان کے ناک ، کان اور شرمگاہ اور پیٹ کو چیر دیا گیا ہے اور ہندبنت عتبہ نے حضرت حمزہ ؓ کا کلیجہ نکال کر چبا یا لیکن اس کو نگل نہ سکی تو پھر باہر تھوک دیا ۔ اس وقت حضر نبی کریم صلی اللہ لعیہ وسلم اپنے چچا کی لاش کے قریب پہنچے اور فرمایا ، اگر یہ اسکو کھا لیتی تو وہ کبھی دوزخ میں نہ جلتی ۔ حضرت حمزہ ؓ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت معظم ومکرم ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے جسم کے کسی حصہ کو بھی جہنم میں داخل نہیں کرے گا ۔ جب نبی کریم ﷺ کی نظر حضرت حمزہ ؓ پر پڑی تو آپ ﷺ کا دل اتنا رنجیدہ ہوا جتنا کسی اور چیز کو دیکھ کر نہیں ہوا ۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تجھ پر اللہ کی رحمت ہو (اے ابو السائب ) مجھے معلوم ہے کہ آپ بڑے نیک کردار اور صلہ رحمی کرنے والے تھے ۔ اگر آپ کے بعد رہنے والوں کے رنجیدہ ہونے کا خیال نہ ہوتا تو مجھے اس بات سے خوشی ہوتی کہ آپ کو یونہی چھوڑ دوں تاکہ آپ کا حشر متعدد گرہوں کے اندر سے ہو ۔ خدا کی قسم ! اگر اللہ نے مجھے ان پر فتح عنایت کی تو آپ کی جگہ میں ان کے سر آدمیوں کو ضرور ضرور مثلہ کروں گا ، اس پر اللہ نے مذکورہ آیات نازل فرمائیں ۔ ” وان عا قبتم فعا قبوا “…” ولئن صبر تم لھو خیر للصابرین “ اگر تم ان کو معاف کرو گے تو تمہارا ان کے لئے معاف کردینا بہتر ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا بل کہ ہم اس پر صبر کریں گے اور جس کا تم ارادہ کرتے ہو اس سے رُک جائو اور اپنی قسموں کا کفار دو ۔ ابن عباس اور ضحاک کا قول ہے کہ اس آیت کا حکم برأت کے نزول سے پہلے تھا جبکہ حضور ﷺ کو خود آغاز قتال سے منع کیا گیا تھا اور لڑنے والوں سے لڑنے کا قول ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ہوئی ۔ جن لوگوں نے ظلم کیا ہو ان کے ظلم کے مطابق انتقام لینے کا حکم آس آیت میں دیا گیا ہے ۔ یہی اس کا شان نزول ہے ۔ ظالم نے جتناز ظلم کیا ہو اس سے زیادہ انتقام لینا جائز نہیں ۔ بقدر ظلم بدلہ لیا جاسکتا ہے اور معاف کردینا بہتر ہے ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
Top